محمد نعیم وجاہت
مسلمانوں کو خوش کرنے یا دیگر سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کے لئے اقلیتی بجٹ کے ہندسوں میں اضافہ کرنا کافی نہیں اور نہ ہی ایسا کرنے سے مسلمانوں کی زندگی میں خوشحالی آنے والی ہے، بلکہ حقیقی ترقی و بہبود اسی وقت ممکن ہے، جب منظورہ بجٹ کو مکمل طورپر خرچ کیا جائے۔ اقلیتی بجٹ خرچ کرنے میں سابقہ حکومتوں اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لئے کانگریس نے بھی اقلیتی بجٹ کو ایک ہزار کروڑ سے زیادہ کردیا تھا، لیکن نصف بجٹ استعمال کئے بغیر اسے سرکاری خزانے میں واپس کردیا جاتا۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ٹی آر ایس حکومت میں بھی قدیم روایت پر عمل ہو رہا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے دس ماہ کے لئے تلنگانہ کا مجموعی بجٹ ایک لاکھ کروڑ منظور کیا تھا، جس میں اقلیتوں کے لئے 1030 کروڑ روپئے کی گنجائش رکھی گئی تھی، تاہم اب تک منظورہ بجٹ کا 50 فیصد بھی جاری نہیں کیا گیا، جب کہ 11 مارچ کو ٹی آر ایس حکومت اپنا دوسرا بجٹ پیش کرنا چاہتی ہے، یعنی کانگریس کی طرح ٹی آر ایس بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سبز باغ دکھا رہی ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟۔ اگر حکومت اقلیتوں کے بجٹ میں اضافہ سے دلچسپی رکھتی ہے تو استعمال کے معاملے میں بھی سنجیدگی کی ضرورت ہے، تب ہی اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
تلنگانہ کے ایک لاکھ کروڑ کے مجموعی بجٹ میں ایک ہزار کروڑ روپئے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کے بعد ٹی آر ایس حکومت پہلی مرتبہ اپنا مکمل بجٹ پیش کر رہی ہے۔ 7 مارچ سے اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا آغاز ہوچکا ہے، جو جاریہ ماہ کے اواخر تک جاری رہے گا۔ اقلیتی بجٹ کا بیشتر حصہ اقلیتی طلبہ کی فیس باز ادائیگی، اسکالر شپس اور محکمہ اقلیتی بہبود کے دیگر اغراض کے لئے خرچ کیا جا رہا ہے، جب کہ بجٹ خرچ کرنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی نئی اسکیم نہیں ہے اور نہ ہی وہ نئی اسکیمیں متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ٹی آر ایس نے اپنے دس ماہ کی حکومت میں مسلمانوں کے لئے صرف شادی مبارک اسکیم متعارف کروائی ہے، جب کہ یہ اسکیم قدیم ہے، صرف نام تبدیل ہوا ہے۔ کانگریس دور حکومت میں غریب مسلم لڑکیوں کی شادی پر فی کس 25 ہزار روپئے خرچ کئے جاتے تھے، جب کہ موجودہ حکومت نے اس رقم کو بڑھاکر 51 ہزار روپئے کردیا ہے، جس کو قابل ستائش اقدام کہا جاسکتا ہے، مگر اس کے حصول کے لئے اتنے سخت قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس سے استفادہ دشوار کن ہو گیا ہے۔ یعنی حکومت نے مسلم لڑکیوں کی شادی پر خرچ کا جو نشانہ مختص کیا ہے، اسے عبور کرنے میں محکمہ اقلیتی بہبود کو 50 فیصد بھی کامیابی نہیں ملی۔ حکومت اور ارباب مجاز سے اس اسکیم کے رہنمایانہ خطوط میں ترمیم کے لئے بار بار نمائندگی کی گئی ہے، مگر تاحال حکومت اور محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو دفتری کاموں تک محدود نہ رکھیں، بلکہ عوام کی جانب سے پیش کردہ شکایات کو متعلقہ وزارت یا چیف منسٹر کے جائزہ اجلاس میں پیش کریں۔ علاوہ ازیں مسلم نمائندوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جماعتی وابستگی سے بالاتر ہوکر اقلیتوں کے مسائل حل کرنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے متحد ہو جائیں۔ اگر مسلم نمائندے یک جٹ ہوکر ایوانوں میں اپنی آواز بلند کریں تو مسلمانوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اقلیتوں کو انصاف بھی مل سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم نمائندوں کو پسماندہ طبقات کے نمائندوں اور رضاکارانہ تنظیموں سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ بہت سارے نظریاتی اختلافات کے باوجود جب اپنی ذات یا طبقہ کا مسئلہ آتا ہے تو سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتے ہیں۔
