نیہا دابھادے
وائی ایس آر سی پی :
وائی ایس آر کانگریس پارٹی ، آندھراپردیش میں ایک غالب پارٹی ہے جس کی صدارت جگموہن ریڈی کررہے ہیں ۔ پارٹی نے اپنے منشور میں اقلیتوں کی بھلائی کیلئے ایک الگ حصہ مختص کیا ہے ۔ اس میں اس بات کا وعدہ کیا گیا ہے کہ جس سے مسلمانوں اور عیسائیوں کی ثقافت پر توجہ مرکوزکی جائے گی ۔ علاوہ ازیں وقف بورڈ کی صیانت کیلئے تمام ریکارڈس کو ڈیجٹائزڈ کیا جائے گا اور اس ضمن میں خصوصی منصوبہ بندی کی جائے گی ۔ مسلمانوں کو مقدس سفر حج اور عیسائیوں کو ان کی مقدس سرزمین کی زیارت کیلئے خصوصی تعاون کیا جائے گا ۔
ائمہ و مؤذنین کو جو مسلم سماج کا سب سے پچھڑا طبقہ ہے، 15,000 روپئے خصوصی ماہانہ مشاہرہ دیا جائے گا اور عیسائی پادریوں کو 5000 روپئے ماہانہ ادا کئے جائیں گے ۔ اس منشور میں ائمہ مساجد کیلئے امکنہ فراہم کئے جائیں گے اور پادریوں کیلئے شادیوں کا رجسٹریشن کا مرحلہ میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی ۔ اس طرح ، اس منشور میں اقلیتوں کی ثقافت پر کافی زور دیا گیا ہے جبکہ سماجی و معاشی یا سیاسی برابری / غیر متعصبانہ معاملات سے سرد مہری ظاہر کرتے ہوئے یہ سب اعلانات بے معنی و بے فیض ثابت ہوتے ہیں اور یہ صرف بطور ٹوکن انتہائی اقلیتی حصہ سے جانبدارانہ رویہ ہے۔
دیگر چیزوں میں جس میں بشمول فلاحی یا پھر مالی اعانت / امداد مسلمان و عیسائی ، دلہنوں کو ایک لاکھ روپئے وائی ایس آر کنکا اسکیم کے تحت دیئے جائیں جبکہ حادثاتی اموات / ہلاکت کے سلسلہ میں مسلم و عیسائی خاندانوں کو 5لاکھ روپئے کی امداد دی جائے گی ۔ اس منشور میں یہ بھی کہا گیا کہ اقلیتوں کیلئے ذیلی منصوبہ بھی روبہ عمل لایا جائے گا جو بالکل شفاف ہوگا جس کی کوئی تفصیلات افشاء نہیں کی جائیں گی ۔ ان نقائص سے معمو منصوبہ بندیوں میں سب سے اہم چیز اقلیتوں سے رابطہ کئے بغیر منصوبہ بنانا دراصل اقلیتوں کو دھوکہ دینے کے مماثل ہے۔
ڈراوڈا منیترا کا زھاگم( ڈی ایم کے)
ڈی ایم کے ، ٹاملناڈو کی ایک پارٹی کا نام ہے جو ڈراوڈین پہچان رکھتی ہے ۔ وہ ، اتنے زبردست اور طاقتور ہیں کہ وہ ’’ ٹامل ایلم ‘ کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں ۔ ان کے ایجنڈہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ وہ مرکز میں ’’ ٹامل زبان ‘‘ کو سرکاری زبان قرار دیں گے اور سری لنکا کی ٹامل ایلم کے کاز کی حمایت کریں گے ۔ وہ ، اپنی ثقافت اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریںگے ۔ علاوہ ازیں ، ان کے منشور میں سب سے زیادہ زور حق مساوات/ بناکسی امتیاز کے اقلیتوں کو حسب ذیل نکات کے تحت دیئے جائیں گے ۔ ڈی ایم کے منشور میں اس بات کی طمانیت دی گئی ہے کہ ’’ سچر کمیٹی ‘‘ کی سفارشات کے بموجب مسلمانوں کو بہتر روزگار / ملازمتیں اور تعلیمی مواقع مہیا کئے جائیں گے ۔ مزید براں، رنگناتھ مشرا کمیشن رپورٹ کی سفارشات کو بھی شامل کیا جائے گا جس کے تحت او بی سی فہرست میں مسلمانوں کو شامل کرنا ہے ۔ اس ضمن میں دلت کرسچنس کو بھی ’’ ایس سی فہرست میں شامل کیا جائے گا بالکل اسی طرح جس طرح دلت ، بدھ ازم کو اپنانے پر کیا جاتا ہے ۔ مولانا آزاد ایجوکیشنل فنڈ میں حکومت کی جانب سے فنڈ میں اضافہ کیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ اس فنڈ کو وزارت اقلیتی اُمور اقلیت کے پسماندہ طبقات کو تعلیمی ضروریات پر فنڈ میں سے خرچ کرتی ہے ۔تاہم یہ بات ذہن نشین رہے کہ فنڈس میں متعدد کمی کی وجہ سے وزارت اقلیتوں کی تعلیمی صورتحال میں بہتری کیلئے اسکالرشپس دینے کیلئے اس کے پاس خاطرخواہ فنڈ نہیں ہوتا ۔ آخر کار یہ منشور ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم چاہتی ہے جو پنسارے ،کلبرگی اور گؤری لنکیش کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات آزادانہ طور پر کرسکے اور ان قاتلین کے ٹولہ کو کیفر کردار تک پہنچا سکے ۔
آل انڈیا انا ڈی ایم کے
ڈی ایم کے کی اصل حریف آل انڈیا انا ڈی ایم کے ہے جو ٹاملناڈو میں برسراقتدار ہے ، وعدہ کیا ہے کہ وہ ایس سی ،ایس ٹی کے طرز پر جو عیسائیت کو اپنائیں گے یا پھر اسلام قبول کرلیں گے ۔ انہیں زبردست ترغیبات دی جائیں گی ۔ اس کے بالکل برعکس آل انڈیا انا ڈی ایم کے منشور کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ سماجی انصاف اور سیکولرازم کے اصولوں پر مضبوطی سے کاربند رہے گی ۔ اس وضاحت سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ انا ڈی ایم کے، کے پاس اقلیتوں کیلئے کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے اور نہ وہ کوئی واضح ایجنڈہ رکھتی ہے ۔
بیجو جنتادل ( بی جے پی)
بی جے ڈی ، اڈیشہ کی برسراقتدار پارٹی ہے و اڈیشہ میں نسلی منافرت کے ہولناک فسادات کندھامل ، 2008 اور 2010 میں وقوع پذیر ہوئے تھے جس میں آدی واسی ، کرسچنوں کو اپنے گھروں سے فرار ہونے پرمجبور کیا گیا اور بعد ازاں انہیں گھروں کو واپس ہونے پر ان کے گھروں میں داخل ہونے نہیں دیا گیا ۔ علاوہ ازیں چرچس پر بھی حملے روا رکھے گئے حتی کہ ننوں کی بھی بے حرمتی کی گئی ۔ اس طرح کرسچنوں نے ہر قسم کے ظلم و ستم کو جھیلا ۔ ایک ایسی تحریک چلائی گئی جس کے تحت اڈیشہ میں موجود آدی واسیوں کو ’’ ہندو ‘‘ بنانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے آزادی مذہب و یقین پر کاری ضرب لگی اور ثقافتی پہچان کو اقلیتوں سے چھین لیا گیا ۔ اس ضمن میں منشور میں مظلوم اقلیتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ۔
مزید براں ، حق برائے سلامتی یا غیر امتیاز پر بھی یہ منشور خاموش ہے ۔ تاہم دکھاوے کیلئے چند وعدے کئے گئے جس میں مفت تعلیم برائے اناث ( لڑکیاں ) ، ایس سی / ایس ٹی ، اقلیتیں ، پسماندہ طبقات اور غریب ہونہار طلبہ جو دوسری ذاتوں اور طبقات سے وابستہ ہیں اور گریڈیشن حوصلہ افزائی اور ترغیب و تحریک کیلئے دیا جانے والا انعام برائے ایس سی / ایس ٹی ، پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو روزگار میں مہارت کیلئے دیا جانے والا 25,000 روپئے شامل ہیں ۔بی جے ڈی نے اقلیتی طلبہ کیلئے تمام سطحوں پر اقلتیوں کے شادی میں بطور تعاون ، غریب اقلیتی خاندانوں کی دو لڑکیوں کی شادی کروائی جائے گی ۔ علاوہ ازیں ،اقلیتی آبادی سے معمور علاقوں میں ورلڈ کلاس کمیونٹی سنٹر قائم کئے جائیں گے۔
