ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
طنز ‘ دراصل برہمی اور غصّہ کا مخصوص طرزِ اظہار کا نام ہے۔خالص طنز کسی گالی سے کم نہیں ہوتا اس لئے مزاح کے ساتھ طنز کو شامل کیا جاتا ہے تا کہ پڑھنے والے کے چہرے پرمسکراہٹ کھلے اور دِل میں طنز کی چبھن بھی محسوس ہو اور ساتھ ساتھ اصلاح کا کوئی پہلو بھی روشن ہوسکے۔ پہلی جنگِ آزادی (۱۸۵۷ء) کے بعدطنز و مزاح کو زبردست فروغ حاصل ہوا۔مسلمانوں کی سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ اور تعلیمی اقدار میں پچھڑ جانے کے بعد ہمارے ادباء و شعراء نے وطنزومزاح کا سہارا لے کر نہ صرف حکمرانِ وقت کی چٹکی لی ہے بلکہ ہاری ہوئی قوم کو مزاح کے ذریعہ تازہ دَم کرنے کی کوشش کی ہے۔آج بھی یہ کوششیں جاری ہیں اور اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک سماج میں ظلم و زیادتی‘نا انصافی اور ناہمواری کا چلن رہے گا۔
طنزیہ و مزاحیہ ادب میں علاقہ تلنگانہ خصوصاً شہر حیدرآباد کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اس شہر نے کئی ایک مزاحیہ شاعر او ر نثرنگار دیئے ہیں، ان میں ایک اقبال شانہؔ ہیںجن کا تعلق شکر نگر (بودھن) سے ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہاں کے لوگ شوگر فری ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں اورنگ زیب نے نیند سے بیدار ہوکر ’’بودھن جا ے بودن نیست ‘‘کیوں کہاتھا اور اس کی نیند کے ٹوٹنے میں بودھن کے شہریوں کا کیا قصور تھا۔یہ بھی مشہور ہے کہ وہاں کے ایک محلہ کا نام ’’رکاس پیٹھ ‘‘ہے جسے راتوں رات رئیس پیٹھ بنادیا گیا ، اس طرح اب وہاں صرف رئیس حضرات ہی رہتے ہیں ان میں ایک اقبال شانہ ؔبھی ہیں۔
اقبال شانہؔ سے شناسائی ’’فیس بُک‘‘ کے ذریعہ ہوئی گو کہ ان کا کلام اخبار و رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے مگر وہ فیس بک پر غیرمعمولی متحرک رہتے ہیں۔اقبال شانہؔ کی دو چار خوبیاں ایسی ہیں جو انہیں انفرادیت بخشتی ہیں۔انہوں نے اقبال جیسے اہم نام کو شانہ ؔبنادیا۔ دوّم یہ کہ غزل کو عنوان دے کر ایک نیا کام کیا ہے۔اس کے علاوہ موضوعاتی غزل لکھنے کی بدعت کو فروغ دینے میں شانہؔ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اب تک ان کی تین تصانیف ’بیاضِ فکر‘، ’شانہ بہ شانہ‘، ’شانہ ڈاٹ کام‘ شائع ہوچکی ہیں۔کچھ دنوں قبل انہوں نے اپنی چوتھی تصنیف’’ دیوارِ قہقہہ‘‘ شائع کرکے شرعی عددی حجت کو پورا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
مزاح لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔خود کی ہنسی اُڑاکر دوسروں کو ہنسانا ایک غیرمعمولی کار نامہ ہے جو صرف مزاح نگار ہی انجام دیتاہے۔اقبال شانہؔ ایک ریڈیو گرافر ہیں اس لئے ان کی تیزنگاہیں کسی ایکسرے سے کم نہیں ہیں۔ان کا مشاہدہ کافی وسیع ہے وہ اپنے تجربات کواپنی ذہانت وذکاوت سے اپنے مزاج اور مزاح کے سہارے یوں دلچسپ انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ہر کوئی شانہؔ کا شیدائی ہوجاتا ہے۔’’دیوارِقہقہہ‘‘ میں سب سے پہلے حمد شامل ہے جس کا مطلع ان کے مذہبی مزاج اور سنجیدہ طبیعت کا غماز ہے۔
زندگی بے مثال دے مولیٰ
مجھ کو رزقِ حلال دے مولیٰ
دنیا و آخرت میں کامیابی کی کلید رزقِ حلال ہے۔جسے یہ میسر آتا ہے اس کی زندگی بے مثال ہوہی جاتی ہے۔پھر شاعر کی رگِ ظرافت پھڑک اُٹھتی ہے۔اسے یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ مزاحیہ شاعر ہے تو حمد میں بھی وہ اپنے اسلوب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
ایک ملین ریال دے مولیٰ
مال مجھ پر اچھال دے مولیٰ
عمر میری دراز تر کردے
چار سو بیس سال دے مولیٰ