محکمہ اقلیتی بہبود کے پاس مسلمانوں کے لئے فیس باز ادائیگی، اسکالر شپس اور شادی مبارک اسکیمات کے علاوہ دوسری کوئی اسکیم نہیں ہے کہ جس سے غریب و بیروزگار نوجوانوں اور خواتین کو فائدہ پہنچ سکے۔ بینکرس مسلمانوں کی جمع پونجی اپنے بینکوں میں رکھنے کے لئے تیار ہیں، مگر انھیں قرض دینے کے تیار نہیں ہیں۔ چیف منسٹر کی جانب سے بینکرس کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے، مگر اقلیتوں کو قرض فراہم کرنے کا نشانہ عبور کرنے کے معاملے میں ان سے کوئی سوال نہیں کیا جاتا۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور تشکیل حکومت کے بعد کابینہ میں منظوری بھی دی تھی، تاہم اب تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور اب بجٹ سیشن کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل مسلمانوں کے سماجی و معاشی حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جسے صرف آنسو پونچھنا کہا جاسکتا ہے۔
2004ء میں کانگریس نے بھی کمیٹی کی رپورٹ پر مسلمانوں کو 5 فیصد تحفظات فراہم کئے تھے، جس کو ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے رولنگ دی تھی کہ اگر بی سی طبقات میں کسی دوسرے طبقہ کو شامل کرنا ہے تو اس کا فیصلہ بی سی کمیشن کرے اور ایک ریٹائرڈ جج کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے کمیشن کو قانونی موقف عطا کیا جائے، تاکہ وہ باضابطہ شہر اور اضلاع میں عوامی سماعت کرے اور اس کے بعد کمیشن کی سفارشات پر مسلمانوں کو تحفظات دیئے جاسکتے ہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات سامنے ہیں، لہذا ان کی روشنی میں مستقبل کا فیصلہ کیا جانا چاہئے، بصورت دیگر اس سلسلے میں عدالتوں سے مثبت ردعمل کی توقع عبث ہے۔ حکومت یہ بتانا چاہتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو تحفظات فراہم کر رہی ہے، جب کہ معاشی اور سماجی سروے کے لئے تشکیل دی گئی کمیٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اگر حکومت کے نزدیک معاشی اور سماجی مسئلہ کی اہمیت ہے تو اس کے لئے سچر کمیٹی کی سفارشات، رنگناتھ مشرا کمیٹی اور جسٹس سبرامنیم بی سی کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں، جب کہ وزیر اعظم کے 15 نکاتی پروگرامس سے متعلق ایک رپورٹ پہلے سے دستیاب ہے۔ علاوہ ازیں ٹی آر ایس حکومت کی جانب سے جامع سروے ہوچکا ہے، جس میں آدھار کارڈ، راشن کارڈ، سرکاری و خانگی ملازمت، مکانات اور دیگر تفصیلات اکٹھا کی گئیں، اس کے باوجود سروے کے لئے نئی کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟۔
دراصل ٹی آر ایس نے اپنے 2014-15ء کے اقلیتی بجٹ میں اقلیتوں کے سماجی و معاشی حالات جاننے کے لئے 1.98.22 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی تھی، لیکن اب اس کو خرچ کرنے اور دوسرا بجٹ پیش کرنے سے 15 دن قبل یہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس سے حکومت کے بارے میں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اقلیتوں کی ترقی کے معاملے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہے۔ اس کمیٹی کی تشکیل کے ذریعہ حکومت یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے معاملے میں عہد کی پابند ہے۔
ریاست تقسیم ہو گئی، حکومت تبدیل ہو گئی، مگر مسلمانوں کی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جن حالات سے مسلمان پہلے دو چار تھے، اب بھی ان ہی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ایس سی، ایس ٹی طبقات کے لئے مختص بجٹ اگر خرچ نہیں ہوتا تو آنے والے بجٹ میں اس کو شامل کردیا جاتا ہے، لیکن اقلیتوں کے لئے ایسی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ لہذا مسلم نمائندوں کو چاہئے کہ ایس سی، ایس ٹی سب پلان کی طرح اقلیتوں کے لئے بھی سب پلان کا مطالبہ کریں، تب ہی اقلیتوں کی ترقی کے لئے نئی راہیں ہموار ہوں گی، ورنہ صرف اقلیتی بجٹ کے ہندسوں میں اضافہ سے مسلمانوں کی حالت میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
دونوں تلگو ریاستوں کا بجٹ اجلاس ایک ساتھ حیدرآباد میں منعقد ہو رہا ہے، جس کے ہنگامہ خیز ہونے کے قوی امکانات ہیں، کیونکہ ٹی آر ایس حکومت اپنی دس ماہ کی کار کردگی کو بنیاد بناکر اپوزیشن پر حاوی ہونا چاہے گی، جب کہ اپوزیشن جماعتیں حکمراں جماعت کی ناکامیوں کو ایوانوں میں اُچھال کر اُسے گھیرنے کی کوشش کریں گی۔ ٹی آر ایس حکومت کے پہلے مکمل بجٹ سے اقلیتیں اور سماج کے دیگر طبقات بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ریاست کی ترقی اور غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بجٹ میں کیا گنجائش فراہم کرتی ہے؟۔