امریکی پالیسیوں پر یہودیوں کی گرفت

محمد مبشرالدین خرم
امریکی شہری تحقیقی و تعلیمی میدان میں اسرائیلی شہریوں سے کافی پیچھے ہیں اور امریکہ میں موجود یہودی طبقہ انتہائی بااثر تصور کیا جاتاہے اور تھنک ٹینک کے نام پر خدمات انجام دینے والی کئی تنظیموں سے وابستہ یہودی امریکی پالیسی کی تیاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے عموماً امریکی پالیسی مخالف مسلم تصور کی جاتی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اگر امریکی عوام کے عادات و اطوار کا جائزہ لیا جائے تو وہ حکومت کی پالیسیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے لیکن اپنی عملی زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہوتے ہیں  اور ان کی فیڈرل حکومت کی پالیسی میں دلچسپی کافی حد تک نہ کے برابر ہوتی ہے۔ مقامی سطح پر جمہوری طرز حکمرانی کا مضبوط بنانے کیلئے عوام کا بڑا حصہ عملی طور پر مباحث منعقد کرتے ہوئے انتخابی عمل کا حصہ بننے یا نہ بننے کے متعلق فیصلہ کرتا ہے لیکن اس سب کے باوجود امریکی پالیسیوں پر اسرائیلی  تسلط کے خاتمہ کیلئے کوئی موزوں قدم اٹھایا جانا دشوار ہے چونکہ امریکی حکومت نے اسرائیل کچھ اس طرح سرائیت کر گیا ہے جیسے اب یہودیوں کے بغیر امریکہ کا ترقی کرنا ناممکن تصور کیا جارہا ہے ۔

امریکی حکومت اور عوام میں اس بات کا شدید احساس ہے کہ تعداد بھی بہت کم یہودیوں کی جانب سے ان کی قومی پالیسی میں اہم کردار ادا کیا جاتا ہے لیکن وہ اس مسئلہ پر ناراضگی کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ بسا اوقات امریکی عیسائی اس امر پر ناراضگی کا اظہار تو کردیتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا بھی شدید احساس ہے کہ وہ سوائے ناراضگی ظاہر کرنے کے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ امریکہ نے یہودی پالیسی سازوں نے جس طرح سے امریکی حکمرانوں کو اپنا مطیع بنایا ہے، اس کا اندا زہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ حالات کسی بھی حد تک پہنچ جائیں تب بھی امریکہ کی جانب سے اسرائیلی حکومت یا فلسطینیوں کی غضب کردہ زمین کے متعلق لب کشائی سے گریز کرتا ہے ۔ یہودی پالیسی ساز اپنی شاطرانہ ذہنیت کی بنیاد پر امریکی حکومت پر بالواسطہ اپنے احکام مسلط کر رہے ہیں اور امریکہ کو بھی اس بات کا احساس ہے لیکن شائد مسلم دشمنی پالیسی نے دونوں کو متحد کر رکھا ہے ۔
عرب ممالک جو کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے ، ان ممالک کے تاجرین میں امریکی شہریوں کو ملازم رکھنے یا کمپنی کا حصص فروخت کرنے کے علاوہ انہیں تجارتی شراکت دار بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں چونکہ ذہنی طور پر ان ممالک کے سرکردہ تاجرین بھی امریکی نوجوانوںکو انتہائی قابل تصورکرتے ہیں جبکہ امریکی نوجوانوں کی صلاحیتوں کا جائزہ اس بات سے لیا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے کئی شہروں میں ترک تعلیم کا رجحان کافی زیادہ ہے۔ ہندوستان میں جہاں انتہائی پسماندہ ریاستیں اترپردیش و بہار وغیرہ میں بھی شائد 67 فیصد ناخواندگی نہیں ہوگی لیکن امریکی شہر فلاڈلفیا میں ناخواندگی کا سلسلہ 67 تک پہنچ چکا ہے اور ترک تعلیم کے رجحان کو ختم کرنے کیلئے امریکی محکمہ تعلیم کی جانب سے مختلف طرح کے پروگرامس چلاتے ہوئے نوجوانوںکو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکی شہریت کے علاوہ زبان پر عبور کے سبب امریکی نوجوان دیگر ممالک میں بہتر ملازم اور تجارتی شراکت دار ثابت ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال مسی سپی کی بھی ہے جہاں ناخواندگی کا سلسلہ تقریباً 47 ہے جس میں کمی لانے کیلئے مختلف کورسس روشناس کروائے جارہے ہیں۔ امریکی حکومت بالواسطہ طور پر اپنے نوجوانوں میں مسابقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

