امن چاہتے ہو تو جنگ کی تیاری کرو

محمدمصطفے علی سروری
14 ستمبر 2018 ء جمعہ کا دن تھا شہر حیدرآباد کے ٹولی چوکی علاقے میں واقع ایک مشہور اسکول میں ایک کم عمر لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کی خبر شام ہوتے ہوتے سوشیل میڈیا کے ذریعہ جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ اس واقعہ کا اہم پہلو تو یہ تھا کہ زیادتی کرنے والا شخص اس اسکول کا ملازم بتلایا گا جہاں پر یہ کمسن لڑکی زیر تعلیم تھی ۔ اس واقعہ نے ایک مرتبہ پھر سے ثابت کیا کہ اسلامی اقدار کے ساتھ عصری تعلیم کی فراہمی کیلئے تعلیمی ادارے کا قیام جتنا بڑا چیلنج ہے ، اس سے بڑا چیلنج اپنے تعلیمی ادارے میں اسلامی اقدار کی عملی تفسیر پیش کرناہے ۔ ایک کمسن لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ نے ایسے کئی سوالات اٹھائے جن کا ان تعلیمی اداروں کو وقت کے ساتھ جواب دینا ہوگا ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ اُن تمام تعلیمی اداروں کی لاج رکھ لے جو اسلامی شعائر کی روشنی میں عصری تعلیم فراہم کرنے کے ارادے کے ساتھ پورے خلوص دل سے تعلیمی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
کیونکہ ناگہانی حالات اور واقعات کبھی بھی کسی کے بھی ساتھ پیش آسکتے ہیں، کیا ہم لوگ اور ہمارے ادارے اس طرح کے ناگہانی حالات سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں ؟ جہاں ہمیں خدائے تعالیٰ بزرگ و تر سے مسلسل دعا مانگتی رہنی چاہئے ، وہیں عملی طور پر وہ تمام حفاظتی اقدامات بھی اختیار کرتے رہنا چاہئے کہ جن کو بروئے کار لاتے ہوئے نامساعد حالات اور چیلنجس سے نمٹا جاسکتا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں طلباء کیلئے محفوظ ماحول صرف CCTV کیمروں سے ہی قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کسی خاص مشن اور خاص نظریئے کے تحت قائم کردہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے تقررات ہی نہیں بلکہ غیر تدریسی عملے کے تقررات میں بھی اصل امتحان تربیت یافتہ امیدواروں کا صحیح انتخاب ہے اور چونکہ انسان غلطیوں کا پتلا مانا جاتا ہے تو تعلیمی اداروں کا سسٹم ایسی کسی بھی غلطی کو ممکنہ حد تک بروقت پتہ لگانے کے قابل ہونا چاہئے تاکہ اس کی روک تھام کیا جاسکے ۔
ایک لمحہ کے لئے فرض کرلیجئے کہ کسی اسکول میں کسی طالب علم کے ساتھ زیادتی کا واقعہ اسکول انتظامیہ کے علم میں آتا ہے ، تب اسکول انتظامیہ کو کیا کرنا چاہئے ، یہ واقعہ صرف جنسی زیادتی کا نہیں بلکہ سخت سزا دینے کا (Corporal Punishment) بھی ہوسکتا ہے یا اسکول کے لفٹ میں پیش آنے والا حادثہ یا طالب علموں کی آپسی لڑائی یا اچانک کسی طالب علم کی طبیعت کا خراب ہوجانا وغیرہ وغیرہ ناگہانی واقعات کبھی بھی اور کسی طرح کے بھی ہوسکتے ہیں ۔ شوشیل میڈیا کی وسعت اختیار کرجانے کے بعد اب کسی منفی خبر کو چھپادینے یا دبا دینے کے بارے میں سوچنا مشکل امر بن گیا ہے اور اب تو یہی ایک شکل بچی ہے کہ ادارے کیسے ان واقعات کا سامنا کریں اور اپنی نیک نامی ، طلباء اور اولیائے طلبہ کے اعتماد کو بنائے رکھیں،انہیں اس سمت اقدامات کریں۔
لاطینی زبان کی ایک کہاوت ہے ، اگر تم امن چاہتے ہو تو جنگ کی تیاری کرو۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چلائے جانے والے عصری مدارس کو بھی اس نکتہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر طرح کے ناگہانی حالات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔ ایک چھوٹی لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کے سبب ایک ایسے اسکول کی نیک نامی پر سوال اُٹھ کھڑے ہوگئے جہاں پر شریعت محمدی کے ساتھ جدید تعلیم فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے ہیں۔ کسی بھی غلطی کا اعتراف اس کے سدھار کی سمت اٹھایا جانے والا پہلا درست قدم ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے گا اگر کسی تعلیمی ادارے میں زیادتی کا واقعہ پیش آئے اور خود تعلیمی ادارے کے ذمہ دار متاثرین کے ساتھ پولیس میں شکایت رجوع کریں تو اس طرح تعلیمی ادارے کے منتظمین طلباء کے والدین کو پہونچنے والی ٹھیس کو ختم کرنے والے پہلے چند لوگوں میں شمار ہوں گے ۔
