رضی رضی الدین
نرم خو ، سر کے بالوں سے محروم ہوتے ہوئے تاریخ کے پروفیسر دہلی یونیورسٹی کے دو یجیندر نارائن جھا ایک ماہ کے زیادہ عرصہ سے ایک پولیس کانسٹبل کی حفاظت میں کلاس روم کو آتے اور جاتے ہیں ۔ وہ عہد قدیم کی تار یخ پڑھاتے ہیں جس سے کسی کی بھی زندگی کوخطرہ لاحق نہیں ہوتا لیکن جب سے قدیم ہندوستان کی تاریخ کا ایک راز برسر عام فاش کردیا ہے یعنی قدیم دور کے ہندوؤں ، بدھست کے پیروؤں اور ابتدائی دور کے جین مت کے پیروؤں کے بیف کھانے کی عادت کا ا پنی ایک کتاب جس کا عنوان ہے ’’مقدس گائے ، ہندوستان کی غذائی عادات میں بیف‘‘ تو ان کے ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہی رہتی ہے۔ عام طور پر ٹیلیفون کالس بدگوئی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ جھا نے کہا کہ لیکن بعض او قات وہ یہ جاننے کا مطالبہ کرتے ہیں کہ میرے پاس کیا ثبوت ہے ۔ جولائی کے اواخر میں ایک دن ایک ٹیلیفون کرنے والے نامعلوم شخص نے دھمکی دی کہ اگر میں نے کبھی اپنی کتاب شائع کروائی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔
ان ٹیلیفون کالس نے 61 سالہ مورخ پر دو قسم کے اثرات مرتب کئے ۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع دی اور ایک جنگ کیلئے اپنے آپ کو تیار کرلیا۔ ’ایک ثقافتی جنگ جاری ہے ۔ اس میں ماہرین تعلیم کوایک کردار ادا کرنا ہے‘‘۔ جھا نے پرسکون انداز میں کہا لیکن اس قسم کی جنگ کی ان کو توقع نہیں تھی ۔ ان کی تصنیف کے منظر عام پر آنے سے بھی پہلے وشوا ہندو پریشد اپنے کارکنوں کو ہدایت دی کہ اسے ضبط کریںاور نذر آتش کریں۔ اس کی پیروی بی جے پی نے بھی کی ۔ اس کے ا رکان پارلیمنٹ میں سے ایک ار ایس رامت نے مرکزی وزیر داخلہ کوایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نہ صرف کتاب پر امتناع عائد کیا جائے بلکہ اس کے مصنف اور سماجی پبلشرس کو گرفتار کیا جائے اوران پر مقدمہ چلایا جائے لیکن کتاب پر امتناع عائد ہونے یا اس کے جلائے جانے سے بھی پہلے جین سیوا سنگھ اس تنازعہ میں شامل ہوگئی ۔ اس تنظیم نے عدالت سے امتناعی حکم جاری کرنے کی خو اہش کی۔ وہ جھا کے اس بیان پر برہم تھے کہ ان کے مذہب کے بانی مہاویر نے گوشت کھایا تھا ۔ حیدرآباد کی تنظیم نے عدالت سے کتاب پر امتناع کے احکام کی درخواست کی ۔ چنانچہ کتاب کے مصنف غیر جذباتی مورخ کو ان کے خلاف جنگ کرنے الفاظ بھی نہیں ملے ۔ تنازعہ اور مباحثہ کی توقع کرتے ہوئے جھا نے سخت محنت کرتے ہوئے قدیم مخطوطات کا مطالعہ کیا ۔ اصل ذرائع سے دو سال تک مواد حاصل کرنے میں مصروف رہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ میری کتاب پر امتناع کے خواہاں ہیں تو انہیں ویدوں ، اپنشدوں، سوتروں اور رزمیوں پر بھی امتناع عائد کر نا چاہئے۔ وہ کہاں جاکر رکیں گے؟ میں نے ثبوت دیئے ہیں۔ اگر انہیں ثبوتوں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر وہ آگے کیوں نہیں آتے لیکن وہ اتنے ان پڑھ ہیں کہ انہوں نے ان کتابوں کے بارے میں بھی کچھ نہیں سنا۔ ان کو پڑھنا دور کی بات ہے ۔ میرے پاس یہ کتابیں ہیں اور وہ اندھے عقیدے کے پیرو ہیں‘‘ وہ کہتے ہیں ’’مورخ یہی کرسکتا ہے اور اسے یہی کرناچاہئے ۔ بعض حقائق کے ذریعہ عقائد کا مقابلہ‘‘۔
