رشیدالدین
نئی دہلی میں عام آدمی پارٹی کی ریالی میں ہزاروں افراد کی آنکھوں کے سامنے ایک کسان کی خودکشی نے نریندر مودی کی سرکار کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ عام آدمی پارٹی قائدین بشمول چیف منسٹر اروند کجریوال اور ہزاروں کارکن تماش بین بنے رہے۔ ریالی کے انتظامات پر تعینات دہلی کی مستعد پولیس جیسے کسان کی موت کی منتظر تھی تاکہ نعش کو ہاسپٹل منتقل کرنے کی روایتی رسم پوری کی جائے۔ قومی اور علاقائی میڈیا کے کیمرہ مین اور فوٹو گرافرس کسان کے موت کو گلے لگانے کے منظر کو قید کرنے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ اس ویڈیو فوٹیج کو اپنے چیانلس پر بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرسکیں۔ کسانوں کے حق کیلئے جدوجہد کے نام پر ریالی کرنے والی عام آدمی پارٹی قائدین نے کسان کی موت کا نظارہ کرتے ہوئے اسے سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور اپنی تقاریر کو جاری رکھا۔ اس طرح ایک انسان کی موت کھیل تماشہ بن گئی۔ اگرچہ اروند کجریوال نے ریالی اور تقاریر جاری رکھنے پر معذرت خواہی کرلی ہے تاہم کافی دیر ہوگئی۔ تقریر جاری رکھنے کے بجائے اگر کسان کو بچانے کی کوشش کی جاتی تو بہتر ہوتا۔ کیا پولیس اور ہزاروں افراد کسان کو خودکشی سے روک نہیں سکتے تھے؟ یقیناً روکا جاسکتا تھا لیکن انسانی جان کی اہمیت کس قدر گھٹ گئی ہے کہ کسی کی موت دوسروں کیلئے مشغلہ بن گئی۔ کیا انسان اس قدر سنگ دل اور بے حس ہوچکا ہے کہ کسی کو موت کے منہ سے نکالنے تیار نہیں ۔ شاید ملک میں قتل و خون کے تسلسل میں عام آدمی کی انسانیت کو زنگ آمیز کردیا ہے۔ ملک کو غذا فراہم کرنے والے کسان آخر فاقہ کشی کا شکار کیوں ہیں
اور ان کی خودکشی کے ذمہ دار کون ہیں ؟ یوں تو ہر حکومت چاہے مرکزی ہو یا ریاستوں کی، خود کے موافق کسان (پروفارمرس) ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ملک بھر میں اگر کسی شعبہ میں زیادہ خودکشی کے واقعات رونما ہورہے ہیں تو وہ شعبہ زراعت ہے۔ کسان دراصل زیادہ خوددار اور حساس ہوتا ہے۔ ملک بھر کو غذا فراہم کرنے والوںکو جب حکومت نظر انداز کردے تو وہ بھیک مانگنے یا امداد کیلئے ہاتھ پھیلانے کے بجائے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ الغرض راجستھان سے تعلق رکھنے والے کسان کی خودکشی نے دہلی کی سیاست کو گرمادیا ہے۔ سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف محاذ آرائی کے ذریعہ سیاسی مقصد براری کے کھیل میں جٹ گئی ہیں۔ کسان کی خودکشی پر سیاسی فصل اگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اکثریت کے زعم میں اپوزیشن کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایجنڈہ پر کاربند تھی۔ 11 ماہ میں پہلی بار اس کی رفتار کو بریک لگ گیا۔ کسان کی خودکشی سے حکومت جو کل تک جارحانہ موقف میں تھی، یکایک دفاعی موقف میں آگئی۔ نریندر مودی جو اپنی جادو بیانی اور لفاظی کے ذریعہ مخالفین پر حاوی ہوجاتے تھے، وہ بھی اپنے فن خطابت کو بھول گئے اور لب و لہجہ جارحانہ سے عاجزانہ اور مفاہمانہ ہوگیا۔ مودی اس مسئلہ پر اظہار خیال کیلئے جو لوک سبھا میں اٹھے تو وہ الفاظ کی تک بندی اور جادوگری کو بھول گئے۔ مخالفین اور اپوزیشن پر ہمیشہ طنز کرنے اور چٹکی لینے والے مودی شاید کہیں کھو گئے تھے ۔ انہوں نے تمام جماعتوں سے کسانوں کے تحفظ کیلئے متحدہ کام کرنے کی اپیل کی۔ ظاہر ہے کہ یہ مودی اور ان کی حکومت کی مجبوری تھی۔ اس کے سواء کوئی چارہ نہیں تھا۔ وزیراعظم نے ایک جملہ کہا ’’انسانی جان سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہوسکتی‘‘ اس جملے نے تاریخ کے کئی اوراق میں دفن ماضی کے کئی واقعات کی یاد تازہ کردی۔
