صدر جمہوریہ … سنگھ پریوار بمقابلہ سیکولرازم
رام مندر کیلئے اینٹ … وی ایچ پی کا نیا شوشہ
رشیدالدین
راشٹرپتی بھون کا اگلا مہمان بی جے پی اور سنگھ پریوار سے ہوگا۔ اگرچہ صدارتی عہدہ کیلئے کانگریس زیر قیادت یو پی اے محاذ نے بھی اپنے امیدوار کا اعلان کیا ہے لیکن یہ مقابلہ محض ضابطہ کی تکمیل دکھائی دے رہاہے ۔ نریندر مودی اور امیت شاہ جوڑی کی چال آخر کار کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدر جمہوریہ کے عہدہ پر زعفرانی وچار کا قبضہ ہونے کو ہے جو ملک کی یکجہتی ، رواداری اور سیکولرازم کیلئے اچھی علامت نہیں۔ صدارتی عہدہ کیلئے بی جے پی امیدوار رامناتھ کووند نے اپنے نام کے اعلان کے ساتھ مودی اور امیت شاہ کے علاوہ ’’وچار پریوار‘‘ سے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے سنگھ پریوار کا نام لینے کے بجائے وچار پریوار کہا حالانکہ دستوری سربراہ کے عہدہ کی دوڑ میں شامل شخص کیلئے ضروری نہیں تھا کہ وہ پریوار کا نام لے لیکن سنگھ سے اٹوٹ وابستگی کو وہ چھپا نہ سکے اور فخر کے اظہار کو ضروری سمجھا۔ ظاہر ہے کہ رامناتھ کووند جنہیں وچار پریوار کہہ رہے ہیں ، انہیں راشٹرپتی بھون سے سنگھ کے وچاروں کو نہ صرف عام کرنا ہے بلکہ ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندوتوا ایجنڈہ کے نفاذ میں دستوری سربراہ یعنی صدر جمہوریہ کا عہدہ اہم رکاوٹ تھا لیکن اب یہ رکاوٹ آئندہ ماہ دور ہوجائے گی ۔ بی جے پی نے راشٹرپتی بھون میں اپنے نمائندہ کو بٹھانے کی منصوبہ بندی ایک سال قبل ہی شروع کردی تھی اور اس نے صدر کو منتخب کرنے والے الیکٹورل کالج میں اپنی اکثریت کو یقینی بنانے نام نہاد سیکولر جماعتوں کو گھیرتے ہوئے اپنا ہمنوا بنانے پر توجہ مرکوز کی ۔ بی جے پی کو جنتا دل (یو) ، ٹی آر ایس ، وائی آر ایس سی پی اور انا ڈی ایم کے گروپس کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی ملی اور یہ نام نہاد سیکولر جماعتیں بی جے پی کی جھولی میں آگئیں۔ اس طرح انتخابی منظر بی جے پی امیدوار کے حق میں دکھائی دے رہاہے۔ بی جے پی نے اتفاق رائے کے نام پر اس کھیل کا آغاز کیا اور اچانک ہی یکطرفہ طور پر راجناتھ کووند کے نام کا اعلان کردیا ۔ بی جے پی کے پاس کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جس کے نام پر کانگریس اور بائیں بازو جماعتیں متفق ہوجائیں۔ یوں بھی امیت شاہ نے پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ اگلا صدر جمہوریہ بی جے پی کا ہوگا۔ بی جے پی نے 2019 ء انتخابات میں دلت کارڈ کھیلنے کیلئے رامناتھ کووند کا انتخاب کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ نائب صدر حامد انصاری کی میعاد کی تکمیل کے بعد کسی خاتون کو اس عہدہ پر فائز کیا جائے تاکہ خواتین کی تائید حاصل ہوسکے۔ بی جے پی امیدوار کے مقابلہ میں کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں نے جوابی دلت کارڈ کھیلا ہے اور دلت قائد بابو جگجیون رام کی دختر میرا کمار کے نام کا اعلان کیا۔ سیاسی تجربہ اور مقبولیت کے اعتبار سے میرا کمار کا موقف مضبوط ہے لیکن الیکٹورل کالج حکمراں جماعت کے حق میں دکھائی دے رہا ہے۔ میرا کمار کا تعلق بہار سے ہے جبکہ کووند اترپردیش سے تعلق رکھتے ہیں۔
