اقتدار کا حرص ، بی جے پی نے ملک کو داؤ پر لگادیا

ویویکانند
مسلم اکثریتی علاقہ کشمیر سے دفعہ 370 کی منسوخی کا نعرہ لگاتے لگاتے بی جے پی کے کئی قائدین کی پوری زندگی گذر گئی ۔ مگر ان قائدین کے دل پر اس وقت کیا گذری ہوگی جب بی جے پی نے اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے اپنے اصول اور اپنی نظریات سے سمجھوتے کرلیا ۔ اقتدار کا یہ کیسا حرص ہے ؟ شاید اسی کو کہتے ہیں ’’آنکھوں دیکھے مکھی نگلنا‘‘ (ہندی محاورہ) بی جے پی کی جانب سے جموں و کشمیر میں اصولوں سے سمجھوتہ کرنے کے ساتھ ہی یہ ایک بار پھر ثابت ہوچکا تھا کہ اس پارٹی کے سربراہ جو پارلیمنٹ میں کہتے ہیں ہمارا دھرم ’’دیش‘‘ ہے وہ ایک ڈھکوسلہ اور دکھاوا ہے ۔ ورنہ حقیقت میں ان کا ایک ہی دھرم ہے جسے بھی ہو اقتدار حاصل کرو ! خواہ ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلا کر حاصل کرو یا علحدگی پسندوں کو گلے لگا کر کرو ۔ یہ بات اس وقت مزید صحیح ثابت ہوگئی جب مفتی محمد سعید کی حکومت نے علحدگی پسند لیڈر مسرت عالم کو رہا کردیا اور اس کے بعد بی جے پی بجائے اپنی تائید واپس لینے کے وہ اس توڑ جوڑ میں مصروف ہوگئی کہ اپنی ساکھ کو کیسے بچایا جائے ۔ بی جے پی کی قوم پرستی اور دیش بھکتی کا یہ سب سے مکروہ چہرہ ہے ۔ جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات سے قبل بی جے پی نے علحدگی پسند لیڈر سجاد لون سے پینگیں بڑھائی ۔ لون نریندر مودی سے بھی ملے اور آر ایس ایس سے آئے بی جے پی میں شامل بڑے نیتا رام مادھو سے ملاقات کی ۔ اس وقت رام مادھو نے کہا تھا کہ بی جے پی وادی کشمیر میں ایسی کسی بھی پارٹی کی حمایت کرے گی جو جموں و کشمیر میں خاندانی سیاست کے خاتمہ کیلئے آگے آئے ۔ ذرائع ابلاغ میں اس بات کو اچھالا جارہا ہے کہ مسرت عالم کی رہائی کی وجہ سے آر ایس ایس ناراض ہے اور اس نے بی جے پی کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرے ، مگر دیکھا جائے تو اس سے بڑا کوئی اور جھوٹ اور کذب بیانی ہو ہی نہیں سکتی ۔

یہ ایک اور دھوکہ ہے عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کرنے کا ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ رام مادھو کٹر آر ایس ایس نظریات کے حامل شخص ہیں ۔ پہلے جب بی جے پی سجاد لون کو اپنی گود میں بٹھانے تیار تھی اس وقت بھی رام مادھو اس کے لئے سرگرم تھے اور وادی کشمیر میں خاندانی سیاست کو ختم کرنے کے عہد کو کچرے دان کی نذر کرتے ہوئے پی ڈی پی کی تائید کی جارہی تھی ۔ اس وقت بھی رام مادھو سرگرم تھے ، بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی پی کے ساتھ حکومت سازی میں رام مادھو کا اہم کردار رہا ہے ۔ تو پھر یہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ سنگھ پریوار اس قدم سے ناراض ہے ۔ اور کیوں بی جے پی مفتی سعید سے سوال کرے کہ آیا وہ بھارتی ہے یا نہیں؟ جبکہ بی جے پی انتخابات سے پہلے ہی اپنے اصول سے سمجھوتہ کرچکی تھی ۔ سجاد لون کے ساتھ کشمیری ووٹروں کے سامنے جھکنے میں ہچکچاہٹ کا شکار بی جے پی نے جب وقت آیا تو دفعہ 370 کی منسوخی کی سخت مخالف ڈاکٹر حنا بٹ کو اپنا امیدوار بنادیا ۔ حالانکہ حنا بٹ نے فوراً اس کی وضاحت کردی تھی وہ دفعہ 370 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بالکل برداشت نہیں کریں گی ۔ حنا بٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر دفعہ 370 کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو وہ بندوق اٹھالیں گی ۔ اسی وقت یہ واضح ہوگیا تھا کہ بی جے پی نے اپنے پرانے وعدے سے سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ یہاں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے ۔ وہ اس لئے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے 56 انچ سینے والے نے ماضی کی حکومت پر کمزور ہونے کے کئی الزامات عائد کئے تھے ۔ ممبئی حملوں کے ملزم اجمل قصاب اور پارلیمنٹ پر حملے کے ملزم افضل گرو کو جیل میں بریانی کھند سے سمیت کئی ایک بھونڈے مذاق کئے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