جھا کی غذا کی تاریخ سے دلچسپی کا آغاز چند سال قبل ہوا جبکہ انہوں نے فرانسیسی مورخ تحیمنڈ یاڈر کی ’’یوروپی غذاؤں کے جدید دور کے ابتدائی دنوں کی تاریخ پڑھی لیکن جلد ہی انہوں نے ہندوستانیوں کی بیف کھانے کی عادت کے بارے میں پڑھا جو رگ ویدکے دور میں بھی موجود تھی اور انیسویں صدی اور اس کے بعد تک بھی جاری رہی ۔ حالانکہ ذبیحہ گاؤ پر امتناع کا برہمنوں نے فرمان جاری کیا تھا ۔ قدیم دور کے ہندو بشمول برہمی بڑا گوشت کھانے والے تھے ۔ زرعی سماج نے گائے کو ہلاک کرنے والوں پر بعد میں معمولی جرمانہ عائد کرنا شروع کیا ۔ مویشیوں کے گوشت کی رغبت کا اسلام اور عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں ہیں ہے۔ اس انکشاف پر یہ روایتی برہمن نہ تو صدمہ میں مبتلا ہوئے اورنہ انہیں حیرت ہوئی ۔ ان کا پہلا نام دویجیندر کا مطلب ہے ’’برہمنوں میں مقدس ترین، کوئی بھی سنجیدہ مورخ چاہئے وہ ہندو کیوں نہ ہو جیسے آر سی مجمدار یا کے ایم منشی نے ’’قدیم دور کے ہندو مویشیوں کا گوشت کھاتے تھے‘‘ کے دعوے سے نہ تو اختلاف کیا اور نہ اس پر اعتراض کیا ۔ جھا کہتے ہیں کہ ’’تاہم وہ برہمنوں کے گائے کو ہلاک نہ کرنے کے امتناعی احکام بار بار جاری کرنے سے متاثر ضرور تھے۔ اس کی جھلک مویشیوں کے گوشت سے رغبت میں کمی سے ملتی ہے ۔ جھا نے تمام طبقوں کے ہندوؤں کے ہاتھوں گائے کے ذبیحہ اور اس کا گوشت کھانے کے ناقابل تردید ثبوت پیش کئے ۔ ان میں انیسویں صدی کے اواخر تک برہمن بھی شامل تھے۔ جھا نے کہا کہ انہیں اسی کی توقع تھی۔ انہوں نے 30 سال قبل پہلی بار بیف کا ذائقہ چکھا تھا جبکہ وہ کیمبرج میںتھے اس پر یقین کرنا مشکل ہے کہ برہمن بلا وجہ معیار قائم کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں جو ثبوت حاصل ہوئے ان سے زیادہ شواہد بھی موجود ہیں۔
جھا کا کہنا ہے کہ ’’گائے ایک مقدس جانور ہے‘‘ کا عقیدہ اس وقت تک رائج نہیں ہوا جب تک کہ انیسویں صدی میں دیانند سرسوتی کی گائے کے تحفظ کی تحریک شروع نہیں ہوئی ۔ گائے عوام کی سیاسی تحریک کا آلہ کار بن گئی ۔ گائے کے تحفظ کی منظم تحریک کا آغاز ہوا۔ مورخ نشان دہی کرتے ہیں کہ زرعی معاشرہ اور ذات پات کے بے لچک موقف کی بنا ء پر ذبیحہ گاؤ بتدریج بند ہوگیا ۔ برہمنوں کیلئے یہ کہنا بہت آسان ہوگیا کہ جو بیف کھاتے ہیں وہ اچھوت ہیں لیکن خود انہوں نے بیف کھانا جاری رکھا ۔شرادھ جیسے مواقع کیلئے وہ اس کی سفارش کرتے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ’’بیف کے ہوئے ‘‘کی اہمیت کم کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ یہ ایسا ہی ہے۔ جیسے کہ آپ نے اپنے دانت اپنی انگلیوں سے صاف کئے ہیں۔ بیف کھانا کسی دور میں بھی گناہ نہیں تھا۔ صرف غیر اخلاقی تھا ۔ اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی ، اسے ممنوع قرار نہیں دیا گیا تھا۔
