مدت سے کررہے ہیں رفوگر کی ہم تلاش
لوگوں کے چاک چاک گریباں کے واسطے
امریکی صدارتی دوڑ
امریکی صدارتی انتخابات کے لئے جاری ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک امیدواروں کی دوڑ میں امریکی مسلمانوں کے تعلق سے کئے گئے ریمارکس پر سیاسی اتھل پتھل جاری ہے۔ کسی بھی ملک میں انتخابات کا موضوع مسلمان ہوتا ہے تو یہ انتخابی مہم دلچسپی سے عاری نہیں ہوتی۔ صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شامل قائدین کو مسلم ووٹرس سے وقتی ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ روز امریکی مسلمانوں کو امریکہ کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔ ان کے بیان سے شدید تنقیدیں شروع ہوئی تو ٹرمپ نے ہوش سنبھال کر اپنے بیان کی وضاحت کی اور کہا کہ وہ مسلمانوں سے محبت رکھتے ہیں اور مسلمان ایک عظیم قوم ہے۔ انہوں نے صدر امریکہ بارک اوباما کے تعلق سے بھی ریمارک کیا تھا۔ ان کے سوال جواب سیشن میں اوباما کو ایک مسلم صدر اور غیر امریکی قرار دیا گیا تو اس پر بھی خود ری پبلکن پارٹی کے دیگر صدارتی امیدواروں نے تنقید کی۔ نیویارک کے رئیل اسٹیٹ کھرب پتی تاجر کو اپنی صدارتی دوڑ کی مہم میں کامیابی کا یقین ہے۔ اگر وہ اپنی پارٹی کے دیگر صدارتی امیدواروں کو پیچھے چھوڑ کر صدارتی امیدوار کی حیثیت سے نامزد ہوتے ہیں تو سال 2016ء کے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوارہ سابق امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ ہلاری کلنٹن کے ساتھ مقابلہ ہوگا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخاب جیتنے کیلئے اپنی دولت میں سے 100 ملین امریکی ڈالر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر ان کے مخالف مسلم ریمارک نے ان کے صدارتی امکانات کو موہوم کردیا۔ اوباما کے تعلق سے ریمارک کا مطلب امریکی عوام خاص کر امریکی مسلمانوں کی ناراضگی مول لینا ہے اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ٹرمپ نے اپنے ریمارک کی وجہ سے امریکی عوام کی ناراضگی مول لی ہے اب وہ صدارتی دوڑ میں اپنے دیگر ساتھی امیدواروں کے پیچھے ہوجائیں گے۔ ان کی جگہ اگر کالی فیوربنا لیتی ہیں تو پھر دیگر دو امیدوار ہیں کارسن اور مارکو اوبیو بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے ووٹ کاٹ سکتے ہیں۔ صدارتی انتخاب کیلئے جاری مہم میں اب مسلم مسئلہ زور پکڑ چکا ہے۔ ناقدین نے انہیں نشانہ ضرور بنایا ہے مگر وہ اوباما کے خلاف اپنے ریمارک کی وضاحت نہیں کرسکے۔ نیو ہمیشائیر میں جلسہ میں شامل ایک شخص نے ان سے جب یہ سوال کیا کہ صدر اوباما تو مسلمان تھے، وہ تو امریکی بھی نہیں ہیں۔ اس ملک میں ایک ہی مسئلہ ہے جسے مسلمان کہا جاتا ہے۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ اس شخص کا بروقت جواب دیتے تو یہ مسئلہ تنازعہ کا رخ اختیار نہیں کرتا۔ امریکی سیاسی قائدین کو ایسے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے جس سے ان کے سیاسی عزائم کو دھکہ پہنچ سکتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا رویہ غیرمناسب تھا اس کیلئے انہیں معذرت بھی پیش کرنی چاہئے تھی۔ صدر امریکی بارک اوباما کے بارے میں اس سے پہلے بھی کئی سوال کئے گئے تھے۔ اوباما کی پیدائش اور ان کے مذہب کے متعلق کئی بار سوالات اٹھائے جاچکے ہیں اور اوباما نے اس پر کھل کر بات بھی کی ہے کہ وہ عیسائی مذہب پر اعتقاد رکھتے ہیں اور وہ امریکی ریاست ہوائی میں پیدا ہوئے ہیں۔ 2008ء میں صدارتی انتخابات کی دوڑ میں صدر اوباما کو کئی سوالات کا سامنا تھا مگر ان کے لئے یہ انتخاب جیتنا آسان ہوگیا تھا اس کی وجہ امریکی عوام کے رجحانات میں تبدیلی تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے مخالف مسلم ریمارک پر شرمندگی ظاہر نہیں کی البتہ صدر کی حیثیت سے اوباما کے انتخاب پر حیرت کا اظہار ضرور کیا تھا۔ اب وہ امریکی مسلم شہری کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہوجاتے تو امریکی عوام خاص کر مسلم رائے دہندے مسائل کا شکار نہیں ہوں گے۔ امریکہ میں آئے دن مخالف مسلم بیانات دے کر ماحول کو کشیدہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حال ہی میں ٹیکساس کے ایک ٹاؤن میں 14 سالہ بچے احمد محمد کی جانب سے گھڑی سازی میں اختراعی کوشش کرنے پر سزاء دی گئی تھی لیکن بعدازاں یہ لڑکا امریکی حکومت اور پولیس کے منہ پر یہ کہتے ہوئے طمانچہ رسید کیا تھا کہ نسلی امتیاز کا یہ معاملہ تکلیف دہ ہے۔ امریکہ کی ملی جلی آبادی میں ایسا کوئی فرق محسوس نہیں کیا جاتا تو پھر دوسرا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وائیٹ ہاؤز کی کرسی پر آئندہ صدر کون بیٹھے گا اس پر تقریباً پانچ ارب ڈالر کا خرچ آئے گا۔ اتنی کثیر رقم خرچ کے جب صدارتی امیدوار امریکہ کی باگ ڈور سنبھالے گا تو اس کیلئے مخالف مسلم نظریہ کو فروغ دینے کے منفی اثرات کا بھی بخوبی اندازہ کرلینا ہوگا۔ امریکہ کے ان انتخابات پر آنے والے بھاری مصارف سے دنیا کے بڑے بڑے مسائل حل ہونے کے بجائے نئی بحث چھڑ جائے تو اس طرح کے مہنگے انتخابات اور صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں مسلمانوں خاص کر امریکی مسلم آبادی کو حقیر نگاہی سے نہیں دیکھا جانا چاہئے۔