اب ذرا ہم سابق میں پیش آئے ان واقعات کا ذکر کرنا چاہیں گے جہاں پر شہر کے اسکولوں کو اسی طرح یا ایسے ہی سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ سال 2010 ء میں وقار آباد میں واقع ایک انٹرنیشنل اسکول کے ڈائرکٹر کے خلاف اسکول کی ہی ایک دسویں کی طالبہ نے جنسی استحصال کی شکایت درج کروائی تھی ۔ 20 جولائی 2010 ء کو لڑکی کی شکایت پر پولیس نے کیس درج کیا ، تین برسوں تک عدالت میں اس کیس کی سنوائی ہوئی اور اکتوبر 2013 ء کو نامپلی عدالت نے انٹرنیشنل اسکول کے ڈائرکٹر کو ایک لڑکی کی عصمت ریزی کے الزام میں دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی (بحوالہ اخبار ٹائمز آف انڈیا 12 ا کتوبر 2013 ئ)
کوکٹ پلی حیدرآباد میں واقع سنچری پبلک اسکول میں اگست 2018 ء میں ایک حادثہ پیش آیا جس میں اسکول کی عمارت کا چھت گرجانے سے 2 طالب علم ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔ (اخبار انڈین اکسپریس اگست 2018 ئ) این آر آئی ٹیالنٹ اسکول کے ایک ساڑھے چار سالہ طالب علم کو اسکول میں ٹیچر کی جانب سے سخت سزا دینے کے متعلق ایک خبر ماہ اگست 2018 ء کے دوران ہی اخبارات میں شائع ہوچکی ہے۔ انڈیا ٹوڈے ڈاٹ ان کی خبر کے مطابق اسکول کے پرنسپل نے متعلقہ ٹیچر کے خلاف تحقیقات کر کے مناسب کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
قارئین یہ تو وہ خبریں ہیں جو اسکولس میں ہونے والے ناگہانی واقعات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اب تو احاطہ ا سکول میں جنسی زیادتی کے علاوہ لڑائی جھگڑوں میں اموات تک ہونے لگی ہیں۔ ستمبر 2015 ء کے دوران سینٹ جوزف اسکول رام کوٹ حیدرآباد میں دسویں جماعت کے دو طلبہ کے درمیان ہو نے والی لڑ ائی میں محمد عامر صدیقی نام کے ایک 15 سالہ طالب علم کی موت واقع ہوگئی تھی (بحوالہ اخبار دی ہندو 2 ستمبر 2015 ئ)
ان مثالوں کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ احاطہ ا سکولس میں ناگہانی واقعات اب ایک معمول بنتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اسکولس کے ذمہ د اروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ا س طرح کے ناگہانی واقعات سے نمٹنے کیلئے میکانزم تیار کریں۔
قارئین یہ بات بھی سچ ہے کہ واقعہ چاہے جنسی زیادتی کا ہو یا کسی اور طرح کا اس طرح کے واقعات سے تعلیمی اداروں کی نیک نامی تو متاثر ہی ہوجاتی ہے، ساتھ ہی ان اسکولس اور کالجس کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ وہ اس لئے کہ جہاں شوشیل میڈیا کے ذریعہ غیر مصدقہ اور غلط خبریں اور باتیں فوری طور پر پھیل جاتی ہیں، وہیں روایاتی میڈیا یعنی پرنٹ میڈیا بھی اپنی ذمہ داری صحیح طور پر نہیں نبھا پاتا ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی وقتاً فوقتاً بچوں کے ساتھ زیادتی کے معاملے میں اور خاص کر جنسی زیادتی کا شکار بننے والوں کی شناخت کو مخفی رکھنے کیلئے کئی ایک ہدایات اور رہنمایانہ خطوط وضع کئے ہیں لیکن ہم ٹولی چوکی حیدرآباد کے ہی انٹرنیشنل اسکول کے حالیہ واقعہ کو مدنظر رکھیں تو شوشیل میڈیا پر نہ صرف جنسی زیادتی کا شکار بننے والی معصوم بچی کی تصاویر اور ویڈیو کو عام کردیا گیا بلکہ لڑکی کے والد کی شناخت بھی پوری طرح عام کردی گئی اور روایاتی یعنی پرنٹ میڈیا نے ٹولی چوکی کے اسکول میں لڑکی کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کو کس قدر صحیح انداز میں رپورٹ کیا ہے ، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متاثرہ لڑکی کی صحیح عمر کیا ہے ، اس کے متعلق الگ الگ اخبارات اور میڈیا کے اداروں نے الگ الگ لکھا ہے لڑکی کی عمر کا مختلف اخبارات میں تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ اخبار دی ہندو نے لڑکی کی عمر ساڑھے چار سال لکھی ہے ۔ این ڈی ٹی وی اور ANI نے لڑکی کی عمر 5 برس بتلائی ہے ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا نے بھی لڑکی کو 5 سال کا بتلایا ہے۔ اخبار تلنگانہ ٹوڈے دکن کرانیکل اور سیاست نے لڑکی کی عمر چار برس بتلائی ہے۔