قدیم کتابوں کو کھنگال کر کئے ہوئے اس انکشاف سے جس کی توثیق طبی کتابوں ، منوسمرتی اور مذہبی کتابوں سے بھی ہوتی ہے، جھا نے بیل کو سینگھوں سے پکڑنے کی کوشش کی ہے ، انہوں نے انکشافات پر مبنی اپنی کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ (ہندی میں ایک کہاوت ہے ، لاتوںکے بھوت باتوں سے نہیں مانتے) جھا کہتے ہیں چنانچہ مجھے ان کا علاج صدمہ کے طریقہ سے کرنا پڑا۔
جھا کا یہ صدمہ کے ذریعہ علاج صرف ہندوؤں تک اور بدھ مت کے پیروؤں تک محدود نہیں رہا ۔ انہوں نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے قدیم مذہبی شخصیتوں جیسے مہا پرنیتا ستا اور انگتر انکایا کے حوالے دیئے کہ یہ بھی بیف اور دوسرا گوشت کھاتے تھے ۔ درحقیقت بدھ کا انتقال خنزیر کے گوشت پر مبنی کھانا کھانے کی وجہ سے ہوا تھا ۔ وہ کہتے ہیں کہ سبزی خوری ایک پائیدار متبادل نہیں ہے کیونکہ بدھ مت کے پیرو راہب ایک ایسے معاشرہ میں زندگی گزار رہے تھے جسے گوشت مرغوب تھا چاہے وہ خنزیر کا ہو ، گینڈے کا ، گائے کا ، بھینس کا ، مچھلی کا ، سانپ کا یا پرندوں کا بشمول گائے اور مور ہندوستان میں صرف اونٹ اور کتے کا گوشت ممنوع تھا ۔
اسی طرح ابتدائی دورکے جین مت کے پیرو، بھگوتی موترا کا حوالہ دیتے ہوئے جھا نے نشان دہی کی کہ مہاویر نے ایک بار مرغ کا گوشت کھایا تھا تاکہ اپنے حریف کے مقابل یوگا پر مبنی ایک لڑائی کیلئے طاقت حاصل کرسکیں۔ انہوں نے صرف ایک شرط رکھی تھی کہ ان کا کھانا پکانے والی خاتون سے کہہ دیا تھا کہ ایسے مرغ کا گوشت استعمال کرے جسے کسی بلی نے پہلے ہی مار ڈالا ہو۔ ان کی غذا کیلئے کسی مرغ کو ذبح نہ کیا جائے ۔ جھا کہتے ہیں اس سے جین مت کے پیرو الجھن میں مبتلا ہوگئے لیکن آخر وہ الجھن زدہ کیوں ہیں ؟ جبکہ مذہبی کتابوں میں یہ واقعات تحریر ہیں ۔ یہ کتابوں کے ان ہی شورومس پر دستیاب ہیں جو راسخ العقیدہ جین مت کے پیروؤں کی ملکیت ہیں جیسے موتی لال بنارسی درس اور سوین لال چمن دھرنی پرچار کے سمیتی ۔
جھا کو متعصب قرار دینے پر وہ ناراض ہوجاتے ہیں ۔ ان کا خاندان بیوی اور تین ملازمین پر مشتمل ہے ۔ دو تنازعات سے کبھی نہیں گھبراتے ۔ ان کا خاندان ان کے ’’پاگل پن کے طور طریقوں ‘‘ کا عادی ہوگیا ہے اور ان کی پرورش ا تنے غیر مذہبی انداز میں ہوئی کہ انہیں بیف کا تجربہ حاصل کرنے سے بھی نہیں روکا گیا لیکن ان کے طبقہ بہار کے کٹر میتھلی برہمنوں نے ان کی کتاب پر سرسری ردعمل بھی ظاہر نہیں کیا ۔ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر جب انہوں نے میتھلی کے ذرائع کا حوالہ دیا تو انہوں نے اسے پسند نہیں کیا۔