اسلام کے خلاف طاغوتی قوتوں کی جنگ

محمد مبشرالدین خرم

عالم اسلام کے خلاف سازشیں درحقیقت مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہیں ہوتیں بلکہ ان سازشوں کا تعلق راست طور پر اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں سے ہوتا ہے۔ اس بات کو درست ثابت کرنے کیلئے کئی ایک مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن حالیہ عرصہ میں جو واقعات رونما ہورہے ہیں ، ان واقعات کی کڑیوں کو جوڑا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ کس طرح اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے خلاف نظر آنے والی سازشوں کے ذریعہ درحقیقت اسلام کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جو قوتیں اس طرح کی مذموم حرکات میں ملوث ہیں ، وہ نہ صرف مسلمانوں میں بدظنی پیدا کر رہی ہیں بلکہ انہیں ایسی الجھنوں میں الجھا رہی ہے جنہیں سلجھانے کیلئے اتحاد امت ناگزیر ہے اور ساتھ ہی کچھ ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہیں کہ اتحاد امت کی بات کرنے والوں کو ہی مسلمان اپنا دشمن تصور کریں۔ اسلام دشمن طاقتوں نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سب سے پہلے عرب ممالک کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا

اور یہ سازش غیر محسوس طریقہ سے عربوں کے درمیان اس طرح سرائیت کرگئی کہ عربوں کو یہ بھی احساس نہیں رہا کہ ان کے ایمان پر خطرات منڈلانے لگے ہیں اور ان کے توسط سے عالم اسلام نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ اس کے باوجود جزائرۃ العرب میں ایسی بھی قوتیں موجود ہیں جو ان صیہونی سازشوں کو محسوس کرتے ہوئے جزائرۃ العرب کے حکمراں طبقہ کو چوکنا کرتی رہی ہیں۔ ان شخصیات کے باعث جزائرۃ العرب میں موجود حکمراں طبقہ اب بھی کھلے طور پر ان صیہونی سازشوں کا باضابطہ شکار بنتا نظر نہیں آرہا ہے چونکہ حکمراں طبقہ میں موجود دوراندیش ذمہ داران و عہدیداران جو ان حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ قارئین ہم نے ’’عرب و عجم سیریز‘‘کے سلسلہ کے آغاز میں ہی 6 جولائی کو داعش کے خلاف امریکی جنگی جنون کے متعلق خدشہ ظاہر کیا تھا اورگزشتہ ہفتہ امریکہ نے عراق میں داعش کے خاتمہ کیلئے فضائی حملے شروع کردئیے ہیں۔

ماہِ رمضان المبارک کے فوری بعد جزائرۃ العرب کے بیشتر اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی لیکن سعودی پریس ایجنسی سے شائع ہونے والی خبر پر شائد برصغیر کے ذرائع ابلاغ اداروں کی نظر نہیں پڑی۔ اسی لئے اس انتہائی اہم خبر کو بیشتر اخبارات میں نظرانداز کردیا گیا۔ خبر انتہائی سنسنی خیز تھی لیکن اس کے متعلق اختیار کردہ رویہ ناقابل فہم۔ قرآن مجید میں ایک لفظ کی بھی تحریف ناقابل برداشت ہے چونکہ اس کتاب پر نہ صرف ہمارا ایمان ہے بلکہ ہمیں اس بات کا یقین کامل ہے کہ اس کی مکمل حفاظت کی ذمہ داری خود باری تعالیٰ نے لے رکھی ہے۔ خبر یہ تھی کہ جدہ کے سوپر مارکٹس اور کتابوں کی دکانات پر تحریف شدہ قرآن مجید برآمد ہوئے ہیں جنہیں فوری طور پر ضبط کرنے کی ہدایات دی گئی۔ جدہ میں دستیاب ہوئے ان تحریف شدہ نسخوں کے برآمد ہونے پر گورنر مکہ شہزادہ مشعل بن عبداللہ نے فوری اسلامی امور، صنعت و تجارت، تہذیب و اطلاعات کے علاوہ محکمہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے تمام تحریف شدہ نسخوں سے دستبرداری اور ان کی ضبطی کے ساتھ ساتھ ملک میں ان تحریف شدہ قرآنی نسخوں کی آمد کی تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ اس خبر کے ساتھ اگر مصر کے حالات اور مصر میں جاری ناقابل برداشت حرکات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ بات سامنے آئے گی کہ صیہونی و طاغوتی قوتیں نہ صرف مسلمانوں کے خلاف غزہ میں نبرد آزما ہے بلکہ ہر محاذ پر وہ اسلام سے جنگ میں مصروف ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمین کے جمہوری اقتدار کو بیدخل کرتے ہوئے عبدالفتح سیسی نے جو غاضبانہ اقتدار حاصل کیا اور اس کے لئے جس طرح کے حربے اس نے اختیار کئے، وہ دنیا جانتی ہے لیکن حصول اقتدار کے بعد اپنی تعریف و توصیف کیلئے جو گھناؤنی حرکتیں عبدالفتح السیسی نے شروع کی اس سے دنیا کو بڑی حد تک بے خبر رکھا گیا ہے چونکہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اب بھی عالم اسلام میں ان کی مخالف اسلام سازشوں کو سمجھنے والے ذہن موجود ہیں۔ چند سرکاری علماء کی پشت پناہی کے ساتھ اخوان المسلمین کو تاریک کوٹھریوں میں پہنچانے والے سیسی پر تحریر کئے گئے عربی اشعار کو نعوذ باللہ قرآن کا حصہ قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس ناپاک کوشش پر خاموشی اختیار کرنے والے بلکہ سیسی کی کارروائیوں کو درست قرار دینے والے نام نہاد علماء کے باعث طاغوتی قوتوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔

