اقتصادی حالات حکومت کے قابو سے باہر

پی چدمبرم

ایک قدیم محاورہ ہے ’’ مصیبت تنہانہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ کئی مصیبتیں و پریشانیاں لاتی ہے ‘‘ یہ محاورہ ہمارے ملک کی اقتصادی حالت پر بھی صادق آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ماہرین اقتصادیات ہندوستانی معیشت کی موجودہ حالت پر خوش نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر معیشت کے تعلق سے ایک کے بعد دیگرے آنے والی بری خبریں کیا ہیں؟ ہندوستانی معیشت کیلئے جو بری خبریں ہیں وہ اسٹاک کی قیمتوں میں آرہی گراوٹ، بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے پیسہ واپس لینے کا رجحان، خام تیل کی قیمت میں اضافہ، روپیہ کی قدر میں کمی، قیمتوں میں اضافہ ، جاریہ سال بارش کا کم ہونا، کسانوں میں جذبہ بغاوت پیدا ہونا، تجارتی برآمدات میں کمی، کم سرمایہ کاری، کم کریڈٹ، صنعتوں کو دیئے جانے والے کریڈٹ میں اضافہ، بڑھتے غیرکارکرد اثاثے، بیروزگاری، میکرو۔ معیشت کی عدم استحکامی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جیسے عوامل ہیں بلکہ یہ ہندوستانی معیشت کی روبہ زوال ہونے کی وجوہات بھی ہیں۔
جہاں تک اسٹاک قیمتوں کا سوال ہے پچھلے 15 ماہ کے دوران یہ قیمتیں جس سطح پر تھیں اس کے برعکس فی الوقت اسٹاک قیمتوں میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ اسٹاک قیمتوں میں کمی سے تجارتی سطح پر بھی حالات خراب ہورہے ہیں۔ ہماری معیشت کے خراب ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ فارن پورٹ فولیو انوسٹرس ( اسٹاک، بانڈس اور نقد رقم کی قدر کے مساوی اثاثوں کی شکل میں سرمایہ مشغو ل کرنے والے سرمایہ کار ) نے جاریہ ماہ 25 اکٹوبر تک 35,460 کروڑ روپئے اس نظام سے نکال لئے ہیں۔ جاریہ سال اس قسم کی سرمایہ کاری کا بہاؤ تقریباً 96 ہزار کروڑروپئے رہا جبکہ روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ ایسی گراوٹ جسے روکنے میں حکومت ناکام رہی ۔ ملک میں روپئے کی قدر میں گراوٹ کا اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابل روپیہ بدترین مظاہرہ کرنے والی کرنسیوں میں سے ایک ہے۔ آپ کو بتادیں کہ جاریہ سال یعنی 2018 میں اچانک ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں 16 فیصد کی کمی درج کی گئی اور آنے والے دنوں میں ڈالر کے مقابل روپئے کی قدر میں مزید گراوٹ یا کمی کا پورا پورا امکان پایا جاتا ہے۔
دوسری طرف خام تیل ( برنٹ ) کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، خام تیل کی قیمت فی بیارل 77 امریکی ڈالرس ہوگئی ہے۔ عالمی سطح پر جو غیریقینی صورتحال پائی جاتی ہے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جو اتھل پتھل پائی جاتی ہے وہ تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً ہر روز پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے حکومت اور آئیل کمپنیوں کے اس اقدام سے صارفین پر ایک ناقابل برداشت بوجھ عائد ہوا ہے۔
روپیہ کی قدر میں گراوٹ ، قیمتوں میں اضافہ
ڈالر کے مقابلہ روپیہ کی قدر میں کمی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے صارفین کی جیب میں ایک بہت بڑا سوراخ ڈال دیا ہے۔ لہذا اشیاء اور خدمات کے استعمال میں پژمردگی آئی ہے۔ ہماری معیشت کی حالت خراب ہونے کی ایک وجہ جیسے کہ میں نے سطور بالا میں بھی لکھی ہے وہ ہے توقع کے مطابق بارش کا نہ ہونا۔ امسال اوسط سے کم بارش ہوئی ۔ ملک کے 36 فیصد گاووں میں ناکافی بارش کی شکایات پائی گئی۔ بارش کے نہ ہونے کا مطلب پیداوار میں کمی، کسانوں کی پریشانیوں و قرض میں اضافہ اور قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ملک میں معیشت کی بگڑتی حالت کی ایک اور اہم وجہ کسانوں میں بڑھتی ناراضگی بھی ہے ان میں حکومت کی تئیں بغاوت کا جذبہ بڑھتا جارہا ہے، اکثر زرعی پیداوار یا اشیاء کی بازاری قیمتیں اعلان کردہ اقل ترین امدادی قیمت (MPS) سے کم ہے۔ ملک کی چند ریاستیں جہاں زرعی پیداوار کی خرید و فروخت کے مراکز قائم کئے گئے ہیں یہ مراکز ناکافی تعداد میں پائے جاتے ہیں جس سے صرف چند کسانوں کو ان کی زرعی پیداوار کیلئے اقل ترین امدادی قیمت حاصل ہوئی۔ اگر دیکھا جائے تو تجارتی اشیاء کی برآمدات بھی گذشتہ چار برسوں کے دوران مایوس کن رہی اور 315 ارب امریکی ڈالرس کی سطح عبور نہ کرسکی جیسا کہ 2013-14 میں درج کی گئی تھی۔ جاریہ سال کے پہلے ششماہی میں یہ برآمدات تقریباً 160 ارب ڈالرس مالیتی رہی۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (CMIE) ڈاٹا کے مطابق جولائی۔ ستمبر 2018 کی مدت میں 1,50,000 کروڑ مالیتی سرمایہ کاری کی نئی تجاویز کا اعلان کیا گیا جو طویل میعادی اوسط سے کم ہے۔ CMI E ڈاٹا سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 5394 پراجکٹس پر کام روک دیا گیا ہے۔
دوسری جانب بینکوں کے غیر کارکرد اثاثوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے اثاثے 10 ہزار کروڑ روپئے کی حد کو پار کرچکے ہیں جس سے مالیاتی یا اقتصادی شعبہ کی پریشانیوں و مشکلات میں اضافہ ہوا ۔ اس کے نتیجہ میں ایک اہم NBFC، انفراسٹرکچر لیزنگ اینڈ فینانشیل سرویس لمیٹیڈ دیوالیہ ہوگئی جس سے تمام اقتصادی شعبہ پر ایک قسم کی تاریکی چھاگئی ہے۔
ہمارے ملک میں بیروزگاری کی شرح بھی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اور آنے والے دنوں میں حالات مزید ابتر ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔CMIE کے مطابق ستمبر 2018 میں بیروزگاری کی شرح 6.6 فیصد رہی جو اگسٹ میں 6.3 فیصد درج کی گئی تھی۔ یہ ایسے وقت ہوا ہے جب لیبر کی حصہ داری کی شرح جو 2016 میں 46 فیصد تھی کم ہوکر 2016 میں وہ 43.2 فیصد ہوگئی۔ ملک میں میکرو۔ اکنامک عدم استحکام کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ ملک کی جو معاشی حالت ہے وہ قابل تشویش ہے۔ نقد ٹیکس رونیو کا بجٹ نمو 19-15 فیصد بتایا گیا اس کے برخلاف اپریل اور ستمبر 2018 کے درمیان شرح نمو صرف 7.45 فیصد رہی۔
مرکزی بجٹ میں یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائز س حکومت کو جاریہ سال 1,07,312 کروڑ روپئے کی آمدنی دیں گے لیکن ڈیزل اور پٹرول پر ایک روپیہ کم کرنے کیلئے مجبور کرنے پر اکٹوبر۔ ڈسمبر میں تیل کی کمپنیوں کو بتایا جاتا ہے کہ 3500 کروڑ روپئے کا نقصان ہوا۔ اس لئے ان کی آمدنی کم ہوگی اسی طرح اس کا ایل آئی سی پر بھی اطلاق ہوگا اگر وہ آئی ایل اینڈ ایف ایس کو قرض یا امداد دے گی۔
حکومت ایسے پروگرامس کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہی ہے جس کیلئے زیادہ فنڈس مختص نہیں ہیں۔ اس کی بہترین مثال انشورنس پر مبنی نگہداشت صحت اسکیم انوشمان یوجنا ہے اس اسکیم کا مقصد 10 کروڑ خاندانوں (50 کروڑ افراد ) کو انشورنس کوور فراہم کرنا ہے لیکن تاحال اس اسکیم کیلئے صرف 2000 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ فنڈس کی قلت کا شکار بنائی گئی دوسری اسکیمات میں MGNREGA ، وزیر اعظم آواس یوجنا، پینے کے پانی کا مشن، سوچھ بھارت، نیشنل ہیلتھ مشن اور گرام جیوتی یوجنا شامل ہیں۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (CAD) ستمبر 2018 کے اختتام پر تخمیناً 35 ارب ڈالرس ہے۔ اس میں پائی جانے والی خلیج کو پاٹنے کی کوئی اُمید نہیں ہے اس کے برعکس جاریہ سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 80 ارب ڈالرس ہوسکتا ہے جو قومی مجموعی پیداوار کا تقریباً 3 فیصد بنتا ہے۔ حکومت کی بد قسمتی یہ ہے کہ ڈاکٹر رگھو رام راجن، ڈاکٹر اروند پناگاریہ اور ڈاکٹر اروند سبرامنین کی سبکدوشی کے بعد حکومت کے اقتصادی اُمور میں مشورہ دینے والا عالمی سطح کا کوئی ماہر اقتصادیات نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں، میں یہاں WB Yeats کاایک مقولہ پیش کرنا چاہوں گا۔آئر لینڈ کے اُس عظیم شاعر و ادیب نے کہا تھا ’’ مرکز ہر چیز پر گرفت نہیں رکھ سکتا ‘‘