اقتصادی پریشانیوں سے نجات کے 5قدم

پی چدمبرم
حکومت نے بڑی ہی خاموشی سے اس بات کو تسلیم کیا کہ معیشت کو بحران کا سامنا ہے ‘ چنانچہ 14 ستمبر 2018ء کو وزیراعظم نریندر مودی سے اُنشخصیتوں نے ملاقات کی جنہیں بحران سے نمٹنے اور اس پر قابو پانے کا ماہر سمجھا جاتا ہے ۔
شام دیر گئے ہوئے اُس اجلاس میں شرکت کیلئے ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کو بھی طلب کیا گیا ‘ اجلاس میں گورنر ‘ آر بی آئی کی حاضری سے متعلق دو چیزیں غلط تھیں کہ ایک اس پروگرام کے بارے میں کی گئی تشہیر اوردوسرا مابعد اجلاس اعلانات ‘ اگر حکومت نے وہ بھی کوئی اور نہیں بلکہ وزیر فینانس روپئے کو مستحکم بنانے کا اعلان کرتے ہیں تو ( پھر گورنر آر بی آئی کی خودمختاری کدھر ہے ) اس کے باوجود مجھے روپیہ کو مستحکم بنانے کے پانچ اقدامات پر توجہ مرکوز کرنے دیجئے ۔
پانچ اقدامات کا مقصد بیرونی زرمبادلہ کے بہاؤ میں اضافہ کرنا ہے ( 10ارب ڈالرس تک ) تاکہ بیرون ملک جانے والی بیرونی کرنسی کے بہاؤ کے ساتھ توازن پیدا کیا جاسکے اور روپیہ کی گھٹتی قدر کے رجحان کو روکا جاسکے ۔ یہاں اصل بات یہ ہیکہ بیرونی سرمایہ کاری کا اندرون و بیرون ملک بہاؤ اس ملک کی حکومت کے حکم یا اس کی خواہش پر نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ ان کے مالکین یا ان انتظامی صلاح کاروں کے حکم کو مانتا ہے جو کسی ملک میں اپنی رقم لگانے یا سرمایہ مشغول کرنے کے بارے میںخود فیصلہ کرتے ہیں۔
آیئے مجھے پانچ اقدامات کے بارے میں بتانے اور یہ سوال کرنے دیجئے کہ آیا سود مند ثابت ہوں گے ؟
1۔ انفراسٹرکچر قرضوں کیلئے لازمی طور پر رکاوٹ بننے والے حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔
جب کوئی قرضہ دار بیرونی کرنسی میں قرض حاصل کرتا ہے تو اُسے اس کرنسی میں قرض ادا کرنا ہوتا ہے جہاں تک انفراسٹرکچر کیلئے حاصل کئے جانے والے قرض ہوتے ہیں ان کی مدت ادائیگی عام طور پر بہت طویل یا طویل مدتی ہوتی ہے جبکہ قرضدار یہ نہیں جانتا کہ اس مدت کے دوران آیا روپیہ کی قدر گھٹے گی یا بڑھے گی اس لئے اسے سرمایہ کاری کا ایک ایسا موقف اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتاہے جس کا مقصد امکانی نقصانات سے بچنا ہوتا ہے یعنی یہ ایک قسم کی رسک مینجمنٹ ٹکنک ہے جو کسی بھی امکانی نقصانات یا جوکھم کو کم سے کم کرتی ہے ۔ چنانچہ قرض دار ایک چھوٹی قیمت ادا کرے گا لیکن روپیہ کی قدر میں کمی آتی ہے تو اس کا فائدہ ہوگا ‘ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کونسا ایسا قرض دہندہ ہے جو ایک ایسا انفراسٹرکچر قرض ( طویل مدت کیلئے ) بنا کسی Hedging (سطور بالا میں ہم نے Hedging کی تعریف کی ہے ) کے حامل کرنے کی حماقت کرے گا یا بیوقوفی کرے گا ؟ اگر روپیہ کی قدر میں گراوٹ آئے گی تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومت زرمبادلہ کی شرح کا جوکھم برداشت کرے گی یا ریزرو بینک آف انڈیا قرض دہندہ کو پرانے ایکسچینج ریٹ پر ڈالرس دے گی ؟ چونکہ اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں ہوگی اس لئے انفراسٹرکچر قرض حاصل کرنے والے اکثر قرض دہندے مذکورہ رسک مینجمنٹ ٹکنگ یا Hedge سے استفادہ کریں گے ۔