لیفٹ پارٹیز
لیفٹ پارٹیز کو علاقائی جماعتوں کے زمرہ میں نہیں رکھا جاسکتا ۔ان کا ایک الگ ہی پس منظر ہوتا ہے جہاں سے وہ ابھرتے ہیں اور ایک وسیع جمہوری ایجنڈہ ہوتا ہے ۔ ان کا سارا زور ، زیادہ تر نظریہ ساز ہوتا ہے جو سماج میں مزدور طبقہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جسے سماج میں حاشیہ میں رکھ دیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں سی پی آئی ( مارکسی) پارٹی ، کیرالا اور مغربی بنگال میں زبردست طاقت کی حامل پارٹی ہے ۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ امتیازات سے دور ہے یا پھر بہتر سماجی و معاشی اسٹیٹس برائے اقلیت مغربی بنگال میں رکھنے کی حامل ہے ۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا میں جہاں انتہائی تیزی سے سماجی اور معاشی منظر نامے میں گذشتہ پانچ برسوں میں تبدیلیاں در آرہی ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے افس کے انتخابی منشور کا تجزیہ کرنا دلچسپ ہوگا ۔
سی پی آئی
سی پی آئی کا انتخابی منشور کا آغاز سیکولر جمہوری سلطنت اور دستوری اخلاقیات پر زور دیتے ہوئے ہوتا ہے ۔ وہ یہ مانتی ہے کہ دستور(ہند) کی اساس، بنیادی طور پر ، سیکولرازم پر مشتمل ہے ۔ اس ضمن میں یاد رکھنے کی بات یہ ہیکہ ہندوستانی سماج نے کئی چیلنجس کو جھیلا ہے جس کو منشور میں درج کیا گیا ہے ۔ان میں دلتوں ، قبائیلیوں اور اقلیتوں بطور خاص مسلمانوں کو تحفظ گائے اور لوجہاد کے نام پر ہجومی تشدد کے ذریعہ انہیں ہلاک کرنا شامل ہے ۔ نفرت کی سیاست، بعد ازاں ان کو اپنے مطلب میںڈھالنا، مسلمانوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنے کیلئے غیر ضروری مسائل میںالجھانا جیسے طلاق ثلاثہ ، بابری مسجد ، ایودھیا مسئلہ اور قانون شہریت میں ترمیم وغیرہ شامل ہیں ۔
اس حد تک منشور میں اس بات کو قبول کیا گیا ہے کہ اقلیتو ںکیلئے حق سالمیت و ثقافت کے معاملہ میں انہیں کوئی آسانی حاصل نہیں ہے ۔ اس ضمن میں منشور میں اقلیتوں کیلئے خصوصی طور پر دو حقوق پر خاص زور دیا گیا ہے جس میں پہلا حق سلامتی اور دوسرا حق غیر امتیاز ہے ۔ منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ سچر کمیٹی رپورٹ رگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو ایسے ہی روبہ عمل لایا جائے گا جیسے کہ دلتوں کو ریزرویشن دیا گیا ہے ۔
یہ ایک بہترین و مثبت اقدام ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کی سماجی اور معاشی صورتحال کو بہتر بنایا جاسکے گا ۔ دونوں رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم اور روزی روزگار کے سلسلہ میں زائد بجٹ مختص کیا جائے اور انہیں ریزرویشن میں او بی سی فہرست میں شامل کیا جائے ۔ اس منشور میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ عدلیہ میں تمام سطحوں پر خواتین ، ایس سی / ایس ٹی / او بی سی اور اقلیتی کمیونٹی کو شامل کرتے ہوئے انہیں مناسب نمائندگی عطا کی جائے ۔ حق سالمیت اور ثقافت جتنی اہم ہے اسی طرح اقلیتوں کو مذکورہ طریقہ سے انہیں ابھارا جائے کہ وہ معاشی مساوات اور سیاسی نمائندگی کا حق بھی اس سلسلہ میں زبردست مدد دے گا ۔ حق سالمیت کے ضمن میں منشور میں وعدہ کیا گیا ہے وہ ہجومی تشدد پر قابو پانے کیلئے ایک قانون مدون کریں گے جس کے ذریعہ مجرمانہ حرکتوں پر سرکاری عہدیداروں پر کمان کی ذمہ داری عائد ہوگی ۔ علاوہ ازیں نیشنل کمیشن برائے اقلیتوں کو دستوری حق دینے کیلئے دستوری ترمیم کی جائے گی ۔ اس ذریعہ اس کمیشن کو برائے نام اختیارات سے اس کو خصوصی اختیارات حاصل ہوسکیں گے جس کی وجہ سے اُس کی فعالیت میں زبردست تبدیلی در آئے گی ۔ اگر کمیشن کو دستوری رتبہ دیا جاتا ہے تو وہ ان نااہل عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکیں گے جو نہ تو سماعت کرتے ہیں یا جن پر اقلیتو ں کی حفاظت کے فرائض منصبی سے غفلت برتنے کا الزام ہے
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( مارکسی نظریہ )
پارٹی نے اپنے منشور میں اس بات کا عہد کیا ہے کہ وہ سیکولر اصولوں اور جمہوری حقوق برائے اقلیتوں کی حفاظت کیلئے ہمیشہ ایک قدم آگے رہے گی ۔ اس ضمن میں اُس میں یہ بھی کہا گیا کہ نسلی منافرت کے قلع قمع کرنے کیلئے وہ ایک ایسا قانون مدون کرے گی جس کے ذریعہ اُس کا تدارک کیا جاسکے گا اور اقلیتوں کے معصوم و ناکردہ گناہ عوام کی جانوں کی سلامتی ممکن ہوگی ۔
علاوہ ازیں تیز رفتار انصاف ، مناسب بھگتان ادائیگی اور نسلی منافرت کا شکار معصوم افراد کو ریاست کی راست حمایت حاصل رہے گی ۔ اسی طرح وہ چاہتی ہے کہ نسلی منافرت پھیلانے والوں کو قرار واقعی سزا دیتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچائے ۔ بلالحاظ اس کے ان کی شخصی یا دیگر حیثیت یا رتبہ کیا ہے ۔ ہجومی تشدد کے معاملہ میں کہ جس میں اقلیتوں کو ہدف بنایا جاتا ہے ، ان تنظیموں اور اداروں کے خلاف جو نفرت پھیلانے میں گہرا کردار ادا کرتے ہیں ان کیساتھ آہنی پنجہ سے کچلنے والی پالیسی اپنائی جائے گی اور دہشت پیدا کرنے کیلئے ذاتی غنڈوں کی غیر قانونی فوج بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس پر قانونی طور پر سخت ترین امتناع عائد کیا جائے گا ۔ اس منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو بناکسی استحصال اور باعزت و باوقار طریقہ سے زندگی گذارنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اوران کے تمام حقوق کی حفاظت کی جائے گی ۔ اس کو یقینی بنانے کیلئے سی پی آئی کے جیسے اقدامات کرے گی تاہم سی پی آئی ( ایم ) اُس سے ایک قدم کم از کم آگے رہے گی ۔ سی پی آئی ( ایم) اقلیتی کمیشن کو ایک قانونی حیثیت میں تبدیل کرتے ہوئے اُس کے اختیارات میں زبردست اضافہ کرے گی اور اس کے صدرنشین کو ایک مستقل حیثیت دے گی ۔
اس کی کوشش ہے کہ وہ رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرے بطور خاص او بی سی مسلمانوں کو او بی سی کوٹہ میں شامل کرے جس کے تحت انہیں ریاست واری حصہ ملے۔ پارٹی مسلمانوں کو بینکس میں 15فیصد کوٹہ مختص کرے گی اور قرضوں کی ادائیگی میں خود روزگار مسلم نوجوانوں کو سبسیڈی دے گی ۔ مسلم اقلیت کیلئے ایک ذیلی منصوبہ بخطوط قبائلی ذیلی منصوبہ بنایا جائے گا تاکہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر عملی نفاذ کیا جاسکے کہ جس کی وجہ سے میناریٹی ایریا ڈیولپمنٹ پروگرام پر عمل آوری ممکن ہوسکے ۔ اس طرح اس منشور میں کسی کے بھی ساتھ کوئی خصوصی عمل نہیں کیا جائے گا بلکہ سب ، حق مساوات کے مزہ سے لطف اندوز ہوسکیں گے اگرچیکہ یہ منشور ثقافتی و تہذیبی اُمور پر خاموشی اختیار کی ہے ۔
