اقلیتیں غیرمحفوظ امریکی رپورٹ میں سچائی

غضنفر علی خان
دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیتیں بستی ہیں۔ یہاں کبھی کبھار یہ خبر ملتی ہیکہ کسی اقلیت کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اس کے دستوری حقوق کو روندا جارہا ہے لیکن ہندوستان میں اقلیتی طبقہ پر ظلم زیادتی کے واقعات انتہائی تواتر سے ہوتے ہیں اور یہ صورتحال بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ ایک لامتناہی سلسلہ ہیکہ کم تعداد میں رہنے والے گروپس کو اکثریت کے گمراہ افراد ظلم و جبر کا شکار بنادیتے ہیں۔ اس واہی تباہی میں گرچہ چند گمراہ لوگ ہی شامل ہوتے ہیں لیکن ان کو حکومت کی سرپرستی اور تائید حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ایک جرم کے بعد دوسرے جبر و زیادتی کو یہ مٹھی بھر افراد بہ آسانی انجام دیتے ہیں۔ ہندوستان کو بہت برا لگا کہ امریکی ادارہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے لیکن انسانی حقوق کا مسئلہ صرف ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ ساری دنیا کا ہے۔ انسانی حقوق کو دنیا کے ہر ملک میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ دن قبل یہ رپورٹ منظرعام پر آئی۔ اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے ہماری وزارت خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ الزام من گھڑت ہے کیونکہ ہندوستان میں تمام اقلیتی طبقات محفوظ ہیں اور ان کے حقوق پر کوئی آنچ نہیں آئی ہے۔ چلئے صاحب اگر ہندوستانی حکومت کے اس استدلال کو مان بھی لیا جائے تو ان بے شمار چھوٹی موٹی زیادتیوں کی وجہ سے جو آئے دن ہورہی ہیں کیا کہئے گا۔ ان کو محض اتفاق کہا جائے گا جبکہ یہ واقعات منصوبہ بند طریقہ سے کئے جارہے ہیں۔ گائے کے گوشت کی کسی مسلمان کے گھر میں موجودگی کے شبہ پر محمد اخلاق مرحوم کو بے قابو ہجوم نے احتجاجی حملہ میں بالآخر ختم کردیا۔ اسی طرح اور کئی واقعات ہوئے کہیں بڑے جانور کی ایک شہر سے دوسرے کو منتقلی پر قتل کیا گیا۔ تو کہیں ٹرین میں سفر کرنے والے جنید کو اس کی وضع قطع پر ہلاک کردیا گیا۔ کیا یہ سب واقعات ثبوت نہیں ہیکہ ملک میں اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو مار ڈالا جارہا ہے۔ کسی علاقہ کے مسلمانوں کو ترک مقام کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے اور بسی بسائی زندگی کو اجاڑ دیا جاتا ہے کیا یہ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی نہیں ہے۔ کیا یہ ان کو دیئے گئے دستوری تیقنات کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ امریکی رپورٹ پر چراغ پا ہونے والے سیاسی قائدین کسی ایسے مقام پر جہاں واردات ہوئی ہے کبھی زخموں پر نمک چھڑکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سیاسی لیڈر دوبارہ وہاں کا دورہ نہیں کرتے۔ ایک مسلمان طبقہ کے حقوق کی خلاف ورزی کی بات نہیں یہاں تو عیسائی اقلیتی طبقہ کے مذہبی رہنما آرچ بشپ بہ زبان خود یہ کہہ رہے ہیں (عیسائی طبقہ ہے) کہ آئندہ کسی ایسی پارٹی کو ووٹ نہ دیں جو ملک میں ہندو راشٹریہ قائم کرنا چاہتی ہیں۔ آرچ بشپ کے اس مکتوب میں انہوںنے کوئی غلط بات نہیں کہی۔ عیسائی مشنری صبروسکون کے ساتھ اپنے عقیدہ کی تشہیر کرتی ہے اور یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ ہندوتوا کے حامی کو آج ہی بی جے پی کی مودی حکومت میں یہ موقع ملا ہیکہ وہ عیسائی طبقہ میں اپنے غیرمحفوظ ہونے کا دعویٰ کریں۔ ایک عیسائی مشنری کو ایک شرپسند شخص نے معصوم دو بچوں کے ساتھ کارمیں آگ لگا کر بے رحمی سے ہلاک کردیا تھا۔ یہیں جنت نشان ہندوستان میں ایک عیسائی راہبہ کے ساتھ کئی لوگوں نے زنا بالجبر کیا تھا۔ ان کی عمر 70 سال کی تھی۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد اگر مودی حکومت امریکی رپورٹ کو سچ نہیں مانتی تو اس میں فرقہ پرست پارٹی کے انتہاء پسند عناصر کے حوصلے بلند ہوں گے۔ امریکی رپورٹ پر یہ اعتراض بعض دوسرے اہل فکر لوگوں نے کیا ہیکہ ’’خود امریکہ میں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے حد یہ ہیکہ آج کی اس متحدہ دنیا میں امریکہ میں رنگ و نسل کا فرق برقرار ہے۔ آج بھی سیاہ فام امریکیوں کو نظر سے گرا کر دیکھا جاتا ہے۔ یہ اعتراض صحیح ہے لیکن اگر امریکہ اپنی رپورٹ میں ہندوستان کا تذکرہ کرتا ہے کچھ انتہائی ناخوشگوار واقعات کی نشاندہی کرتا ہے تو ہندوستان کو برا کیوں لگتا ہے۔ اپنے کسی فیصلے کسی واقعہ کو درست انداز میں یاد رکھنا بڑی قوموں کی نشانی ہے۔ ہماری غلطی کو امریکہ یا اور کوئی ملک پیش کرتا ہے تو اس پر خاطرخواہ توجہ دینے اور اپنی غلط پالیسی کو صحیح سمت دینے کے بجائے تنقید کرنے والے ملک پر برہمی کا اظہار کرنا خود غیرجمہوری طریقہ ہے۔ یہ بات اب بی جے پی کو تسلیم کرلینی چاہئے کہ اس کے دورحکومت میں مسلمان، سکھ، عیسائی تمام اقلیتی خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ اس کا تدارک کرنے اور ایسے کسی طرح کو سخت سزاء دلواکر اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اس سے پہلے کہ اغیار ہم کو باخبر کریں ہمیں خود اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا چاہئے۔