امانت کی ادائیگی سیرت نبوی ﷺکا اہم پہلو

مدرسہ عربیہ مبین العلوم امرادخرد میں اجتماع ،مولانا محمد ممشاد علی صدیقی کا خطاب
مومن پیٹ /21 جولائی ( ذریعہ فیاکس ) رسول اکرم ﷺ کی رسالت اور مذہب اسلام سے کفار مکہ کو شدید اختلاف تھا ، وہ دل و جان سے چاہتے تھے کہ آپ ﷺ کا لایا ہوا دین پھیل نہ سکے ۔ لوگ اسلام میں داخل نہ ہوں ، اس مقصد کیلئے ان لوگوں نے مسلمانوں سے عداوت کی حد کردی ۔ وہ انہیں مارتے اور مختلف نوعیتوں سے پریشان کرتے تھے ۔ خود رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس کو ان لوگوں نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا اور معاندانہ رویہ اختیار کیا ۔ ان سب کے باوجود اہل مکہ کو آپ ﷺ کی امانت داری پر پورا یقین تھا ۔سارے لوگ آپ ﷺ کو امین اور صادق کہا کرتے تھے ۔ نبوت سے پہلے اور بعد میں بھی انہیں آپ ﷺ کے کردار پر کوئی شک نہیں تھا ۔ اس لئے وہ اپنا مال آپ ﷺ کے پاس امانت رکھواتے تھے ۔ پھر وہ جب چاہتے اپنا مال واپس لے لیتے ان کو جوں کا توں مال مل جایا کرتا تھا ۔ ان خیالات کا اظہار مولانا  محمد ممشاد علی صدیقی نے جامع مسجد قباء امراد خرد ، مومن پیٹ ، رنگاریڈی میں منعقدہ اجتماع منجانب مدرسہ عربیہ مبین العلوم سے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ امانت کی ادائیگی سے متعلق رسول اکرم ﷺ کے اس قدر اہتمام اور طرز ادا سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مذہب اسلام نے امانت داری کو کس قدر اہمیت دی ہے ۔ کسی شخص کے مال اور اس کے حق کو جوں کا توں اس کے حوالے کردینا اسلام کی تعلیم ہے ۔ ذرہ برابر بھی اس میں خرد برد کی اجازت نہیں ۔ صاحب امانت خواہ جانی دشمن ہی کیوں نہ ہو ، کسی بات کو لے کر اس سے عداوت بھی پیدا ہوجائے اور درمیان میں فاصلے پیدا ہوجائیں پھر بھی امانت میں کسی طرح کی خیانت درست نہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ شریعت اسلامی نے امانت کی ادائیگی کا جس قدر اہتمام کیا ہے کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اللہ تعالی کو ہر گز یہ بات پسند نہیں ہے کہ کسی کے مال یا حق میں جزوی طور بھی ناجائزتصرف کیا جائے ، قرآن کریم نے نیک عمل مسلمانوں کی صفت اس طرح بیان کی ہے اور جو لوگ اپنی امانتوں اور عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں ’’ یعنی وہ لوگ اللہ کی نظر میں کامیاب ہیں جو اپنے وعدوں کو نبھاتے ہیں اور امانتوں کو کسی تردد کے بغیر اہل امانت تک پہونچا دیتے ہیں ۔ دوسرے کے مال و دولت سے حرص اور اس میں کسی طرح کا بھی تصرف جائز نہیں جو شخص امانت میں خرد برد کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک نا پسندیدہ ہے امانت داری کا وصف اللہ تعالی کو بہت پسند ہے ، حصرت انسؓ فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے کوئی خطبہ دیا ہو اور اس میں یہ ارشاد نہ فرمایا ہو ’’ جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاملہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں ۔ مزید مولانا نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی ادارے ، کمپنی یادکان وغیرہ میں ملازمت کرتا ہے اس سے وقت کا جو معاہدہ ہوا ہے اس کی مکمل پابندی کرنا اور اپنی صلاحیت کے مطابق کسی سستی اور کاہلی کے بغیر کام کرنا بھی امانت ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی کے پاس آٹھ گھنٹے کا ملازم ہے اور وہ اس کی اجازت کے بغیر کچھ وقت چرا لیتا ہے یا کام میں چوری کرتا ہے یا دیر سے آتا ہے یا وقت سے پہلے چلا جاتا ہے یا اپنی صلاحیت کا صحیح استعمال نہیں کرتا یہ تمام صورتیں امانت کے خلاف ہیں ۔ اسی طرح کسی کا کوئی حق اگر آپ کے پاس نکلتا ہے تو وہ بھی امانت ہے اس کو ادا کرنا ضروری ہے ۔ امانتوں کے تمام قسموں کو صحیح طرح ادا کرنے کی ہدایت فرمائی ہے ان تمام قسموں کو ملحوظ رکھے بغیر ایک شخص کامل مومن نہیں بن سکتا اور نہ ہی اللہ کا قرب نصیب ہوسکتا ہے ۔ حافظ و قاری محمد سجاد احمد کی تلاوت سے اجلاس کا آغاز عمل میں آیا اور آخر میں حافظ محمد سعید انور بلالی نے دعاء کی ۔ سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی ۔ اس میں قابل محمد محبوب سرپنچ ماضی ، محمد شہاب الدین ، محمد بابو صدر ، محمد ولی الدین ، محمد برہان الدین ٹیچر وغیرہ موجود تھے ۔