ان سارے اخبارات اور خبر رساں اداروں کی جانب ایک ہی لڑکی کی عمر الگ الگ بتلائی گئی ، کوئی چار برس تو کوئی ساڑھے چار برس اور کوئی 5 برس کی عمر بتلا رہا ہے ، اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک ہی لڑکی کی عمر الگ الگ تو نہیں ہوسکتی پھر کیا وجہ ہے کہ میڈیا میں اس لڑکی کی عمر الگ الگ بتلائی گئی ہے۔ خبر رسانی کے میدان میں جس طریقے سے مسابقت در آگئی ہے اس کے پیش نظر خبروں سے جڑے حالات اور واقعات کی سب سے پہلے ترسیل کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ ایسی دوڑ میں ضمنی معلومات اور باتوں کو نظر انداز کردیا جارہا ہے ۔ اب یہ میڈیا کی غیر ذمہ داری ہے یا کچھ اور لیکن حقیقت تو یہی ہے ۔ اب عوام کو بھی جان لینا چاہئے کہ میڈیا ہو یا شوشیل میڈیا سب سے غلطی ہوسکتی ہے ۔ ہر ایک کو احتیاط کرنے اور محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
بزنس کی دنیا کی معروف میگزین فوربس (Forbes) نے 27 اگست 2018 ء کو جنیفر ڈیوس کا ایک مضمون شائع کیا ۔ مضمون میں Crisis Management کیلئے تجارتی نقطہ نظر سے سات اہم نکات بیان کئے گئے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لئے ان کا یہاں پر ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ جنیفر ڈیوس نے لکھا کہ ناگہانی حالات نہیں آئیں ، اس کیلئے ناگہانی حالات سے نمٹنے کی قبل از وقت منصوبہ بندی کرنا چاہئے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی ہوا ہو ، اس کو تسلیم کرلینا چاہئے ۔ جن کے مفادات اور مسائل ہوں ، ان کے ساتھ ترسیل ہونا چاہئے ۔ کان کھلے رکھنے ہوں گے جن اقدامات سے نتیجہ نہیں نکلے ، ان کو ترک کردینا چاہئے ۔ غلطیوں اور حادثات سے جس قدر ممکن ہو سیکھا جانا چاہئے اور مضمون کا سب سے اہم اور آخری نکتہ مرض کی اصل اور صحیح تشخیص ہے۔
صرف عصری تعلیمی ادارے ہی نہیں دینی مدارس کو بھی بعص اوقات مسائل ا گھیرتے ہیں۔ دینی مدارس ہی نہیں کاروباری اداروں کو بھی پریشانیاں اور ناگہانی حالات آ گھیرتے ہیں اور یہ بات کاروباری اداروں کی ہی نہیں انفرادی طور پر کسی کو بھی ناگہانی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔
مثال کے طور پر زمانہ صحت مندی کے دوران جو شخص بیماری کا انشورنس کرواتا ہے بیماری کے زمانے میں وہ لاحق ہونے والی پریشانی کا بہتر طور پر سامنا کرسکتا ہے ۔ اس شخص کے مقابل جس نے صحت کے زمانے کو مستقل جان کر بیماری کی صورت میں لاحق ہونے والی پریشانیوں سے نمٹنے اور سامنا کرنے کا کوئی سامان ہی نہیں کیا ہو۔
تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد تعلیم کو عام کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ بہت سارے ملی، مالی اور تجارتی مفادات بھی جڑے ہوتے ہیں اور یہ صرف ایک فرد کا معاملہ نہیں بلکہ پوری ایک ٹیم کی کارکردگی ہوتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنے تعلیمی ادروں کو مسائل اور مشکلات سے محفوظ رکھنے کیلئے صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں اور عملی طور پر بھی منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کریں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نفع والا ہر علم حاصل کرنا آسان بنائے اور پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کو اسلامی ماحول میں عصری تعلیم فراہم کرنے کے مقصد میں کامیابی دلائے اور سب سے اہم دعا تو یہ کرنا ہے کہ اے مالک دو جہاں تو ہماری لڑکیوں کو ہی نہیں لڑکوں کو بھی ہر طرح کے شیطان کے اور انسان کے شر سے محفوظ فرما اور نفع والے علم کے حصول میں ان کی مدد فرما ۔ آمین ثم آمین۔
sarwari829@yahoo.com