محمد مصطفی علی سروری
جناب میں بہت پریشان ہوں ۔ مجھے کوئی اچھی نوکری نہیں مل رہی ہے ۔ کوئی میری مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ میرے ماما کے دوست آپ سے ملنے کے لئے بولے کہ آپ اگر چاہیں تو کچھ مدد کرسکتے ہیں ۔ یہ میرا بائیو ڈاٹا ہے ۔ پلیز کچھ بھی کریئے مجھے اچھی سی نوکری دلادیجئے ۔ میں کئی برسوں سے ادھر ادھر پھر رہا ہوں ۔ باہر جانے کی کوشش کررہا ہوں مگر کامیابی نہیں ملتی ۔
ایک نوجوان میرے ای میل پر مسلسل مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کررہا تھا ، جب ایک دن اس سے ملاقات ہوئی تو یہ اس کی فریاد تھی ۔ 30 ، 35 برس کے اس نوجوان سے جب اس کا بائیو ڈاٹا لیکر میں نے دیکھا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ لڑکا تو صرف گریجویشن کامیاب ہے اور واقعی اس کو گریجویشن بھی پاس کئے آٹھ دس برس کا عرصہ بیت گیا اور سرکاری ملازمت کے لئے 25 تا 30 برس جو عمر کی قید ہے ، اس کے سبب وہ کسی سرکاری ملازمت کے لئے بھی اہل نہیں ہے ۔ جب اس سے دریافت کیا گیا کہ بابا آپ گریجویشن کرنے کے بعد اتنا طویل عرصہ کیا کرتے رہے تو اس کا جواب تھا انکل میں جاب hunting کررہا تھا ۔ دانتوں پر چڑھی پیلے پن کی ہلکی سے رنگت اور ہونٹوں کا سیاہی مائل رنگ چغلی کھارہا تھا کہ ان صاحب کو یا تو کوئی دانتوں کی بیماری ہے یا یہ بھی گھٹکا یا سگریٹ نوشی کے عادی ہیں ۔ پرانے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان چار تا پانچ ہزار کی نوکری کرنے کے لئے آمادہ نہیں ، اس کا کہنا ہے کہ مجھے گھر پر بڑی ذمہ داریاں ہیں ، مجھے کم سے کم دس تا پندرہ ہزار کی نوکری چاہئے ۔ لڑکے نے بی کام کیا تھا اور کسی ادارے سے پی جی ڈی سی اے کی سند بھی اس کے پاس تھی ۔ اب میں کیا کہتا جب سامنے والا بالکل ہی بند ذہن رکھتا ہو تو آپ اس کی چاہ کر بھی کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔ دعاؤں اور چند ایسے اداروں کے پتے دے کر اس نوجوان کو میں نے رخصت کردیا جو اس کی اہلیت اور قابلیت کے حوالے سے اس کو کچھ ملازمت دے سکتے ہیں ۔
نوجوان تو چلا گیا مگر بہت سارے سوالات اپنے پیچھے چھوڑ گیا کہ ہمارے نوجوان ڈگری بھی کامیاب کررہے ہیں مگر اس قابل بھی نہیںکہ عملی زندگی میں اپنی مدد آپ کرسکیں ۔ ہمارے ڈگری کامیاب نوجوانوں کا یہ عالم ہے اور ایک غیر ہیں جن کی مثال دینا چاہوں گا ۔
بنگلور سے ایچ پی برندا نے اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے کیریئر کالم میں لکھا ہے کہ ’’میں ابھی دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہوں اور میں گیارہویں کلاس میں کونسے مضامین اختیار کروں اس حوالے سے پریشان ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ IIT میں میرا داخلہ ہو تو مجھے بتلایئے کہ میں کونسے سبجکٹ اختیار کروں ؟ مجھے یقین ہے کہ میں تعلیم میں بہتر مظاہرہ کروں گا ۔