عبدالفتح السیسی کا جاریہ ہفتہ دورۂ سعودی عرب اور اس دورہ کے دوران سیسی کو حکومت سعودی عرب کی جانب سے مملکت کے باوقار تمغہ ’’شاہ عبدالعزیز میڈل‘‘ کے اعزاز سے نوازا جانا اور سیسی کیلئے کعبۃ اللہ کے دروازہ کو کھولا جانا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ سیسی کو مسلم ممالک میں طاقتور سربراہ مملکت کے طور پر پیش کئے جانے کی کوششیں جاری ہیں جبکہ سیسی نے ایک سال قبل میدان رابعہ العدویہ میں 800 سے زائد احتجاجیوں کو اپنے مظالم کا شکار بناتے ہوئے شہید کردیا تھا جوکہ ملک میں جمہوری حکمرانی برقراری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ سیسی کا دورۂ سعودی عرب کے فوری بعد دورۂ روس کا جائزہ لئے جانے پر یہ بات سامنے آئے گی کہ اسے ایک جدت پسند مسلم سربراہ مملکت کے طور پر پیش کرنے کی عالمی سازش جاری ہے اور اس سازش کے پس پردہ عناصر مختلف طریقوں سے سیسی کو قابل قبول بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اسلام کو نشانہ بنانا صیہونی مقاصد کا ایک حصہ ہے لیکن عالم اسلام کو اس امر پر خاموش رکھنے کیلئے صیہونیوں کی جانب سے ایک منظم حکمت عملی تیار کی گئی ہے اور اس پر عمل آوری کے ذریعہ آواز اٹھانے والے افراد کو بالواسطہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ عرب و عجم کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہلاکتیں صرف غزہ میں نہیں ہورہی ہیں بلکہ روزانہ 10 تا 15 ہلاکتیں پاکستان کے سرحدی علاقے وزیرستان کا بھی مقدر بن چکی ہے جہاں پر اسرائیل کے حلیف امریکی ڈرون یہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ ان پر دنیا کی بے حسی و خاموشی بلکہ ذرائع ابلاغ نے ان خبروں کو اہمیت نہ دیا جانا اس بات کا ثبوت ہے۔ ان امریکی کارروائیوں پر عوام کی توجہ ہی نہ جائے اور عوام وزیرستان میں شکار ہونے والوں کے تعلق سے بد دل ہوجائیں۔ اسی طرح عراق میں جاری صورتحال کا شکار ہونے والے عوام کو نشانہ بنانے والوں کے متعلق یہ استفسار کئے جارہے ہیں کہ جو لوگ فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، وہ کیوں عراق میں ہونے والی کارروائیوں پر خاموش تماشائی ہے بلکہ بلد الشام کے حدود میں جاری النصرہ فرنٹ کے علاوہ الدولۃ الاسلامیہ العراق و الشام (داعش) کی کارروائی پر کیوں خاموش ہیں ؟ ان کے یہ سوالات بالکلیہ طور پر بجا ہے۔یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سوالات غیر اہم ہیں۔ چونکہ دونوں ہی جانب انسانی زندگیوں کا اتلاف ہورہا ہے لیکن جس طرح سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے مظاہرے ہورہے ہیں، وہ سرکاری دہشت گردی کہلاتی ہے جبکہ جو کارروائیاں عراق ، شام ، لبنان کے علاوہ لیبیا میں جاری ہے، اگر دنیا اسے دہشت گردی پر محمول کرنا چاہیں تو یہ دنیا کا اختیار ہے لیکن اس دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جانا ناگزیر ہے۔ داعش کے خلاف امریکی کارروائی درست ہے یا نہیں یہ مسئلہ یہاں زیر بحث طلب ہے بلکہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ اس بات کا جواب دے کہ 2000 سے زائد معصوموں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والے اسرائیل کو کیونکر امداد فراہم کر رہا ہے ؟
