آرایس ایس کے مسلم شعبہ مسلم راشٹریہ منچ کی یو پی میں افطار پارٹیاں، سنگھ کے ترجمان آرگنائزر میں مخالفت
نئی دہلی ۔ 20 ۔ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ترجمان کے تازہ ترین شمارہ کے اداریہ میں جس کا عنوان ’’سیکولر ٹوکن ازم (علامتی سیکولرازم) ‘‘ ہے۔ رسالہ آرگنائزر نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں جو افطار پارٹیاں منعقد کر رہی ہے، درحقیقت اقلیت پرستی کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور ہماری اقدار و اخلاقیات کی اہمیت کم کر رہی ہے۔ وہ شناختی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی جانب سے ترتیب دی ہوئی افطار پارٹی میں عدم شرکت کے بارے میں تحریر کیا گیا ہے کہ یہ آر ایس ایس کے 15 روزہ اجلاس میں جو مسلم شعبہ کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا، موضوع بحث آیا۔ پارلیمنٹ ہاؤز سے ملحق عمارت میں مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) نے ایک افطار پارٹی منعقد کی تھی۔ اس پارٹی میں دوسروں کے علاوہ اسلامی ممالک مصر ، یمن ، ایران ، سعودی عرب اور عراق کے سفیروں نے شرکت کی۔ مرکزی وزیر ہرش وردھن اور آر ایس ایس کے سینئر قائد اندریش کمار بھی موجود تھے۔ معاون بانی اور ایم آر این کے رہنما موجود تھے۔ چند دن بعد ایم آر این نے یو پی میں افطار پارٹیاں منعقد کیں۔ سب سے پہلے مراد آباد اور اس کے بعد لکھنو میں افطار پارٹی منعقد کی گئی۔ تیقن دیا گیا کہ مزید ایسی تقاریب ریاست میں منعقد کی جائیں گی۔ مہاراج ادھیراج سنگھ آر ایس ایس کے پرچارک اور ایم آر ایم کے قومی کنوینر نے مبینہ طور پر کہا کہ کسی کو بھی افطار کی پیشکش ایک نیک کام ہے اور ہم یہی کام کر رہے ہیں۔ اس سے قومی یکجہتی کا پیغام ملتا ہے ۔ واضح طور پر آرگنائزر کا خیال اس کے برعکس ہے ، جب تک ایک آر ایم کی افطار پارٹیاں اور آر ایس ایس کے ترجمان مختلف انداز میں بیان دیتے ہیں۔ پہلا مسلم برادری کیلئے اور فرخدل ہندوؤں کیلئے جبکہ آرگنائزر آر ایس ایس کے وفاداروں سے مخاطب ہے۔ مضمون کا آغاز آر ایس ایس کے دوسرے سر سنگھ چالک ایم ایس گولوالکر کا ہے، جنہوں نے اخبار کے ایڈیٹر سے 1970 ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً تمام پارٹیاں ہر وقت مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے کہ وہ اپنا علحدہ تشخص برقرار رکھیں۔ صرف اس لئے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ووٹ بلاک قائم ہوجائے ۔ کیا ووٹ بلاک قائم کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ ان میں سے جو ہندوستانی ہیں، واضح طور پر ہندوؤں کا یہ رویہ درست کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں مسلمانوںکی اصلاح کرنا چاہئے اور اس کے بعد ہندوؤں کی اصلاح ضروری ہے۔اس کے بعد اداریہ میں نریندر مودی کی صدرجمہوریہ کی افطار پارٹی میں عدم شرکت کا دفاع کیا گیا ہے۔