کانگریس کے دور اقتدار میں کبھی کسی دہشت گرد کو رہا نہیں کیا گیا ۔ جبکہ غیر کانگریسی حکومتوں نے دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں ۔ تقریباً 25 سال پہلے وشواناتھ پرتاپ سنگھ نے بوفورس توپوں میں مبینہ طور پر دلالی کے معاملے میں راجیو گاندھی کو عوام کے درمیان اس قدر بدگمان کیا کہ کانگریس چاروں خانے چت ہوگئی ۔ حالانکہ پی ایم بننے کے بعد وی پی سنگھ وہ پرچی نہ جانے جہاں غائب ہوگئی جسے دکھا دکھا کر وہ عوام کو بھروہس دلایا کرتے تھے کہ اس میں دلالی کھانے والوں کے نام ہیں ۔ وی پی سنگھ نے مفتی محمد سعید کو اپنا ہوم منسٹر بنایا تھا ۔ تاہم حکومت سازی کے چند ہی مہینوں بعد مفتی محمد سعید کی بیٹی روبینہ سعید کا اغوا کرلیا گیا تھا ۔ اس اغوا کے معاملے پر کئی سوال آج تک اٹھتے رہتے ہیں ۔ لیکن اس وقت حکومت نے سات دہشت گردوں کو چھوڑدیا تھا ۔ اس کے بعد جب این ڈی اے کی حکومت قائم ہوئی تھی تب قندھار کا معاملہ پیش آیا تھا ۔ اس واقعے کے بعد بھی دہشت گردوں کو رہا کیا گیا تھا ۔ اس معاملے میں مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کو کوئی جانکاری نہیں تھی ، جیسا کہ انھوں نے تسلیم کیا تھا مگر حقیقت کیا ہے اس کا پتہ نہیں ۔ اب ایک بار پھر این ڈی اے کی سرکار ہے جس میں دہشت گردوں کے مددگاروں کی رہائی عمل میں آرہی ہے ۔ اور بی جے پی حکومت گراکر اس مسئلے کو روکنے کے بجائے حکومت کو بچانے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ یہاں پر ایک اور واقعہ یاد آتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل وکی لیکس نے ایک انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس میں امریکی سفیر کے بیان کا حوالہ دیا تھا جس میں انہوں نے ملک و بیرون ملک بھیجے گئے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ بی جے پی لیڈر ارون جیٹلی نے کہا ہے کہ ’’ہندو راشٹر واد‘‘ ان کی پارٹی کیلئے محض ’’موقع پرستانہ‘‘ موضوع ہے ۔ حالانکہ جیٹلی نے اس سے انکار کیا تھا ۔ مگر اب جو کچھ ہورہاہے اس سے تو آنکھیں چرائی جاسکتی ہیں نہ منہ موڑا جاسکتا ہے ۔ شاید یہی سچ ہے کہ بی جے پی کا ہندو اور راشٹرواد موقع پرستانہ فطرت ہے جسے وہ اپنی سہولت کے حساب سے انکار اور قبول کرتا ہے ۔