اقبال شانہؔ نے جدید موضوعات کو اپنی غزل میں جگہ دے کر غزل کے دامن کو وسیع کیا ہے۔جیسا کہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی ہر غزل کو عنوان دے کر ایک نیا کام کیا ہے۔غزل ’’ ای میل‘‘ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
خط اِدھر لکھا اُدھر مل گیا
اک کرشمہ ہوگیا ای میل سے
رفتہ رفتہ دیکھ لینا ایک دن
یار بھی آجاے گا ای میل سے
غزل ’’انگلش‘‘ کے دو شعر ملاحظہ ہوں:
کہا معشوق نے جب ’’ مائی ڈئیر آئی لو یو ٹو‘‘
تو میں سمجھا کہ دونوں سے ہے اس کوپیار انگلش میں
وہ کچھ زیادہ ہی پی کر آگئے ہیں بزم میں شاید
ہر اک سے کررہے ہیں بے سبب تکرار انگلش میں
ایک اور موضوعاتی غزل جس کا عنوان ’’ فیس بک ‘‘ ہے کے اشعار پڑھتے جائیے اور ہنستے جائیے ۔
جسے FemaleسمجھےMale نکلا
بڑا دھوکہ ہوا ہےFacebook پر
کسی نے بھیج دی تصویر اپنی
جواب آیا گدھا ہے Facebook پر
اقبال شانہؔ کی بیشتر غزلیں سہلِ ممتنع ہوتی ہیں۔کہیں بھی مفہوم میں پیچیدگی یا ابہام نظر نہیں آتا۔کبھی کبھی ردیف آدھا مصرعہ پر مبنی ہوتا ہے اس لیے ترنم سے پڑھنے میں نہ صرف مزہ آتا ہے بلکہ سامعین ہی اکثر اپنے طور پر مصرعہ مکمل کرلیتے ہیں۔اس طرح شاعر محض ردیف کی مدد سے قارئین کو پکڑے رکھتا ہے۔
کچھ قرض یار لینا برسات آرہی ہے
چھتری سدھار لینا برسات آرہی ہے
سکھانے بال تو جائے گی چھت پہ آخر کیوں
میں تیرے صحن میں سورج نچوڑ کر رکھدوں
شاعر نے تشبیہات و استعارات کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔اس شعر کے جاندار تشبیہیں یقینا آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیں گی۔
اب کیا مثال دوں میں تیری مست چال کی
رک رک کے جیسے ریت پہ چلتا ہے کھیکڑا
چھوٹی بحر میں کہی گئی غزلیں کافی دلچسپ ہیں اور پڑھنے میں بہت مزہ دیتی ہیں۔شانہؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ ان چھوٹی بحروں میں بھی بڑے بڑے نکات بیان کیے ہیں۔ تبھی تو سید ضمیر جعفری(پاکستان) نے لکھا ہے کہ ’’ اقبال شانہؔ شاعری کی الجھی ہوئی زلفوں کی بڑی مہارت سے شانہ آرایٔ کرتے ہیں‘ان کے الفاظ‘ مکئی کے دانوں کی طرح ہنستے ہیں‘‘
سوچتے ہیں بیگموں سے گھر کے کام
رعب سے کروائیں گے مریخ پر
خوشبوؤں سے مہک اٹھا کمرہ
فون پر اس کی بج اٹھی آواز
تمہاری موت کتنی خوبصورت
ہماری زندگی بیمار کیوں ہے
شاعر نے قطعات بھی خوب لکھے ہیں۔خیال کا وہی چلبلا پن‘وہی تیکھا اندازاور وہی شوخی ٔ طبع جو ان کی غزل کا حصّہ رہی ہے وہ قطعات میں بھی جلوہ گر ہے۔کچھ قطعات ملاحظہ ہوں۔
تیری شادی ابھی ہوئی ہے کیا
خوف سے ناف ٹل گئی ہے کیا
ڈرکے مارے تُو کانپتا کیوں ہے
شیرنی گھر میں گھس گئی ہے کیا
تلنگانہ کے لیڈروں پر طنز کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
نیتاؤں نے رکھے ہیں ہزاروں مرن برت
یہ خواب تلنگانہ کا پورا تو ہوگیا
خود کو جلا کے لوگ کئی مرگئے مگر
کیا بات ہے کہ ایک بھی لیڈر نہیں مرا
’’دیوارِقہقہہ‘‘ میں شامل غزلیں ‘ نظمیں‘قطعات سب کچھ نئے تجربات ‘ مشاہدات اور خیالات کی آماجگاہ ہیں۔واحدؔ نظام آبادی نے شانہؔ کے کلام پر سیر حاصل تبصرہ لکھ کر کتاب کا حق ادا کردیا ہے۔جبکہ ڈاکٹر مصطفی کمال‘ ڈاکٹر عابد معز اور جمیلؔنظام آبادی نے شانہ ؔکی شاعری پر رائے دے کر کتاب کی زیب و زینت میں اضافہ کیا ہے۔ یقین کامل ہے کہ اقبال شانہؔ طنز و مزاح کے سہارے اُردو شاعری کے زلفوں کے پیچ و خم کو سلجھانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور مزاحیہ غزل کے مزاج و معیار میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
محفلیں لوٹ ہی لیتا ہے وہ شانہؔ ہر دَم
جب ترنم میں غزل اپنی سنا دیتا ہے