اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے

مودی وزارت ۔ سنگھ پریوار کا غلبہ
گجرات کے بعد امیت شاہ کو ملک کی ذمہ داری
مسلمان حوصلہ بلند رکھیں

رشیدالدین

’’میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں‘‘ ان الفاظ کی گونج کا مطلب ہوتا ہے کہ خدا کے نام پر حلف لیا جارہا ہے کہ دستور ہند پر مکمل ایقان رکھوں گا ۔ تمام شہریوں کے ساتھ کسی بھید بھاؤ اور جانبداری کے بغیر مساوی انصاف کروں گا۔ حکومت کی تشکیل کے وقت مرکز میں وزیراعظم اور وزراء جبکہ ریاستوں میں چیف منسٹر یہ قسم کھاتے ہیں۔ گزشتہ 70 برسوں میں ملک نے 14 وزرائے اعظم کو دستور ہند سے وفاداری اور اس کی پاسداری کی قسم کھاتے ہوئے سنا لیکن ان میں بیشتر نے قسم نبھانے کی کوشش ضرور کی جبکہ بعض کیلئے یہ محض رسمی جملے ثابت ہوئے جو زبان سے تو ادا ہوئے لیکن حلق سے نیچے نہیں اترے۔ ان کے لئے قسم کھانا محض ایک مجبوری تھا اور ان کا بس چلے تو حلف برداری کے الفاظ تبدیل کردیں۔ دستور ہند کے بجائے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کی قسم کھا سکتے ہیں ۔ ویسے بھی نریندر مودی حکومت نے گزشتہ پانچ برسوں میں یہ کچھ کیا ہے ۔ دستور سے وفاداری اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ کسی بھید بھاؤ کے بغیر یکساں سلوک اور انصاف کا دنیا کیلئے حلف لیا گیا لیکن پانچ سالہ حکمرانی کا ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جس دن کے قسم کو نبھایا گیا ہو۔ یکساں سلوک اور انصاف کے برعکس کام کرتے ہوئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ۔ دستور میں دی گئی مراعات سے محروم کرتے ہوئے خوف و دہشت کے ماحول میں دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانے کی کوشش کی گئی ۔ عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں کو شریعت اور تہذیب و تمدن سے دستبرداری اور زعفرانی تہذیب اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ راشٹرپتی بھون سے اس مرتبہ ایک نہیں بلکہ دو آوازیں گونجیں جو ملک کے اتحاد و یکجہتی اور مذہبی رواداری کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ایک آواز نریندر دامودر داس مودی کی تو دوسری امیت انیل چندر شاہ کی تھی۔ دوسری آواز راشٹرپتی بھون میں پہلی مرتبہ سنائی دی۔ اس نام کو مودی حکومت کی دوسری میعاد میں وزارت میں شامل کیا گیا۔ دونوں ناموں کا ٹریک ریکارڈ خون آلود ہے اور عوام اس جوڑی کے حکومت میں شامل ہونے پر مختلف اندیشوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ دونوں گجرات میں دستور اور قانون کی پاسداری کی قسم کھانے کے بعد کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ’’انصاف‘‘ کیا ،اس سے دنیا واقف ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ان کے لباس آلودہ ہیں اور ابھی بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والوں کو گجرات کے مظلوموں کو پہلے انصاف فراہم کرنا چاہئے ۔ انصاف رسانی کے ذریعہ وشواس یعنی اعتماد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری میعاد کی کامیابی کو عوام کے وشواس کا نتیجہ قرار دینے والی مودی ۔ امیت شاہ جوڑی پہلے ان خاندانوں کو انصاف دلائیں جن کے جوانوں اور ضعیفوں کو بیف اور دیگر عنوانات سے ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا گیا ۔ نریندر مودی نے پارٹی کی کامیابی کے بعد این ڈی اے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں مسلمانوں کے حق میں مگرمچھ کے آنسو بہا کر ان کا بھروسہ جیتنے کی بات کہی ۔ پھر کیا تھا مسلمانوں میں چھپے ہوئے مودی بھکت واہ واہی کرتے ہوئے میدان میں آگئے ۔ بعض نادان بیان بازی کے ذریعہ مودی کی جئے جئے کار کرنے لگے ۔ شائد یہ لوگ گجرات فسادات اور پانچ برسوں میں مسلمانوں پر مظالم اور شریعت اسلامی پر حملوں کو بھلا چکے ہیں۔ جس وقت مودی پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں مسلمانوں سے ہمدردی دکھا رہے تھے، اسی وقت مدھیہ پردیش میں گاؤ دہشت گرد ایک مسلمان جوڑے کو بیف لیجانے کے شبہ میں بری طرح مار پیٹ کر رہے تھے۔ مودی کی مسلمانوں سے ہمدردی دیکھ کر ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ ہمدردی کی آڑ میں آخرکیا سازش رچی جائے گی۔ آخرکار وزارت تشکیل سے مودی کی مسلمانوں سے ہمدردی کا پول کھل گیا ۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے گجرات فسادات کے ماسٹر مائینڈ کو مرکزی کابینہ میں ملک کا وزیر داخلہ مقرر کیا گیا۔ بی جے پی نے ملک کے لئے کونسا منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر عمل آوری کے لئے گجرات کے ماسٹر مائینڈ کو حکومت میں شامل کیا گیا ۔ گجرات فسادات کے وقت مودی کی وزارت میں امیت شاہ وزیر داخلہ تھے اور آج یہی جوڑی مرکز میں غلبہ حاصل کرچکی ہے ۔ امیت شاہ کی شمولیت ہی کافی تھی لیکن انہیں وزارت داخلہ کا قلمدان دیتے ہوئے یہ ثابت کردیا گیا کہ کابینہ کی تشکیل اور قلمدانوں کا الاٹمنٹ دونوں آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی مرضی کے مطابق ہے۔ مرکزی کابینہ مودی اور امیت شاہ کی نہیں بلکہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی ٹیم ہے ۔ 58 رکنی وزارت میں ایسے قابل اور عوامی مقبول قائدین کو جگہ نہیں دی گئی جو کسی بھی وقت مودی کے لئے چیلنج بن سکتے تھے ۔ ان میں ارون جیٹلی اور سشما سوراج سرفہرست ہیں۔ ناسازیٔ مزاج تو محض ایک بہانہ ہے۔
مودی کابینہ پر سنگھ پریوار کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جارحانہ فرقہ پرستی کی ترجمانی کرنے والے قائدین کو ترقی دیتے ہوئے دوسری بار کابینہ میں شامل کیا گیا۔ مظفر نگر فسادات کے ملزم سنجیو بلیان کو مودی کابینہ میں جگہ دی گئی ۔ ان کے علاوہ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا عزم رکھنے والے گری راج سنگھ بھی شامل کئے گئے ۔ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی سادھوی نرنجن جیوتی کو بھی مودی نے آشیرواد دیا ۔ ان تینوں کی شمولیت دراصل حکومت میں ہندوتوا چہرہ کو پیش کرنا ہے۔ کابینہ پر مودی سے زیادہ امیت شاہ کا اثر دکھائی دے رہا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کا دفتر زیادہ بااثر ثابت ہوگا یا پھر اہم فیصلے امیت شاہ کے دفتر سے ہوں گے ۔ اختیارات کی تقسیم میں سنگھ پریوار کی ذہنیت کا اندازہ ہوجائے گا ۔ مودی نے حلف برداری میں اس مرتبہ بمسٹک ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا۔ ملک بھر کے وزرائے اعلیٰ کو دعوت دی گئی اور 8,000 سے زائد مدعوئین کی موجودگی میں حلف لیا گیا ۔ ملک اور بیرونی ملک کی چنندہ شخصیتیں حلف برداری میں موجود تھیں لیکن ایک خاتون کی کمی ہر کسی کو محسوس ہورہی تھی۔ کاش اپنی دوسری اننگز کے آغاز کے وقت مودی اپنی شریک حیات یشودھا بین کو مدعو کرتے تاکہ وہ بھی اپنے شوہر نامدار کی خوشی میں شامل ہوتیں۔ 58 رکنی کابینہ میں صرف ایک مسلم نمائندگی دی گئی۔ کیا یہی سب کا ساتھ سب کا وکاس ہے ؟ ویسے بھی مختار عباس نقوی کو حقیقی مسلم نمائندگی نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ وہ دوسروں سے زیادہ ہندوتوا کے علمبردار ہیں۔ ملک میں جارحانہ فرقہ پرست عناصر کا اقتدار پر غلبہ حاصل ہوچکا ہے، پھر بھی ملک کی سیکولر اور مسلم جماعتیں خواب غفلت کا شکار ہیں۔ 2021 میں بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل ہوجائے گی جس کے بعد وہ کسی بھی قانون کو بآسانی منظور کرتے ہوئے سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر عمل کرسکتے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کیلئے آج سیکولر جماعتیں اہل نہیں ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں ملک بھر میں اپنی شناخت ہوچکی ہے۔ اب تو کمیونسٹ پارٹیوں کی قومی حیثیت کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو محض سیکولر جماعتوں پر بھروسہ کئے بغیر اپنی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی سطح پر ایسی قیادت نہیں ہے جو حکومت کی آنکھ میں آنکھ ملاکر گفتگو کرسکے اور حکومت کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھے۔ آج مولانا سید ابوالحسن ندویؒ جیسی شخصیت کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے جبکہ سیاسی میدان میں مسلمانوں کے بے باک ترجمان بدرالدجیٰ ، غلام محمود بنات والا اور سلیمان سیٹھ جیسی قیادت نہیں ہے۔ ان شخصیتوں کا متبادل ہم نے تیار نہیں کیا جس کے نتیجہ میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں بآسانی مسلمانوں اور شریعت کو نشانہ بنانے کی ہمت کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کو اب خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑ ے گا ۔ صرف تقدیر سے شکوہ کرنے کے بجائے اپنی تقدیر خود لکھنے کی صلاحیت پیدا کی جائے ۔ ہمارا بھروسہ سیاسی جماعتوں اور قائدین کے بجائے اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے ۔ جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہم اپنے مسائل کو نہ صرف حل کرسکتے ہیں بلکہ فرقہ پرستی کے چیلنجس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوں پر تہذیبی اور ثقافتی حملے جاری ہیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی علحدہ مذہبی شناخت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم کسی کے دباؤ سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ہندوستان کو اپنا وطن منتخب کرچکے ہیں۔ بے حسی کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اسپین کی صورتحال کا اعادہ ہوگا جہاں مسلمانوں نے 800 برس تک حکومت کی لیکن جب زوال آیا تو تمام مساجد ، گرجا گھر یا اصطبل میں تبدیل ہوگئے ۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے 800 برس تک حکمرانی کی ہے اور آج جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں شریعت اور تہذیب و تمدن سے دور کرنا چاہتی ہے۔ کھانے پینے کے آداب اور اسلامی لباس پر اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی کی جیت کے ساتھ ہی تعصب کے واقعات کا آغاز ہوگیا۔ دہلی میں مسلم نوجوان کی ٹوپی اچھالنے پر جب گوتم گمبھیر نے اعتراض کیا تو بی جے پی کیڈر انہیں گالی گلوج کرنے لگا۔ بی جے پی میں رہتے ہوئے گمبھیر نے اسپورٹسمین اسپرٹ کا مظاہرہ کیا تھا۔ فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ نیوز چینلس اور بیان بازی سے نہیں بلکہ حکمت عملی سے کیا جائے۔ ہمیں اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ جیسے اعمال ہوں گے ویسے حاکم مسلط کئے جائیں گے ۔ فیض احمد فیض نے کچھ اس طرح کہا ہے ؎
ہوتی نہیں جو قوم حق بات پہ یکجا
اس قوم کا حاکم ہی بس اس کی سزا ہے