ہندو اخبار میں ہی پون راؤ سوال کرتے ہیں کہ فی الحال میں 12 ویں کلاس میں سائنس سے تعلیم حاصل کررہا ہوں مجھے یہ بتلایئے کہ ہندوستان میں کونسے ایسے انجینئرنگ کالجس ہیں جہاں پر Mining ٹکنالوجی میں تعلیم دی جاتی ہے ۔
فیس بک پر ان دنوں امریکہ میں مقیم ایک بزرگ خاتون کافی مقبول ہوچکی ہیں ۔ دنیا بھر سے نوجوان ان کے ویڈیوز پسند بھی کررہے ہیں اور ان سے دعاؤں کی درخواست کررہے ہیں ۔ ایسے ہی ایک نوجوان نے سعودی عرب سے فرمائش کی کہ وہ بزرگ خاتون اس نوجوان کو اچھی جاب کی تلاش کے لئے دعا کریں ۔ ’’امی سے پوچھو‘‘ کے اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد احساس ہوا کہ جو قوم بغیر محنت اور حرکت کے صرف دعاؤں کے سہارے تبدیلیوں کی امید لگائے رکھی ہے ، ان کے لئے مثبت نتیجے کیوں نہیں نکل سکتے؟
کاروان کے رہنے والے شیخ عمران (نام تبدیل) کے والد بڑے پریشان تھے ایک تو ان کی نوکری کنٹراکٹ کی ہے اوپر سے انھیں ایسی بیماری نے آگھیرا کہ ہر ماہ انھیں چار پانچ ہزار روپئے علاج پر خرچ کرنا پڑرہاہے ۔ ان کے حالات جان کر ہم نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ کا لڑکا ایس ایس سی کامیاب ہے آپ ایسا کریں اس کو اردو یونیورسٹی کی آئی ٹی آئی میں داخلہ دلوادیں کوئی ہنر بھی سیکھ لے گا اور جلد ہی آپ کے لئے کچھ نہ کچھ ہاتھ بٹانے کا ذریعہ بن جائے گا ۔ شیخ عمران کے والد نے ہمارے اس مشورہ پر اپنے کام کی جگہ کے دوسرے ساتھی سے مشورہ کیا تو انھیں کہا گیا کہ ارے اردو یونیورسٹی سے پڑھنا بیکار ہے ۔ اچھے اچھوں کو جاب نہیں مل رہی ہے تو اردو یونیورسٹی سے آئی ٹی آئی کرنے کے بعد کیا جاب ملے گی ۔ شیخ عمران کے والد سے ہم نے دوسری مرتبہ پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ارے بھائی وہ اردو یونیورسٹی سے پڑھے تو کوئی value نہیں ہے ، ہمارے ایک دوسرے بولے اور ہمارا بچہ بول رہا تھا گچی باؤلی جانا بہت دور ہے ، ڈائرکٹ بس بھی نہیں ہے ۔ انھوں معلوم کرکے آیا ۔
ارے میں کیا بتاؤں دو برس بیت گئے شیخ عمران گذشتہ دو برسوں سے بیکار پھر رہا ہے والد بھی بیزار ہوگئے ۔ ایک میکانک کے ہاں اس کو کام پر رکھوایا لیکن وہاں بھی میکانک عمران سے بیزار ہے ۔ جتنا کچھ کماتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس کا ذاتی خرچہ ہے ۔ اس کے والد خود شکایت کررہے تھے یہ تو تلنگانہ کے نوجوان کا حال ہے لیکن حیدرآباد سے تقریباً 14 سوکیلومیٹر دور اترپردیش کے ضلع بستی سے اے یو خان نامی ایک دسویں کامیاب 18 برس کا لڑکا حیدرآباد آکر اردو یونیورسٹی کے پالی ٹکنیک میں داخلہ لیتا ہے ۔ سال 2011 میں کورس مکمل کرنے کے بعد اس کا تقرر دوبئی کی ملٹی نیشنل کمپنی میں ہوتا ہے اور آج وہ دبئی میں بہترین ملازمت کررہا ہے اور اس کی کامیابی کا یہ نتیجہ نکلا کہ صرف ضلع بستی اترپردیش سے کئی لڑکے اردو یونیورسٹی کے پالی ٹکنیک کورس میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے آگے آرہے ہیں ۔
