انتہا پسند تنظیمیں اسلام کے دامن پر داغ

غضنفر علی خان
اسلام کے نام پر مختلف ممالک میں ایسی تنظیمیں کام کررہی ہیں جن کا مذہب اسلام سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ ایسے گروہ ہیں جنہیں اسلامی کہلانے کا حق نہیں اور جو حکومتیں یا میڈیا ان کو اسلامی انتہا پسند تنظیمیں کہتا ہے وہ بھی یکلخت غلط ہے ۔ اسلام اور انتہا پسندی میں کوئی تعلق نہیں جو انتہا پسند ہوتا ہے وہ مسلمان ہی نہیں ہوتا اور جو مسلمان ہوتا ہے وہ اس رجحان کو کبھی پروان نہیں چڑھاتا بلکہ اس کی بیخ کنی کرتا ہے ۔ جس دین مبین نے عبادتوں میں تک اعتدال برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے وہ کیسے شدت پسندی کو جائز قرار دے سکتا ہے ۔ ان دنوں مختلف ممالک میں ایسے شدت پسند گروہ یا تنظیمیں سرگرم ہیں ، ان کی پرتشدد حرکتوں سے آج اقطائے عالم میں اسلام رسوا سربازار ہورہا ہے ۔ ان میں طالبان ، داعش ، بوکوحرام اور پاکستان کے بعض گروہ جیسے لشکر طیبہ ، لشکر جھانگوی، سپاہ صحابہ بھی شامل ہیں ۔ ان کی موجودگی باعث رسوائی اسلام اور روئے زمین پر انسانی اخوت اور بھاری چارہ کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ ایسی جماعتوں اور گروہوں کی سرکوبی کے لئے بشمول امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور کئی یوروپی ممالک کمربستہ ہے ۔ یہ کوشش ازخود دہشت پسندی کو فروغ دے رہی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں اس خون ریزی نے کویت ، تیونس ،شام ، عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ ان تنظیموں کے نام ہی پرفریب ہیں ۔ شام و عراق میں داعش ہی کی مثال لیجئے ۔ مذہب اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے واقف کوئی بھی شخص داعش کی خون ریزی کی تائید نہیں کرسکتا ۔ خواتین کا اغوا ، انھیں اپنی حراست میں رکھنا ، ان کی آبرو ریزی کرنا ، بے گناہوں کو بم دھماکوں سے اڑادینا ، اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کو محض اس لئے ہلاک کردینا کہ وہ شیعہ تھے ، یا جیسا کہ پاکستان میں اکثر ہوتا ہے جواباً سنی عقیدہ کی مساجد میں دھماکہ کرنا ، یا صحن مسجد میں کچھ جانمازوں کو ، نمازیوں کو ہلاک کردینا ، کسی اسلامی تعلیمات میں شامل ہے ؟ ۔ ایسا کرنے والے خود کو مسلمان کیوں کر کہتے ہیں جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس کی بنیادی تعلمات میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک شخص واحد کا قتل ساری کائنات کے قتل کے مماثل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے ۔ بھلا مساجد میں سجدہ ریز انسانوں کا قتل عبث کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے ۔

کویت میں ہی نہیں اور کئی مقامات پر مساجد میں نمازیوں کو شہید کردیا گیا ۔ یہ سلسلہ ہے کہ رک ہی نہیں رہا ہے ۔ پاکستان کے شہر پشاور میں بچوں کے ایک اسکول پر پاکستانی طالبان نے مسلح حملہ کرکے 132 معصوم طلبہ کو بیک وقت موت کی نیند سلادیا اور بڑے فخر کے ساتھ ان پاکستانی طالبان نے یہ اعلان کیا کہ وادی سوات میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہونے والی کارروائیوں میں ان کے مرد و زن ہی نہیں بلکہ بچے بھی مارے جارہے ہیں یہ اسی کا بدلہ ہے ۔ کس کا انتقام کس سے لیا جارہا ہے ۔ کون کس کا قتل کررہا ہے ۔ داعش گروپ جس کو کسی قیمت پر موافق اسلام نہیں کہا جاسکتا ہزاروں بے قصور لوگوں کو ہلاک کیا ہے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ ابھی ایک تازہ واقعہ میں شام میں دو خواتین کا سرقلم کردیا گیا جن پر شبہ تھا کہ وہ جادو اور سحر سے لوگوں کو پریشان کیا کرتی تھی ۔ نہ کوئی مقدمہ ، نہ کوئی گواہ ، صرف داعش کے عناصر نے کسی قانونی کارروائی کے بغیر دونوں کے سر قلم کردئے ۔ داعش ہو کہ کوئی اور تنظیم ہو اسلام کو اس طرح نقصان نہیں پہنچاسکتے ۔ ساری دنیا کو اس بات پر متحد ہونا چاہئے کہ کوئی مذہب اللہ کی زمین پر ایسے فتنے پیدا نہیں کرسکتا ۔ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا کے ممالک کو سرجوڑ کر سوچنا چاہئے کہ اس قسم کی تنظیموں کا خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذہب کے نام پر کسی بھی قسم کی ناانصافی نہیں ہوسکتی اور اگر کہیں ہورہی ہے تو اس کا سدباب کیا جانا چاہئے چونکہ فی الحال مسئلہ کا تعلق اسلام سے ہے اس لئے عالم اسلام کو اس سلسلہ میں غور کرنا اور عملی اقدامات کرنا چاہئے کہ کسی کو مذہب اسلام کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ۔ ہاں یہ بات بھی صحیح ہے کہ دنیا میں اسلام دشمنوں کی کمی نہیں ہے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی مخفی گروہ ان نام نہاد مسلم تنظیموں کو ایسا خون خرابہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہو ۔ داعش کے ہمدرد مختلف عرب اور مغربی ممالک میں بھی ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں ۔

داعش کا دائرہ کا رجتنا بڑھے گا اتنا ہی نقصان ہوگا ۔ طالبان نے صرف اس وقت مثبت رول ادا کیا تھا جبکہ 1979 میں افغانستان پر سابق سوویت یونین نے حملہ کیا تھا ۔ اس وقت اپنے ملک افغانستان کی مدافعت کے لئے طالبان نے بڑی بہادری سے روس کا مقابلہ کیا تھا ۔ اس کے بعد سے آج تک طالبان نے اپنی شکل بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسے جیسے وقت گذرتا گیا طالبان نے اپنے منفی امیج کو ابھارا اب یہ نوبت آگئی ہے کہ طالبان ہی کو تشدد پسندی کی واحد علامت سمجھا جارہا ہے ۔ افغانستان سے یہ انتہا پسندی شروع ہوئی اور پاکستان کو متاثر کیا ۔ اب پاکستان میں طالبان موجود ہیں جو پاکستان کے نام نہاد مسلم معاشرہ میں بھی خون ریزی کررہے ہیں ۔ عراق ، شام ، تیونس ، کویت ، غرض کونسی جگہ ہے جہاں تشدد پسندی پروان نہیں چڑھ رہی ہے ۔ ان کو کسی اور نام سے یاد نہیں کیا جاتا سوائے دہشت پسند تنظیموں کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں ۔ ان کا وجود کسی ایک ملک کے لئے خطرناک نہیں بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے نت نئے خدشات کا سبب بنتا جارہا ہے حالانکہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو دین مبین کو رسوا کرنے کا موجب بن گئے ہیں ۔