حالیہ دنوں میں پیش آنے والے طیاروں کے حادثات بھی دعوت فکر دے رہے ہیں کہ آخر کیونکر صرف انہی ممالک کے طیارے حادثہ کا شکار ہورہے ہیں جو مخالف اسرائیل موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حادثہ تو حادثہ ہی ہوتا ہے لیکن مسلسل کسی کے خلاف نظریات رکھنے والوں کا حادثہ کا شکار ہونا شکوک و شبہات کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایران سے تعلق رکھنے والا مسافر بردار طیارہ حادثہ کا شکار ہوا جبکہ برازیل کے صدارتی امیدوار ادوردو کامپو کا خانگی طیارہ بھی حادثہ کا شکار ہوا۔ اسی طرح17 جولائی کو ملایشیا کے مسافر بردار طیارہ کو راکٹ کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کو قبول نہ کرنے والی مملکت الجیریا کا طیارہ بھی 24 جولائی کو حادثہ کا شکار ہوا۔ حالیہ حادثات میں صرف چین میں پیش آئے طیارہ کے حادثہ کے ماسوا تمام حادثات مخالف اسرائیل مملکتوں کی پروازوں کو پیش آئے ہیں۔
ترکی میں انتخابی نتائج نے رجب طیب اردگان کو اس مملکت کا صدر تو بنادیا لیکن رجب طیب اردگان کے منتخب ہونے پر جو جھنجھلاہٹ مخالف اسلام قوتوں میں نظر آرہی ہے ، وہ عیاں ہیں۔ رجب طیب اردگان نے صدر منتخب ہوتے ہی غزہ کے زخمیوں کو ترکی منتقل کرنے کے احکام جاری کرتے ہوئے دیگر مسلم ممالک کو دعوت فکر دی ہے جس میں مصر بھی شامل ہے جو ’’رفح‘‘ سرحد کھولنے پر بھی رضامند نہیں ہے اور عرب دنیا غزہ کے مظلومین کو کم از کم غزہ۔رفح سرحد کی کشادگی کے ذریعہ راحت فراہم کرنے کیلئے دباؤ ڈالنے سے بھی قاصر ہے۔ عراق میں وزیراعظم کی تبدیلی کے فیصلہ کے بعد ماحول میں تب دیلی کے نمایاں آثار پیدا ہوسکتے ہیں، نورالمالکی نے مستعفی ہوتے ہوئے اقتدار کی منتقلی کی راہیں تو ہمدرد کمردی ہیں لیکن اس بات پر بھی توجہ دی جانی چاہئے کہ ان کے دور اقتدار میں پھیلے زہر کو ختم کیا جائے۔
اسرائیلی دہشت گردی پر خاموش دنیا فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے والوں سے یہ دریافت کر رہی ہے کہ آیا عراق ، شام ، لیبیا ، جنوبی افریقہ ، لبنان پر بھی احتجاجیوں کا موقف یہی ہے؟ تو انہیں یہ جواب دینے میں کوئی تامل نہیں برتا جانا چاہئے کہ ان علاقوں میں پیدا شدہ حالات کیلئے بھی امریکہ یا اسرائیل ذمہ دار ہیں چونکہ عراق میں امریکی کٹھ پتلی حکومت نے جو کیا ہے وہ بھی درست نہیں تھا، اسی طرح شام میں حکمراں طبقہ کی جانب سے اپنے ہی عوام کے خلاف کی جانے والی کارروائیاں درست نہیں ہیں۔ لبنان کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے لبنانی افواج کی کارروائیاں کوئی غیر درست نہیں قرار دے سکتا ۔ القسام بریگیڈ کی جانب سے شہریوں کو نہیں بلکہ فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے برخلاف اسرائیلی درندوں نے فوجیوں کے بجائے شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دی ہیں ۔
اسرائیل کی درندگی پر لاطینی امریکی ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے بعد ایسا محسوس کیا جارہا تھا کہ عرب ممالک کی جانب سے بھی اسرائیل کے خلاف شدید جذبات کا اظہار کیا جائے گا اور عالم اسلام کے خلاف چھیڑی گئی اس اسرائیلی جنگ پر جرأت کا مظاہرہ کیا جائے گا لیکن ایسا تو نہیں ہوا مگر برطانوی کابینہ میں شامل پہلی اور واحد مسلم خاتون وزیر سعیدہ وارثی نے برطانوی حکومت کے غزہ پر اختیار کردہ موقف کے خلاف بطور احتجاج اخلاقی ذمہ داری تصور کرتے ہوئے استعفیٰ دیدیا۔ اس خاتون نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر تڑپتے ہوئے دل میں فلسطینی معصوموں کا درد محسوس کیا جارہا ہے لیکن جن دلوں میں عیش و عشرت نے جگہ لے رکھی ہے وہ دل آج بھی اس تڑپ سے محروم نظر آرہے ہیں۔
infomubashir@gmail.com
@infomubashir