سابق چیف منسٹر گجرات کی زبان سے یہ الفاظ کچھ عجیب لگ رہے تھے۔ گجرات کے واقعات پر شاہ روم کا کردار اور گاڑی کے نیچے کتے کے بچے کے آجانے پر افسوس سے متعلق ریمارک کی یاد تازہ ہوگئی۔ پارلیمنٹ سے قریب اور ملک کے دارالحکومت میں کسانوں کی خودکشی سے اراضی بل کی منظوری کی کوششوں کو زبردست دھکا لگا ہے۔ سوٹ بوٹ کی سرکار اب اراضی بل کی منظوری میں تیزی نہیں دکھاسکتی۔ کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کے تحفظ میں رکاوٹ پیدا ہوچکی ہے۔ کسانوں کی زمینات کارپوریٹ گھرانوں کو حوالے کرتے ہوئے الیکشن میں تائید کا قرض چکانے کی تیاری ہے۔ نریندر مودی نے اس سنگین مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بیان دینے سے پہلے ٹوئیٹر پر تبصرہ لکھا۔ شاید وہ پارلیمنٹ سے پہلے دنیا بھر کو اپنے من کی بات بتانا چاہتے تھے۔ حالانکہ یہ اقدام پارلیمنٹ کی توہین کے مترادف ہے۔ وزیراعظم کو بیرون ملک مقبولیت کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ کسانوں کے مسائل پر عام آدمی پارٹی کا نظریہ ناقابل فہم ہے۔ اس نے راہول گاندھی کی جارحانہ انداز میں واپسی کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کا فائدہ بی جے پی کو پہنچے۔ اس طرح وہ سنگھ پریوار کے سیاسی شعبہ کی بی ٹیم نظر آرہی ہے۔ کسان کی خودکشی کے مسئلہ پر چند دن سرگرمی کے بعد سب کچھ معمول پر آجائے گا۔ یہ وقت کسانوں سے حکومت اور اپوزیشن کی سنجیدگی کا امتحان ہے۔
کسان کی خودکشی کے بعد بی جے پی حکومت اگرچہ دہلی میں کمزور پڑگئی لیکن جموں و کشمیر میں بی جے پی نے حکومت پر عملاً کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ مفتی محمد سعید حکومت پر بی جے پی کی گرفت مضبوط ہوچکی ہے اور پی ڈی پی ایک کٹھ پتلی کی طرح بی جے پی کے اشاروں پر رقصاں ہے۔
حریت قائد مسرت عالم کو متنازعہ عوامی سلامتی ایکٹ PSA کے تحت دوبارہ جیل بھیج دینے کا فیصلہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس قانون کے تحت ساڑھے چار سال محروس رہنے کے بعد گزشتہ ماہ مسرت عالم کی رہائی عمل میں آئی تھی لیکن گزشتہ ہفتہ ایک ریالی میں پاکستانی پرچم لہرانے اور مخالف ہندوستان نعروں کے الزام میں 17 اپریل کو گرفتار کرلیا گیا۔ اب جبکہ ان کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر مقامی عدالت کا فیصلہ محفوظ ہے لہذا اس فیصلہ کو بے اثر کرنے یہ کارروائی کی گئی۔ تحقیقات کے دوران یہ ثابت بھی نہیں ہوا تھا کہ مسرت عالم نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔ لہذا عدالت سے ضمانت کے امکانات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کے دباؤ میں یہ فیصلہ کیا گیا ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ فوج کے خصوصی اختیارات کی ابتداء ہی سے مخالفت کرنے والے اور مسرت عالم کی رہائی کی تائید کرنے والے مفتی محمد سعید نے اچانک یو ٹرن لے لیا ۔ اب جبکہ اظہار خیال کی آزادی کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جارہا ہے، ایسے میں مسرت عالم کی دوبارہ گرفتاری سے دنیا بھر میں غلط پیام جائے گا۔ کم از کم حکومت کو عدالت کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے تھا لیکن یہ اس لئے بھی ممکن نہیں تھا کہ دن بہ دن دہلی سے دباؤ بڑھنے لگا تھا۔ بی جے پی کے اشارہ پر اس طرح کی کارروائی وادی میں پی ڈی پی کے مستقبل کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ مسرت عالم تو محض ایک کارکن ہے، ان کے رہنما سید علی شاہ گیلانی تو ابھی آزاد ہیں جن کے سامنے یہ واقعات پیش آئے تھے۔ گیلانی کو ایک دن نظربند رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا حالانکہ مسرت عالم کے ساتھ گیلانی اور دوسرے قائدین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا لیکن کارروائی صرف ایک کے خلاف ہی کی گئی۔ حکومت سید علی شاہ گیلانی کے خلاف کارروائی کر کے دکھائے ۔ انہیں تو حکومت نے پاکستانی ہائی کمشنر سے ملنے اور پاکستانی ہائی کمشنر کی ضیافت کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔
اگر مفتی سعید کو بی جے پی کا دباؤ قبول کرنا تھا تو حکومت کی حلف برداری کے بعد مسرت عالم کی رہائی اور اب گرفتاری کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اس طرح کے انداز حکمرانی سے مستقبل میں پی ڈی پی کو عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی دوران نسیم زیدی ملک کے بیسویں چیف الیکشن کمشنر کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ سینئر ترین الیکشن کمشنر کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کی روایت کے تحت ان کا تقرر عمل میں آیا ہے۔ نسیم زیدی ایسے وقت ایک اعلیٰ ترین دستوری عہدہ پر فائز ہوئے جب سنگھ پریوار اور ان کے ہمنوا ملک میں مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نسیم زیدی کی ذمہ داری سارے ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا ہے۔ ان کے تقرر سے یقیناً نفرت کا پرچار کرنے والی طاقتوں کو تکلیف ہی ہوگی لیکن یہ دستور ہند اور قانون کی بالادستی اور سربلندی کی مثال ہے۔ نسیم زیدی دوسرے مسلمان ہیں جو اس دستوری عہدہ پر فائز کئے گئے۔ اس عہدہ پر تقرر کسی کی سفارش کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ خالص سینیاریٹی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ملک کا دستور اور جمہوری اقدار کسی کے ساتھ مذہب ، زبان یا علاقہ کی بنیاد پر جانبداری کی اجازت نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود ملک میں ہمیشہ قانون اور دستور کی بالادستی برقرار رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تاریخ میں مسلمان صدر جمہوریہ ، نائب صدر گورنر ، چیف منسٹر اور چیف جسٹس آف انڈیا جیسے دستوری عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ جموں و کشمیر کے علاوہ آسام راجستھان ، بہار اور کیرالا میں مسلمان چیف منسٹر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ مسلمان جس عہدہ پر بھی رہے، انہوں نے اس عہدہ کے وقار کو مزید بلند کیا۔ اہم عہدوں پر مسلمانوں کی تعیناتی ان کی صلاحیت اور قابلیت کی بنیاد پر ہوئی نہ کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی سفارش پر۔ فرقہ پرست طاقتوں کو کم از کم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ ملک میں کسانوںکے ساتھ مرکزی حکومت اور سیاسی جماعتوںکی یکایک ہمدردی پر کسی شاعر نے کہا ہے ؎
اس کو کیا کہئے مرا قتل کیا ہے جس نے
سب سے آگے ہے وہی پھوٹ کے رونے والا
rasheeduddin@hotmail.com