عرب ممالک یا غیر امریکی ممالک میں امریکی شہریوں کو حاصل اہمیت کی وجہ ان میں موجود صلاحیت سے زیادہ ان کی گفتگو اور کام کا جذبہ تصور کی جاتی ہے چونکہ وہ امریکی نوجوان اپنے ملک سے باہر نکل کر بہترین ملازمت حاصل کرلیتے ہیں جو اپنے ملک میں ملازمت کیلئے پریشان ہیں۔ یقیناً امریکی نوجوانوں کو اپنے ہی ملک میں ملازمت کا حصول انتہائی دشوار کن ہے چونکہ ان کی اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر انہیں امریکہ میں جس طرح کی مسابقت  جاری ہے، اس میں ملازمت کا حصول انتہائی دشوار کن ہوتا ہے ۔ علمی اعتبار سے امریکی نوجوان یقیناً ٹکنالوجی میں ماہر ہیں لیکن سلیکان ویلی میں ہندوستانی بالخصوص جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی قابلیت امریکہ میں رہنے والوں سے کافی زیادہ ہے۔ اسی طرح امریکی نوجوان جو تعلیمی میدان میں گریجویٹ تک کو فوقیت دیتے ہیں، اس اعتبار سے بھی ہندوستانی نوجوانوں سے پیچھے ہیں چونکہ ہندوستانی نوجوان جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں سلسلہ تعلیم کو ترک کرنے کے معاملہ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اس کے برعکس امریکی نوجوانوں میں یہ مسئلہ بالکلیہ طور پر علحدہ ہے چونکہ وہ گریجویٹ کے فوری بعد اپنے ملک سے زیادہ بہتر ملازمت کے حصول کیلئے خلیج و عرب ممالک کا رخ کرنے لگتے ہیں، جہاں انہیں کافی بہتر و پرکشش تنخواہیں بآسانی حاصل ہونے لگتی ہے۔
امریکی ماہرین تعلیم و طب نے فیڈرل حکومت کی جانب سے شعبہ طب و تعلیم کے متعلق اختیار کردہ رویہ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ فیڈرل حکومت کی جانب سے ان شعبوں میں بجٹ میں کی جارہی تخفیف امریکی معاشرہ کے ساتھ ساتھ حکومت کیلئے بہتر ثابت نہیں ہوگی۔ امریکی حکومت جو کہ دفاع پر کافی توجہ مرکوز کئے ہوئے کے متعلق ماہرین طب و تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر امریکی شہریوں کے تحفظ اور ان کی زندگی کو بہتر بنانے کے اقدامات نہ کئے جاتے ہیں تو ایسی صورت میں امریکہ کو داخلی خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی لئے ان دو شعبوں کے بجٹ میں تخفیف سے گریز کرنے کا متعدد مرتبہ مطالبہ کیا جاچکا ہے اور امریکی عوام کو توقع ہے کہ حکومت کی جانب سے ان مطالبات کی تکمیل کی جائے گی اور معیاری تعلیم کی فراہمی کیلئے بجٹ میں اضافہ یقینی بنایا جائے گا ۔ شعبہ طب میں کافی سہولتیں موجود ہونے کے باوجود ماہرین میں اس بات کا احساس پایا جاتا ہے ۔ اب بھی اس شعبہ میں ترقی کیلئے کافی کچھ کیا جانا ضروری ہے چونکہ حالیہ عرصہ میں جو صورتحال دیکھی جارہی ہے ، اس سے نمٹنے کیلئے امریکی فیڈرل حکومت کو ریاستوں کے حالات بہتر بنانے پر توجہ مبذول کرنی چاہئے چونکہ اس سے نہ صرف ریاستوں کو مستحکم بنایا جاسکے گا بلکہ امریکی شہریوں کی صحت عامہ کا بھی خصوصی خیال رکھا جاسکے گا۔

