اقلیتی بہبود بجٹ کی عدم اجرائی سے اسکیمات متاثر

جاریہ مالیاتی سال خرچ مایوس کن، 300 کروڑ کے بلس فینانس میں زیر التوا
حیدرآباد۔31 جنوری (سیاست نیوز) مالیاتی سال 2017-18ء ختم ہونے کو ہے اور فبروری میں ریاست کا بجٹ برائے مالیاتی سال 2018-19ء پیش کیا جائے گا۔ حکومت نے دیگر محکمہ جات اور خاص طور پر آبپاشی اور زراعت کے لیے مختص کردہ بجٹ کی اجرائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ فلاحی اسکیمات پر عمل آوری کا حکومت کی جانب سے دعوی کیا جارہا ہے لیکن محکمہ اقلیتی بہبود کے بجٹ اجرائی موقف کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ حکومت کو اقلیتی بہبود اسکیمات پر عمل آوری سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ عام طور پر مالیاتی سال کے اختتام پر لمحہ آخر میں بجٹ کی اجرائی عمل میں آتی ہے لیکن سکریٹری اقلیتی بہبود کے عہدے سے سید عمر جلیل کے تبادلہ کے بعد بجٹ کے حصول پر محکمہ نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ موجودہ سکریٹری دانا کشور کو اقلیتی بہبود کی اضافی ذمہ داری دی گئی اور وہ پہلے ہی کئی اہم امور کے انچارج ہیں۔ واٹر ورکس اور مشن بھگیرتا جیسے اہم محکمہ جات کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے وہ اقلیتی بہبود پر مکمل وقت دینے سے قاصر ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں مالیاتی سال کے اختتام سے عین قبل عمر جلیل نے محکمہ فینانس سے رجوع ہوکر کئی اہم اسکیمات کا بجٹ حاصل کیا تھا۔ مالیاتی سال کے اختتام سے عین قبل ان کے تبادلے سے بجٹ کی اجرائی کی رفتار سست ہوچکی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ محکمہ فینانس سے اس سلسلہ میں موثر نمائندگی نہیں کی گئی۔ فبروری میں بجٹ کی اجرائی کا آخری موقع رہتا ہے۔ ابھی تک محکمہ اقلیتی بہبود نے اپنی 20 سے زائد اسکیمات کے لیے 660 کروڑ روپئے خرچ کیے ہیں جبکہ اسکیمات کا بجٹ 1226 کروڑ تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ابھی تک 1050 کروڑ روپئے جاری کیے گئے لیکن یہ اجرائی صرف کاغذ پر ہے اور 300 تا 400 کروڑ کے بلس محکمہ فینانس میں زیر التوا ہیں۔ بجٹ کی اجرائی میں تاخیر سے کئی اہم اسکیمات پر عمل آوری متاثر ہوئی ہے۔ حکومت نے 2018-19ء میں الیکشن بجٹ کے تحت اقلیتی بہبود کے لیے 2582 کروڑ کی تجاویز محکمہ سے حاصل کی ہے۔ بجٹ میں کس قدر رقم رکھی جائے گی اس کا اندازہ چیف منسٹر اور وزیر فینانس کے اجلاس کے بعد ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ تمام محکمہ جات کے لیے بجٹ کو قطعیت دینے کا کام آخری مرحلہ میں ہے۔ اسی دوران محکمہ اقلیتی بہبود کے ذرائع نے بتایا کہ فیس باز ادائیگی، اوورسیز اسکالرشپ اسکیم، بینکوں سے مربوط سبسیڈی اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ جیسی اسکیمات کے لیے جاریہ مالیاتی سال مزید بجٹ کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اقامتی اسکولوں کے لیے 425 کروڑ کے منجملہ 318 کروڑ جاری کیے جس میں سے 207 کروڑ خرچ کیے گئے۔ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کا بجٹ 40 کروڑ تھا اور یہ بجٹ مکمل طور پر خرچ کرلیا گیا جبکہ موصولہ تمام درخواستوں کی یکسوئی ابھی باقی ہے۔ اوورسیز اسکالرشپ اسکیم کے لیے 40 کروڑ کے منجملہ 30 کروڑ جاری کیے گئے اور محکمہ نے ابھی تک 15 کروڑ 95 لاکھ روپئے جاری کیے ہیں۔ حکومت ہند کی پری میٹرک اسکالرشپ کے 25 کروڑ میں 14 کروڑ خرچ کیے گئے۔ بینکوں سے مربوط سبسیڈی اسکیم کے لیے 150 کروڑ کے منجملہ 22 کروڑ 50 لاکھ خرچ ہوئے ہیں۔ شادی مبارک اسکیم کے لیے جاری کردہ مکمل بجٹ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ اردو اکیڈیمی، حج کمیٹی اور دیگر اداروں کو مختص کردہ بجٹ ابھی تک جاری نہیں ہوا۔ اقلیتی نوجوانوں کو صنعتوں کے قیام کے سلسلہ میں تعاون سے متعلق ٹی پرائم اور T-SEZ اسکیم کے لیے 25 کروڑ روپئے مختص کیے گئے تھے لیکن ایک روپیہ بھی نہ جاری ہوا اور نہ ہی خرچ کیا گیا۔ محکمہ کے عہدیداروں نے بتایا کہ اگر محکمہ فینانس میں زیر التوا تمام بلس منظور کیے جائیں تو مزید 300 کروڑ تک حاصل ہوسکتے ہیں۔ جاریہ مالیاتی سال بجٹ کی اجرائی اور خرچ کا یہ معاملہ ہے تو پھر 2018-19ء میں 2582 کروڑ میں کس قدر بجٹ جاری ہوگا اس کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