بہار کی بیٹی کا مقابلہ اترپردیش کے سپوت سے ہے۔ میرا کمار یقینی طور پر راجناتھ کووند سے بہتر صدر ثابت ہوسکتی ہیں۔ دلت ہونے کے ساتھ ان کا خاتون ہونا بی جے پی نہ سہی لیکن دیگر جماعتوں میں کراس ووٹنگ کے اندیشوں میں اضافہ کرسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میرا کمار کے نام کے اعلان کے فوری بعد وزیراعظم نے سیاسی بازیگری کے ماہرین کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔ بی جے پی امیدوار کی تائید کے ذریعہ نتیش کمار نے جس طرح اپوزیشن میں پھوٹ پیدا کی ہے ، اس سے حال میں نریندر مودی سے ان کی ملاقات کا راز فاش ہوگیا۔ مودی۔نتیش ملاقات میں اس کھیل کا اسکرپٹ تیار ہوچکا تھا ، ویسے بھی نتیش کمار کی بی جے پی سے دوستی کوئی نئی بات نہیں۔ وہ سابق میں این ڈی اے کا حصہ رہے اور واجپائی حکومت میں وزیر ریلوے تھے، انہیں بہار میں بی جے پی کے ساتھ ملکر حکومت چلانے کا تجربہ ہے ۔ بہار میں شاید پھر ایک بار بی جے پی کے اچھے دن لوٹ سکتے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں اگر نتیش کمار نے بی جے پی امیدوار کی تائید برقرار رکھی تو اس کا اثر عظیم تر اتحاد پر پڑسکتا ہے اور آر جے ڈی اور کانگریس حکومت سے علحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گی ۔ اس طرح نتیش کمار کو اپنے نیچرل الائی بی جے پی کے ساتھ حکومت قائم کرنے کا راستہ ہموار ہوجائے گا ۔ نتیش کمار اور سشیل کمار کی جوڑی بہار میں پھر اقتدار میں ہوگی۔ نہ صرف بہار بلکہ قومی سطح پر نئی سیاسی صف بندیوں کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اقتدار کی کشش اور ریاستی سطح پر مفادات کی تکمیل کیلئے بعض سیکولر جماعتوں نے بھی بی جے پی امیدوار کی تائید کا اعلان کیا ۔ حالانکہ رامناتھ کووند کا پس منظر تنازعات سے پر ہے۔ 2010 ء بی جے پی کے قومی ترجمان کی حیثیت سے کووند نے اسلام اور عیسائیت کو غیر ملکی مذاہب قرار دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی پسماندگی سے متعلق سچر کمیٹی سفارشات کی مخالفت کی تھی جس میں تحفظات کی مخالفت بھی شامل ہے۔ پھر کس طرح ٹی آر ایس مسلم اور ایس ٹی تحفظات کی بلز کی منظوری کی امید کرسکتی ہے ۔ رامناتھ کووند نے اسلام اور عیسائیت قبول کرنے والے دلتوں کو ایس سی زمرہ میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کووند سنگھ پریوار کے تربیت یافتہ ہیں اور صدارتی عہدہ پر انہیں فائز کرنے کا فیصلہ یونہی نہیں لیا گیا۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ پر رامناتھ کووند کے فائز ہوتے ہی جن متنازعہ مسائل کو ابھارا جاسکتا ہے ، ان میں کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی تنسیخ، یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ، طلاق ثلاثہ ، ذبیحہ گاؤ پر قومی امتناع اور رام مندر کی تعمیر شامل ہیں۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں دفعہ 370 رام مندر اور یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل پہلے ہی سے موجود ہیں اور اب اسے عمل آوری میں صدر جمہوریہ کے ذریعہ مدد مل سکتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی اکثریت حاصل ہوجائے تو رام مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کی جائے گی ۔ اس طرح حکومت اور ملک پر سنگھ پریوار کی گرفت مضبوط ہوسکتی ہے۔ رامناتھ کووند کی شکل میں بی جے پی کو بظاہر ایک دلت چہرہ مل گیا لیکن اس سے زیادہ دلت چہرہ کی آڑ میں برہمن واد کے منصوبوں پر عمل کیا جائے گا ۔ دلت کے نام پر حکمرانی دراصل اعلیٰ طبقات کی ہوگی۔ اس مرحلہ پر ہمیں مسلم مجلس کے بانی ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کا وہ جملہ یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’پارٹی بھلے سیکولر ہو یا فرقہ پرست جب معاملہ مسلمانوں کا آتا ہے تو سب ایک ہوجاتے ہیں‘‘۔ صدر جمہوریہ کے عہدہ کیلئے مقابلہ بظاہر دلت بنام دلت دکھائی دے رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ سیکولرازم بقابلہ سنگھ پریوار ہے ۔
