افغانستان کے صدارتی انتخابات اور طالبان

غضنفر علی خان
افغانستان میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات پر امن ہوئے ۔ حالانکہ طالبان نے انتخابات کے خلاف دھمکیاں دی تھیں۔ انتخابات کے کامیاب ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کئی پولنگ بوتھس پر بیلٹ پیپر کی کمی پیدا ہوگئی تھی۔ جنوبی صوبہ قندھار کے گورنر نے کہا ہے کہ بیلٹ پیپرس ووٹنگ ختم ہونے کے بعد فراہم کرتے ہوئے بوتھس پر پولنگ کے اوقات میں توسیع کرنی پڑی ۔ الیکشن کمیشن افغانستان میں اتنی بھاری تعداد میں رائے دہندوں کی آمد کی توقع نہیں رکھنا تھا کیونکہ ملک کی سیکوریٹی کی صورتحال ابھی بھی ابتر ہے۔ اس کے علاوہ آج بھی کئی صوبوں میں طالبان کا زور باقی ہے، لیکن ان کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان عوام نے اپنے ملک کی تاریخ کے پہلے جمہوری انتخابات میں حصہ لیا ۔ خاص بات یہ ہے کہ افغانستان کی خواتین ، طلبہ اور نوجوانوں نے جوق در جوق گھروں سے نکل کر اپنے جمہوری حق (ووٹ) کا استعمال کیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہیکہ یہ انتخابات پرامن اور منصفانہ تھے ۔ ابھی (تادم تحریر) نتائج نہیں آئے ہیں ، صدارتی عہدہ کے لئے ایک نہیں بلکہ متعدد امیدوار تھے جو اپنے ملک کی جانی پہچانی شخصیتیں تھیں۔ ان میں تو ملک کے سابق وزرائے خارجہ اور ایک موجودہ وزیر خارجہ تھے ۔

ان کے علاوہ عالمی بینک کے سابقہ اعلیٰ عہدیدار ہدایت اللہ امین بھی تھے ۔ قطب الدین ہلال جو پہلے قومی کمیشن کے سربراہ رہ چکے ہیں، انتخابات میں امیدوار تھے ۔ سب سے زیادہ جانی پہچانی شخصیت وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کی تھی جو وہاں کی سیاسی تنظیم کے سربراہ ہیں، افغان مجاہدین کے سابق سربراہ گل آغا شیرازی جنہیں بل ڈوزر کے نام سے زیادہ جانا جاتا ہے، امیدوار تھے۔ مختصر یہ کہ صدارتی انتخابات میں افغان سوسائٹی کی ممتاز ہستیوں نے حصہ لیا ۔ مذہبی اسکالر عبدالرسول سیاف نے بھی قسمت آزمائی کی ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس چناؤ میں افغانستان کے دانشوروں نے حصہ لیا چونکہ ان تمام کا تعلق زندگی کے کسی نہ کسی شعبہ سے تھا اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ افغانستان کو ایک فعال اور متحرک قومی حکومت ملے گی ۔ رہا سوال طالبان کا تو اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ افغان معاشرہ پر ان کی گرفت کمزور پڑگئی ہے ۔ اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں یا سمجھتے تھے کہ ان کا عوام پر گہرا اثر و رسوخ ہے تو پھر ان کا کوئی نمائندہ انتخابات میں حصہ لیتا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔

صدارتی انتخابات میں تو دور دور تک طالبان کا نام و نشان نہیں تھا۔ اب کسی بھی ملک کی کوئی طاقت یا فورس اس وقت تک ملک پر حکمرانی کا خواب نہیں دیکھ سکتی جب تک کہ وہ انتخابی عمل میں حصہ نہ لے ۔ افغانستان کے ان انتخابات کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اپنی جنم بھومی افغانستان میں طالبان کمزور پڑگئے ہیں۔ عوام پر ان کی دھمکیاں بے اثر ہوچکی ہیں ، کیا افغانستان کے معاشرہ نے طالبان کی طرز کی حکمرانی کو مسترد کردیا ہے ؟ بظاہر تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہی ملتا ہے ۔ افغانستان میں اس وقت سب سے سنگین مسئلہ وہاں سیکوریٹی کا ہے ۔ انتخابات سے کچھ ہی دن پہلے طالبان نے کئی حملے کئے جس سے ظاہر ہوگیا کہ سیکوریٹی کی حالت کتنی خراب ہے لیکن ان حملوں نے الٹا اثر کیا۔ دھمکیوں اور حملوں سے ڈرنے کے بجائے افغان عوام نے یہ ہنر سیکھ لیا کہ ملک کی ساری آبادی کو چند افراد خواہ ان کے نظریات کچھ ہوں ڈرا نہیں سکتے ۔ یہ بھی کہ عوام مسلسل خوف و ہراس کے ماحول میں نہیں رہ سکتے۔ ان کا اجتماعی شعور مشکل حالت اور مسلسل آزمائشوں کی بھٹی میں پگھلتا نہیں بلکہ اس کو جلا ملتی ہے اور یہ عزم و حوصلہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے،

