تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں معاشی طور پر کمزور افراد کو 10 فیصد تحفظات دینے کی پہل کرنے والی ریاستوں میں گجرات کے بعد تلنگانہ ہے جس نے مرکز کی جانب سے اعلان کردہ عام زمرہ میں معاشی طور پر کمزور طبقات ( EWS ) کے لیے 10 فیصد کوٹہ مختص کرنے کے بعد اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے۔ اعلیٰ ذات کے ووٹ بنک کو مضبوط کرنے کی دوڑ میں ٹی آر ایس نے عجلت کا مظاہرہ کیا ۔ ملک کی دیگر ریاستوں نے اس تعلق سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ 12 جنوری کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اس ترمیمی بل کو منظوری دیدی ہے ۔ اعلیٰ ذات طبقہ پہلے ہی سے خوشحال اور سماج کا کریمی لیر سمجھا جاتا ہے ۔ جب حکومت کی سطح پر کسی طبقہ کو کوٹہ دینے کا اعلان ہوتا ہے تو اس پر عمل آوری سے قبل مختلف گوشوں سے اعتراضات ہوتے ہیں مگر مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت حکومت نے ہندوؤں میں اعلیٰ ذات کے طبقہ کو کوٹہ دینا چاہا تو اس کی کسی نے بھی مخالفت نہیں کی ۔ کانگریس سے لے کر تمام نے تائید کی اور اس پر عمل کر کے دکھانے میں تلنگانہ کو جلدی تھی کیوں کہ تلنگانہ حکومت کو اب لوک سبھا انتخابات میں بھی کامیاب ہونا ہے ۔ اگرچیکہ مرکز کے اعلان کردہ 10 فیصد کوٹہ پر عمل کرنا ریاستوں کے لیے لازمی نہیں ہے ۔ مگر ٹی آر ایس حکومت نے اس کوٹہ بل کو خود پر لازم کرلیا ۔ یہ سیاسی چالاکی ہے اس کے علاوہ ٹی آر ایس نے اب تک مرکز کی مودی حکومت کی پالیسیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ مودی کی ہر پالیسی کو تہہ دل سے قبول کر کے اس کو بروے کار لایا ۔ اس میں شک نہیں کہ ٹی آر ایس نے 10 فیصد کوٹہ کے لیے این ڈی اے حکومت کے اعلان پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا ۔ البتہ اس نے پارلیمنٹ کے اندر دوسرے دن مرکز سے کہا تھا کہ وہ اقلیتوں کے لیے بھی 12 فیصد کوٹہ پر عمل آوری کرے اور اس کے لیے دستور کے شیڈول IX ( نویں ) میں شامل کرے ۔ ٹی آر ایس پارٹی سربراہ کی قومی سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی ہے اس لیے ان کی حکومت نے 10 فیصد کوٹہ پر عمل آوری کرتے ہوئے سارے ملک کو یہ پیام دیا ہے کہ ٹی آر ایس کو اگر قومی سطح پر حکمرانی کا موقع دیا جائے گا تو وہ اعلیٰ ذات کے افراد کو بھی من مانی طریقہ سے خوش کرے گی ۔ ظاہر ہے جب ریاستی عوام کے ووٹوں سے سیاسی طاقت ملتی ہے تو اس سیاستداں کو دور کی سوجھتی ہے ۔
کے سی آر کو بھی قومی سیاست کی سوجھی ہے وہ مرکز میں اپنی قسمت آزمانے کی دوڑ لگا رہے ہیں ۔ غیر بی جے پی ، غیر کانگریس محاذ بنانے ان کا خواب پورا تو نہیں ہوگا ۔ لیکن کوشش کرلینے میں کیا حرج ہے ۔ کامیابی اسے ملتی ہے جو مسلسل کوشش کرتا ہے ۔ کے سی آر نے لوک سبھا انتخابات سے قبل ایک محاذ بنانے کا عزم کرلیا ہے ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے ممتا بنرجی کے بشمول کئی قائدین سے ملاقات کی تھی لیکن کسی نے بھی انہیں جواب نہیں دیا ۔ اب وہ آندھرا پردیش کی جانب کوچ کررہے ہیں ۔ جہاں وائی ایس آر کانگریس صدر وائی ایس جگن موہن ریڈی سے اتحاد کرنے کی کوشش کریں گے ۔ مجوزہ وفاقی محاذ کے لیے کے سی آر اور ان کے فرزند کے ٹی راما راؤ سرگرم ہیں ۔ کے ٹی آر نے اس سلسلہ میں اپنے والد کی طرف سے وائی ایس جگن موہن ریڈی سے ملاقات کی اور اتحاد کے بارے میں ماحول تیار کرلیا ہے ۔ قومی سیاست کا نشہ کیا ہوتا ہے یہ کے سی آر کی سرگرمیوں سے دکھائی دیتا ہے ۔ اپنی ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کی فکر چھوڑ کر دہلی کی دوڑ لگاتے ہوئے سارا وقت اور ریاستی خزانہ کو صرف کررہے ہیں ۔ وفاقی محاذ کے منصوبہ کو قومی سطح پر کوئی خاص ردعمل سامنے نہ آنے کے باوجود کے سی آر اب بھی خود کو مرکز میں بادشاہ گر کا رول ادا کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ آندھرا پردیش کے لیڈر جگن ان کی قومی کوششوں میں کس حد تک معاون ثابت ہوں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ یووا جنا سریکا رعیتو کانگریس پارٹی ( وائی ایس آر سی پی ) صدر کی حیثیت سے جگن نے آندھرا پردیش میں پیدل دورہ کر کے عوام کے قریب پہونچکر ان کے مسائل سے واقفیت حاصل کرلی ہے ۔ اس ماہ کے اوائل میں ہی ان کی 3650 کیلو میٹر طویل پدیاترا پوری ہوگئی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کی پدیاترا جگن کے والد وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے بھی کی تھی جن کی مقبولیت کی وجہ سے کانگریس کو جنوبی ہند کی ریاست آندھرا پردیش میں تلگو دیشم کے خلاف دوبارہ مضبوط موقف حاصل ہوا تھا ۔ لیکن اب یہ قصے پارینہ ہوچکے ہیں ۔ آندھرا پردیش ہو یا تلنگانہ دونوں تلگو ریاستوں میں کانگریس نے اپنا وقار اور ساکھ ملیا میٹ کر لی ہے ۔ اس لیے غیر کانگریس پارٹیاں جم کر میدان سیاست میں ہنگامہ برپا کرتے جارہی ہیں ۔ وائی ایس آر کانگریس صدر جگن نے کے سی آر کے قومی اتحاد کو اپنی تائید کا بھی اعلان کردیا ہے تاہم وہ آندھرا پردیش میں تلگو دیشم صدر این چندرا بابو نائیڈو کی کانگریس سے قربت کے بعد اس کٹر حریف کے خلاف وائی ایس آر کانگریس کو مضبوط بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
یہ بات ریکارڈ میں ہے کہ جگن موہن ریڈی کے لیے آندھرا پردیش کے عوام کی رائے مثبت ہے ۔ ان کو آندھرا پردیش کا آئندہ چیف منسٹر بنانے کے خواہاں ہیں ۔ آندھرا کے 43 فیصد عوام جگن کے حق میں ہیں جب کہ 38 فیصد نے نائیڈو کی طرفداری کی ہے ۔ نائیڈو کے لیے آندھرا پردیش کا دوبارہ چیف منسٹر بننا وقار کا مسئلہ بھی ہے کیوں کہ منقسم ریاست میں کئی ترقیاتی کام باقی ہیں ۔ آندھرا کا دارالحکومت امراوتی کو ترقی دینا ہے ۔ نائیڈو کو دوبارہ اقتدار ملتا ہے تو ان کی پالیسیاں اور پروگرام جاری رہیں گے ۔ نائیڈو کے لیے جگن موہن ریڈی اور کے سی آر دونوں مشترکہ سیاسی حریف ہیں ۔ اب کے سی آر نے آندھرا کی سیاست میں قدم رکھنے کا بھی غور کرنا شروع کیا ہے ۔ تلنگانہ میں لوک سبھا انتخابات کے لیے ابھی سے تیاریاں شروع ہوئی ہیں ۔ تلنگانہ میں لوک سبھا کی 17 نشستیں ہیں اس وقت ٹی آر ایس کو 11 کانگریس کے لیے 2 ، ٹی ڈی پی کا ایک اور بی جے پی کا ایک رکن پارلیمنٹ ہے ۔ ان کے علاوہ مجلس ایک اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کا ایک رکن پارلیمنٹ ہے ۔ آندھرا پردیش میں 25 لوک سبھا حلقے میں 2014 میں یہاں تلگو دیشم بی جے پی اتحاد کے لیے ذریعہ 17 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ وائی ایس آر کے 8 امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ 2019 کے انتخابات میں تلگو دیشم اور ٹی آر ایس کو اپنی اپنی ریاستوں میں لوک سبھا حلقوں پر حسب سابق کامیاب ہونا ضروری ہے ۔ بصورت دیگر قومی سطح پر ان دونوں علاقائی پارٹیوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ۔ خاص کر قومی سطح پر بادشاہ گر کا رول ادا کرنے کی آرزو رکھنے والے کے سی آر کو ریاست تلنگانہ کے 17 حلقوں میں سے 16 پر کامیابی کا یقین ہے ۔۔
kbaig92@gmail.com