صدر جمہوریہ کے عہدہ پر بی جے پی کے امیدوارکا انتخاب ابھی عمل میں نہیں آیا لیکن زعفرانی تنظیمیں اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری کیلئے سرگرم ہوچکی ہیں۔ وشوا ہندو پریشد نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے اینٹ جمع کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اندرون ایک سال مندر کی تعمیر کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اترپردیش میں اب وشوا ہندو پریشد کیلئے اینٹ جمع کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوسکتی۔ سابق میں اکھلیش یادو حکومت نے اس طرح کی کوششوں کو ناکام بنادیا تھا۔ اب تو یوگی خود اینٹ اپنے سر پر رکھتے ہوئے منتقل کرسکتے ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے چیف منسٹر کی حیثیت سے متنازعہ مقام کا درشن اور پوجا کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کی تحریک کو ہوا دی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اور بھی بڑی شخصیتیں درشن کیلئے قطار میں لگ جائیں۔ بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد 2019 ء سے قبل رام مندر کی تعمیر کے ایجنڈہ پر عمل آوری کے خواہاں ہیں۔ ملک میں جس طرح فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیاں شدت اختیار کر رہی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس پر مبصرین کا احساس ہے کہ ہندوستان میں برما کی طرح مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان میں دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کو نشانہ بنانا آسان نہیں ۔ نام نہاد سیکولر جماعتیں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے آگے سرینڈر ہوچکی ہیں اور کسی بھی مسئلہ پر مزاحمت کا ماحول دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ زعفرانی طاقتیں بے لگام ہوچکی ہیں۔ ہندوستان کے مختلف حصوں میں مختلف عنوانات کے تحت اقلیتوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔
یوگی ادتیہ ناتھ نے دو ماہ میں امن و ضبط کی صورتحال کو قابو میں کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اترپردیش میں امن و ضبط کا معاملہ انتہائی ابتر ہے اور فرقہ پرستوں کے نشانہ پر مسلمان ہیں۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمانوں کے درمیان سے کچھ میر جعفر اور میر صادق بی جے پی کی صفوں میں شامل ہوکر ان کے گن گا رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران آر ایس ایس کی محاذی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں افطار کا اہتمام کیا گیا اور ان دعوتوں کا داعی وہ شخص تھا جو مسلم عبادتگاہوں پر بم دھماکوں میں ملزم ہیں۔ ان دعوتوں کا مقصد مسلمانوں کو آر ایس ایس سے قریب کرنا تھا، افسوس کہ مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ خود کو سکہ رائج الوقت کی طرح سمجھنے والی بکاؤ مذہبی ، سماجی اور سیاسی شخصیتیں ان دعوتوں پر شرکت کیلئے بے چین دکھائی دی۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ وہ دعوتوں میں شرکت کے ذریعہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ موجودہ حالات پر فیض احمد فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس اُس کی سزا ہے