اب بھی ہمیں اپنی غلطی کا احساس نہیں ہورہا ہے تو ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا کہ حیدرآباد سے ایک ہزار چھ سو تین کیلومیٹر دور ریاست بہار کا ایک علاقہ ہے دربھنگہ وہاں سے 12 ویں کامیاب ایک نوجوان ڈی ایڈ میں داخلہ کے لئے حیدرآباد کی اردو یونیورسٹی کا رخ کرتا ہے ۔ ڈی ایڈ کے کورس کے دوران اس نوجوان کو اسکالرشپ بھی نہیں ملتی اور رہنے کے لئے ہاسٹل بھی نہیں ، لیکن اس بہاری نوجوان کی ہمت کی داد دینی پڑے گی وہ کہتا ہے کہ میں حیدرآباد پڑھنے کے لئے آیا ہوں ، گھر والوں نے تو مجھے ٹرین کا کرایہ کا انتظام کرکے دیا تھا اب میں ہی حیدرآباد میں اپنے خرچے کا انتظام کررہا ہوں ۔ کرایے کے کمرے میں چند دوستوں کے ساتھ ہوں ، اگلے برس یونیورسٹی کا ہاسٹل مل جانے کی توقع ہے اور میں صرف بی ایڈ ہی نہیں بلکہ پی ایچ ڈی تک پڑھنا چاہتا ہوں اور اس دوران مجھے ڈی ایڈ اور بی ایڈ کرنے کے بعد ٹیچر کی نوکری مل جاتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ پی ایچ ڈی تک پڑھنا تو میرا Aim ہے اور میں اب گھر سے نکلا ہوں تو اپنا Aim پورا کئے بغیر واپس جانے والا نہیں ہوں ۔ یہ تو ان نوجوانوں کی بات ہے جو تلنگانہ اور آندھرا سے تعلق نہیں رکھتے ۔ ان کے ہاں عزم بھی ہے ارادے بھی پکے ہیں اور اپنے اہداف بھی بالکل واضح ہیں ۔
میں کیسے اپنے نوجوانوں کو قصوروار قرار دوں کہ ساری خرابی ان کی ہے میں تو ہمارے سرپرستوں ، بزرگوں سے سوال کرنا چاہوں گا کہ آپ حضرات نے کبھی اس حوالے سے سوچا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی زندگی کے مقصد سے دور کیوں ہیں ، انھیں محنت ، لگن اور جستجو سے کیوں دلچسپی نہیں ہے ۔ ان کی زندگی میں اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کے لئے جگہ کیوں نہیں ۔ آخر کیوں ہمارے نوجوان اپنے مفاد سے آگے دیکھ نہیں پارہے ہیں اور سب سے اہم بات ہمارے نوجوانوں کو خود اپنا مفاد کیا ہے صحیح کیوں سمجھ میں نہیں آرہاہے ۔
آج کے اس کالم میں ، میں نے ایک جگہ ’’امی سے پوچھو‘‘ نامی انٹرنیٹ کے صفحے کا ذکر کیا تھا اس کے ویڈیوز دیکھ کر مجھے لگ رہا ہے کہ نہیں ہمارا نوجوان اپنے سرپرست اور والدین سے دور نہیں ہے وہ تو ان سے جڑنے ان سے قریب ہونے کی چاہت رکھتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے جب محترمہ شائستہ نے اپنی والدہ کے نام سے ایک صفحہ ’’امی سے پوچھو‘‘ شروع کیا تو بہت سارے نوجوانوں کو اپنی امی ، نانی ، دادی کی یاد آگئی ، تبھی تو امریکہ میں پچھلے 30 برس سے اپنے بچوں کے ہاں مقیم 88 برس کی بزرگ خاتون روایتی حیدرآبادی کہانیاں ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ سناتی ہیں تو ان کے ایک ایک ویڈیو کو ہزاروں نوجوان پسند کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ دکھا کر اپنی امی ، نانی ، دادی کو یاد کررہے ہیں ۔
امریکہ کی اس بزرگ خاتون نے جب کدو کی کہانی سنائی تو 15 دن میں اس کہانی کے ویڈیو کو 40 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا اور پسند کیا ۔ حیدرآبادی نژاد اس خاتون نے ماں باپ کی اہمیت پر نصیحت کی تو 16 ہزار نوجوانوں نے اس کا مشاہدہ کیا ۔