مختلف ریاستوں کے مختلف قوانین کے باوجود فیڈرل طرز حکمرانی کی برقراری کے متعلق سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حالات میں بہتر حکمرانی کو یقینی بنانا ہی درحقیقت جمہوری کی کامیابی ہے۔ امریکی عوام جو کہ انتخابات جیسے جمہوری عمل میں حصہ لینے کے متعلق کافی غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں لیکن عہدیداروں کا یہ استدلال کہ امریکہ میں رائے دہی کیلئے اشیاء کا لالچ نہیں دیا جاتا بلکہ بہتر مستقبل کی طمانیت دی جاتی ہے جس کے فوری طور پر نتائج حاصل ہونا دشوار کن ہے ۔ حکومت کی جانب سے ملک کے تمام طبقات خواہ وہ سیاہ و سفید ہوں یا پھر مذہبی اعتبار سے ایک دوسرے سے علحدہ عقائد رکھتے ہوں یا وہ ہجرت کرتے ہوئے اس ملک میں قیام کر رہے ہوں ، معاملہ ان کے ساتھ تقریباً یکساں ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ کئی یہ ہے کئی طبقات حکومت کی پالیسیوں کو یکساں نہیں مانتے بلکہ سیاہ فام امریکیوں میں جو جرائم کی کثرت ہے، اس کی وجہ انہیں نظر انداز کیا جانا ہی تصور کی جاتی ہے۔ اسی لئے امریکی حکومت کی امداد سے چلائی جانے والی مختلف غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے سیاہ فام باشندوں کی کونسلنگ اور نشہ کے عادی افراد کو اس لعنت سے نجات دلانے کے لئے خدمات انجام دی جاتی ہیں اور بیروزگار نوجوانوںکو ماہانہ وظائف مقرر ہیں تاکہ وہ اپنے اخراجات کی تکمیل کو یقینی بناسکے ۔ اس کے باوجود بھی امریکی حکومت کی پالیسیوں کو خود امریکی عوام کی مکمل تائید حاصل نہیں ہے۔

جمہوریت کی یقیناً یہ خوبصورتی ہے کہ شہری حکومت کی رائے سے اختلاف رکھنے کا اختیار رکھتا ہے اور حکومت کو اپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے لیکن امریکہ میں جہاں جرائم میں کمی دیکھی جاتی ہے ، وہیں امریکی شہری جمہوری عمل میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے رائے دہی کا فیصد کافی کم ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں تبدیلی لانے کیلئے امریکی حکومت کی جانب سے رائے دہندوں میں شعور بیدار کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے لیکن گزشتہ کئی برسوں سے جاری اس کوشش کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں۔ امریکی و اسرائیلی ذہنیت کو فروغ دینے کیلئے جو پالیسی ساز ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان کی درحقیقت کوشش یہ ہے کہ کس طرح اسرائیل و امریکہ مشترکہ طور پر دنیا بھر میں اپنی طاقت کو تسلیم کروائیں۔
دنیا کی چوتھی سب سے زائد آبادی والے اس ملک میں موجود وسائل کا اگر صحیح استعمال ہو اور مجموعی اعتبار سے اگر ہر کسی کو اس کا فائدہ پہنچایا جانے لگے تو یقیناً امریکہ کو اسرائیل کے دباؤ کا شکار رہنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی لیکن امریکی حکمراں طبقہ میں موجود اسرائیل کے وہ عناصر جو امریکہ کو اسرائیل کے خلاف بڑھنے نہیں دیتے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ کس طرح امریکی حکمراں طبقہ کو اپنے قابو میں رکھا جائے۔ ہند۔اسرائیل تعلقات میں پیدا ہورہے استحکام کے باوجود امریکہ کی نظریں ہندوستان پر جمی ہوئی ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ہند۔امریکہ دیرینہ رفاقت کو مزید مستحکم بنایا جائے جبکہ اسرائیل ہندوستان میں سرمایہ کاری کو تیز کرتے ہوئے ہندوستان کو اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری اسرائیل کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اسرائیل کو وسطی ایشیائی میں ہندوستان جیسے سیکولر ملک اپنے ہمنوا کی شکل میں درکار ہے اور ہندوستان دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے پالیسی سازوں کی منصوبہ بندیوں کا شکار ہوتے ہوئے اسرائیل سے قربت اختیار کرتا جارہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ہندوستان کے بہتر تعلقات کس سے ہونے چاہئے اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی مسئلہ چھوٹی اور بڑی برائی کا آئے گا اور بڑی برائی رقبہ کے اعتبار سے چھوٹی ہے جبکہ چھوٹی برائی کا رقبہ بہت وسیع ہے۔
@infomubashir
infomubashir@gmail.com