نتیجہ
انتخابی منشورات مختلف سیاسی جماعتوں کے اقلیتوں کے مسائل کو لے کر نمائندگی کررہے ہیں ۔ جب ان کا تجزیہ کیا جائے تو اُن کو تین بڑے فریم ورکس کو بڑے حقوق میں جیسے حق سلامتی ، ثقافت اور غیراستحصال میںرکھا جاسکتا ہے ۔ زیادہ تر منشورات میں دو حقوق کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے جس میں پہلا حق سلامتی جس کے پس منظر میں نسلی منافرت پر مبنی فسادات اور ہجومی تشدد نہایت اہمیت کا حامل ہے اور دوسرا استحصال سے محفوظ رہنے کا حق کہ جس کے ذریعہ سماجی و معاشی رتبہ میں واضح فرق آئے گا اور اس میں بہتری آسکے گی ۔ یہ بات نہایت ہی خوش کن ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کی حالت زار کا اندازہ کرتے ہوئے سچر کمیٹی رپورٹ کی تفصیلات کو مزید واضح کرتے ہوئے ان کے نفاذ کا وعدہ کیا ہے ۔ علاوہ ازیں رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کو بھی روبہ عمل لانے کا وعدہ کیا ہے ۔ یہ ایک نہایت ہی مثبت قدم ہے کہ جس کی وجہ سے ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کو جو سابق میں ہائی جیک کرلیا گیا تھا اور ان کے تہذیبی و ثقافتی کردار کو مختلف سماجی دراڑوں کی تخلیق کے ذریعہ اُن کے درمیان موجود تنازعات کو خاص معنی پہناتے ہوئے انہیں غیر ضروری ابھارا گیا ۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے ماضی میں صرف ثقافتی مسائل کو علامتی طورپر لیتے ہوئے اور زبانی معاملات کے ذریعہ اقلیتوں کو سیاسی اور معاشی جمہوریت کے پھل سے مستفید ہونے سے محروم رکھا گیا ۔ حتی کہ بعض منشورات میں برسراقتدار سیاسی پارٹی نے اقلیتوں کی حق سلامتی پر انہیں خوف ہونے کے سبب اقلیتوں پر روا ظلم پر ہلکا سا احتجاج بھی درج نہیں کیا گیا اور جسے مشنور میں قابل ذکر بھی نہیں سمجھا گیا ۔
ایک جمہوری ملک میں اجتماعیت اور سیکولرازم کو اقلیتوں سے دور رکھا گیا بلکہ اس کے برعکس انہیں جمہوریت میں ایک خلاء کے طور پر دیکھا گیا تاکہ وہ آہستہ آہستہ جمہوریت سے اور اس کے ثمرات سے محظوظ نہ ہوسکیں ۔ اگرچیکہ حق ثقافت نہایت اہم ہے ۔ تاہم اس پورے عرصہ میں مجرمانہ غفلت برائے حق مساوات، زندگی اور سلامتی برائے اقلیتیں اس سے محروم رہیں اور انہیں شہری کی حیثیت سے بھی حقوق سے استفادہ کا موقع نہیں ملا ۔ کم از کم انتخابات کے موقع پر عارضی طور پر کاغذ پر ہی سہی ، کئی سیاسی جماعتوں نے اقلیتوں کیلئے اپنے منصوبے بناکر بتائے ہیں ۔ اب ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ یہ وعدے صرف انتخابی فائدہ کیلئے نہیں کئے گئے بلکہ سچی روح کے ساتھ ان (وعدوں) کو دستوری ذمہ داری سمجھتے ہوئے جمہوریت کی خواہش کو مزید مضبوط کرنے کا ذریعہ بنیں گے ۔