2۔ مینوفیکچرنگ شعبہ کے اداروں کو 50ملین امریکی ڈالرس تک خارجی تجارتی قرضہ جات (ECB) حاصل کرنے کی اجازت دینا یہ قرض ماضی کی تین سالہ مدت کی بجائے ایک سال کی اقل ترین مدت کی سہولت کے ساتھ دی جانی چاہیئے ۔

پچاس ملین امریکی ڈالرس سے کم حجم کے قرض اور ایک سالہ مدت کے ذریعہ قرضوں اور کیاپٹل قرضوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے ۔ قرض دہندے اس طرح کے قرض اسی وقت حاصل کریں گے جب وہ ہندوستانی بینکوں یا ہندوستانی مارکٹ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے یا پھر قرض کے حجم کو محدود کرتے ہوئے نہ ہی اقل ترین مختصر سی مدت کی اجازت دیتے ہوئے اقصادی ماحول میں غیر یقینی کے سوال کو حل کیا جائے گا ۔ مجھے تو اس دریچہ کے ذریعہ ملک میں کثیر رقم آنے پر بھی شک ہے ۔
3۔ ایک سنگل کارپوریٹ گروپ کیلئے 20فیصد ایف پی آئی کے کارپوریٹ بانڈ پورٹ فولیو کے Exposure Limits کی برخواستگی اور کارپوریٹ بانڈس کی کسی بھی اجرائی کا جائزہ لیا جائے گا ۔ سنگل فارن پورٹ فولیو انوسٹر(FPI) کے ہاتھوں ایک کمپنی یا کارپوریٹ گروپ کے قرض پر توجہ کو روکنے کیلئے اپریل 2018ء میں آر بی آئی نے یہ Limitsنافذکئے تھے ۔ اس حد یا Limit کے ہٹانے سے AAA درجہ کی حامل کمپنیوں کو معلوم سرمایہ کار سے مزید قرض لینے میں مدد مل سکتی ہے ‘ تاہم اس کا ملک کی میکرو معیشت کے استحکام سے متعلق قرض خواہ کے ادراک کے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ سرمایہ کار اور تجزیہ نگار مالی خسارہ ‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ‘ مرکزی بینک کی شرح بانڈ کے فوائد اور افراط زر کی شرح وغیرہ کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔
4 ۔ مسالہ بانڈ ایشوز کیلئے رینکس روکنے سے استثنی جیسا کہ مالی سال 2018-19ء میں کہا گیا اور مسالہ بانڈس میں ہندوستانی بینکوں کی مارکٹ میکنگ پر عائد تحدیدات کی برخواستگی متمول اس قسم کے بانڈس کی بیمہ کاری پر تحدیدات کی برخواستگی ۔
5۔ اشیائے غیر ضروریہ کی درآمد پر پابندیاں اور برآمدات کی حوصلہ افزائی ۔ موجودہ حکومت آزادانہ تجارت میں یقین رکھتی اور اس نے پہلے ہی کئی ایک احتیاطی اقدامات کئے ہیں ۔ مارکٹ اس قسم کے اقدامات کی پرواہ نہیں کرتی ۔ اس کے علاوہ برآمدات کا فروغ ایک سخت اور محنت والا کام ہے ۔ایسا کام جس کے نتائج یا فوائد فوری ظاہر نہیں ہوتے اور 6ماہ میں بھی اس کے ڈرامائی نتائج برآمد نہیں ہوگے ‘ روپئے کی تجارتی ملکی و غیر ملکی مارکٹ بہت بڑی مارکٹ ہے ۔ حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے جہاں تک عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کا سوال ہے ‘ خام تیل کی بڑھتی قیمتیں ‘ امریکی ٹریژری شرح اور امریکہ ۔ چینکے درمیان تجارتی جنگ کے بڑھتے خدشات ہندوستانی معیشت پر اثر انداز ہورہے ہیں ۔