یہی افغانستان میں ہوا۔ ایک کروڑ سے زیادہ رائے دہندوں کو کسی بھی جمہوری عمل میں ڈرا دھمکا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ عوام سب سے بڑی اور مضبوط طاقت ہوتے ہیں ، ان کے عزم و حوصلہ کو آزمایا ضرور جاسکتا ہے لیکن اس عزم کو کچلا نہیں جاسکتا۔ کیوں طالبان کی دھمکیاں بے اثر ہوئیں اور یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ کیا دوبارہ افغانستان کے عوام کو اس طرح دھمکایا جاسکتا ہے جس طرح سے اب تک ہوتا رہا ہے ۔ یہ بات بھی صاف ہوئی کہ افغان عوام اس طرز کی زندگی گزارنا نہیں چاہتے جس قسم کی زندگی طالبان نے ان پر مسلط کرنے کی کوشش کی تھی ۔ افغانستان میں طالبان کی یہ حالت ظاہر ہے کہ پاکستان کے طالبان پر بھی اثر انداز ہوئی کیونکہ طالبان کی انداز فکر کو اپناتے ہوئے پاکستان میں بھی طالبان نے اپنا کچھ نہ کچھ اثر قائم کیا ہے جو آج بھی ہے لیکن صدارتی انتخابات کے بعد جیسا کہ افغانستان میں طالبان کو عوام نے الگ تھلگ کردیا ہے ۔ یہی تجربہ پاکستان میں بھی دہرایا جاسکتا ہے۔

صرف پاکستانی سیاست دانوں کو عزم و حوصلہ کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ افغانستان میں دستوری اعتبار سے صدر تین میعاد کیلئے کام نہیں کرسکتا۔ چونکہ حامد کرزئی دو میعاد مکمل کرچکے ہیں اس لئے انہیں ان انتخابات میں حصہ لینے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔ وہ ملک کے صدر سے ایک ہی جھٹکے میں ملک کے ایک رائے دہندے بن گئے۔ انتہا پسندی کسی بھی روپ میں آج کی دنیا میں پر نہیں پھیلا سکتی ۔ عوام کے مزاج کو سمجھے بغیر طالبان نے افغانستان میں اپنی پسند کا معاشرہ تعمیر کرنے کی کوشش کی تھی ، وہ اب ان انتخابات کے بعد ختم ہوجائے گی ۔ افغانستان میں نئی صبح طلوع ہوچکی ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ افغانستان کا مذہب اسلام نہیں رہا ۔ اس ملک کا نام ہی اسلامی جمہوریہ افغانستان ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں افغانستان کے عوام مذہب کے مطابق ہی رہتے ہیں۔افغانستان میں مذہب اسلام پر کوئی غالب نہیں کرسکتا کیونکہ اسلام عوام کے ضمیر میں ہے ۔ ان کی رگ و پے میں ہے، ان کے مزاج کا سانچہ ہی مذہب پرستی ہے ۔ جمہوری انتخابات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ افغانستان میں کوئی غیر مذہبی طاقت غالب آگئی ہے ۔

مذہب سے افغانیوں کی وابستگی بہت گہری ہے ۔ البتہ وہ شدت پسندی جو افغانستان میں پروان چڑھائی جارہی تھی اس پر اعتدال پسندی کا غلبہ ہوگا جو نہ صرف افغان عوام کیلئے بلکہ جنوبی ایشیاء کے دیگر تمام ممالک بشمول ہندوستان کیلئے فال نیک ثابت ہوگا جو بھی نئی حکومت افعانستان میں بنے گی اس کے تعلقات ہمارے ملک سے خوشگوار ہوں گے اور پاکستان کی خارجہ حکمت عملی پر بھی اثر انداز ہوں گے ۔ اگر مجوزہ افغان حکومت جمہوری اداروں کو مضبوط کرے گی (جو ماضی میں کم و بیش ختم ہوئے تھے) تو افغانستان کی ترقی کی ضمانت دی جاسکتی ہے لیکن ابھی یہ بات قبل از وقت ہوگی کہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ منتخبہ صدر افغانستان یا ان کی حکومت ہندوستان اور اس علاقہ کے دیگر ممالک سے کیسے تعلقات رکھے گی ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا افغانستان کی نئی جمہوری حکومت کو بیرونی اور خود افغانستان کے اندر موجود غیر جمہوری طاقتیں کام کرنے دیں گی؟

کیا نئی حکومت اور نئے صدر مختلف قسم کے بین الاقوامی دباؤ کے آگے کہیں جھک تو نہیں جائیں گے جیسے کہ سابقہ صدر حامد کرزئی اور ان کی حکومت جھک گئی تھی ۔ افغانستان کو عالمی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اپنی داخلی مصلحتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ وہاں آج بھی کئی غیر سیاسی اور غیر سرکاری خفیہ طاقتیں موجود ہیں جو انتشار پیدا کرسکتی ہیں نئے صدر کو ان تمام سیاسی نزاکتوں کو سمجھنا پڑے گا اور اپنے ملک کی رہنمائی کرنے کے دوران پوری احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ افغان حکومت کو خدشہ تھا کہ لوگ ڈر کے مارے اتنی بھاری تعداد میں رائے دہی کے مراکز نہیں آئیں گے بلکہ یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ ماضی کی طرح بہت کم تعداد میں لوگ آئیں گے، لیکن عوام نے ان تمام خدشات اور اندیشوں کو غلط ثابت کر کے اپنے بلند حوصلگی کا جو ثبوت دیا ہے وہ لائق تعریف ہے اور ساری دنیا کی جمہوری طاقتیں افغانستان عوام کے اس حوصلہ کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھ رہی ہیں۔