طیارے میں سفر کے دوران پان کھانے پر ساتھی مسافروں کی حیرت پر بزرگ خاتون نے پان کو ہندوستانی چیونگم قرار دینے کا قصہ ویڈیو پر ریکارڈ کروایا تو صرف 3 گھنٹوں میں 3 ہزار لوگوں نے ہندوستانی چیونگم کے ویڈیو کو پسند کیا ۔
حیدرآباد میں ہورہی ایک فرضی ڈاکٹر کی شادی کا قصہ جب اس خاتون نے سنایا تو اس ویڈیو کو چند ہی دنوں میں 24 ہزار سے زائد لوگوں نے نہ صرف دیکھا بلکہ پسند کیا ۔
چوہے میاں کی دم کٹنے والی کہانی جب یہ خاتون امریکہ میں بیٹھ کر سناتی ہیں تو 15 دنوں میں 30 ہزار لوگوں نے دنیا بھر سے اس ویڈیو کودیکھا بھی اور پسند بھی کیا اور امی کی خوب تعریف کی ۔ ان کی باتوں کو پسند کیا ۔ امی سے پوچھوکے نام سے انٹرنیٹ پر پیش کئے جانے والے ان ویڈیوز کو جس بڑے پیمانے پر نوجوان پسند کررہے ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نوجوان آج بھی اپنی دادی ، نانی اور گھر کے بڑے بزرگ خواتین کو سننا چاہتے ہیں ۔ جو اگرچہ سناتی تو قصے کہانیاں تھی مگر ان قصے کہانیوں کے ذریعے سے بھی ہمارے بچوں کو جو سبق ملتا تھا اور ان کی جس طرح سے گھر پر تربیت ہوتی تھی آج وہی سب سے بڑی کمی اور سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔ آج بہو نہیں چاہتی کہ اس کے گھر میں ساس ہو اور خود بہو کے ہاں اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے طور پر ساس اپنے پوتوں کی تربیت کا جو سامان کرتی تھی وہ رول خود نبھائیں ۔
آج کی ماں کیا چاہتی ہے ، بچے پڑھیں لکھیں اور تھوڑی دیر باہر جاکر دوستوں کے ساتھ کھیلیں ۔ بچے اپنی زندگی میں بس ایک سبق پڑھ رہے ہیں کہ ہمارے دنیا میں آنے کا مقصد کوئی اچھی سی تعلیم حاصل کرنا اور یہ دیکھنا کہ ہم کونسا ایسا کام کریں جس سے ہمیں زبردست انکم ہو ۔ ماں کی یہ چاہتیں بھی زندگی کی بھاگ دوڑ میں ایسی اوپر نیچے کے ، نہ ماں کو مقصد حیات یاد رہ گیا اورنہ بچے اپنا مقصد وجود سمجھ پاتے ۔ دادا ، دادی ، نانا ، نانی اپنی کرسیوں، اپنے پلنگ اور اپنے کمروں میں اپنے آپ کو قید تنہائی میں رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپارہے ہیں ۔
قارئین !تھوڑا سا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے ، ضروری نہیں کہ آپ کو میرا تجزیہ پسند آئے یا آپ اتفاق کریں لیکن آپ کو یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ ہمارے نوجوان مسائل سے دوچار ہیں ۔ میرا حل آپ کو پسند نہیں آیا ٹھیک ہے ماشاء اللہ سے آپ بھی تو سمجھدار اور دردمند دل رکھنے والے ہیں ، پھر آپ کیوں اور کیسے خاموش بیٹھ سکتے ہیں ۔ کیا آپ کا فرض نہیں بنتا کہ ملت کے نوجوانوں کی فکر کریں اور سوچیں آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں ، آپ یہ کام اپنے گھر سے شروع کرسکتے ہیں ، اگر آپ کو چاہت ہے ۔ اپنی ملت سے ، اے اللہ تو ہی ہم سب کو سیدھا راستہ چلا ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام دیا ۔ آمین ۔
sarwari829@yahoo.com