ابن بشیر
سالار جنگ میوزیم دور قدیم میں ’’دیوان دیوڑھی‘‘ میں تھا ۔ مملکت آصفیہ ، سالار جنگ سوم نے بہ احتیاط یہ معلوماتی خزانہ ذوق و شوق اور اپنی داتی دلچسپی اور یادگار کے طورپر قائم کیا اور محفوظ رکھا ۔ زمانہ قبل دیوان دیوڑھی ہی میں پہلی اسلامی خطاطی نمائش کا 7 اگست 1956 کو انعقاد عمل میں آیا تھا ۔ جس میں معروف اساتذہ کامل خطاطی محترمین جابر بن عبداللہ ، عبدالسلام بعثی ، ابن طیار ، مصطفی علی خان ، منور الدولہ ، حشمت علی قادر رقم ، انتخاب رقم ، محمد یعقوب علی ، سردار علی یمانی ، عبدالرحیم یمانی مصور قلم ، مظہر کامل تاج الخطاط ، دیگر مشہور و مایہ ناز خوش نوسیوں نے اپنے اپنے نمونہ خطاطی پیش کئے تھے ۔ امراء و روساء نے چشم دیدنی کے بعد بیحد ستائش کی تھی ۔ انگریزی اور اردو اخبارات نے خراج تحسین پیش کیا تھا ۔ اس طرح نمائش کا آغاز سالار جنگ میوزیم اور خطاط صاحبان فن کے لئے اعزاز عظیم تھا ۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ اس کا افتتاح کس نے کیا تھا ۔ اس زمانے میں خطاطی ، کتابت ، کاپی نویسی بام عروج پرتھی ۔ دنیا بھر میں سالار جنگ میوزیم ’’نمائش اسلامی خطاطی‘‘ کے بیحد چرچے ہونے لگے ۔ وقت گذرتا گیا حالات بدلے ، سالار جنگ میوزیم کو دوسرے مقام پر منتقل کرنے کے انتظام واہتمام ہونے لگا ۔ عملہ و ملازمین حسب سابق رہے اور نئی تبدیلیاں پیش آئیں ۔ ڈائرکٹر مامور کئے گئے ۔ پھر اس کو مرکزی حکومت کے تحت کردیا گیا (اس میں صنعت و حرفت کا شعبہ بھی تھا جو ختم ہوگیا)
غالباً 1972ء کی بات ہے کہ بمبئی میں بھی ’’جشن امیر مینائی‘‘ کے موقع پر مختلف اشعار پر خطاطی نمائش کا انعقاد عمل میں آیا تھا اس موقع پر سالار جنگ میوزیم کے نمونہ خطاطی بھی شامل رہے جو فن پارو ںکی آن بان پیش کررہے ہے ۔ بمبئی کے اخباروں نے بیحد سراہا ۔ میری چشم گناہ گار نے یہ بھی دیکھا ایک ایک فن پارہ نوک پلک اور اپنے فن کا شاہ کار تھا ۔ نقل کرنا مشکل ہے ۔
اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن (گلشن خلیل مانصاحب ٹینک) کے زیر اہتمام سالار جنگ میوزیم کے ’’نواب میر لائق علی خان بھون‘‘ حیدرآباد میں نمائش اسلامی خطاطی کے عنوان سے 17 جون سے 24 جون 2001 تک عالمگیر حیثیت سے انعقاد عمل میں آیا تھا ۔
اس نمائش کاافتتاح کلام اللہ کی تلاوت سے ہوا ۔ نمائش میں مختلف مقامات کے خطاطوں نے حصہ لیا ۔ عہد رسالت نبویؐ ، امیہ ، عباسیہ و مغلیہ دور کے علاوہ گذشتہ و حالیہ پچاس ساٹھ سالوں میں لکھے گئے خطاطی کے نمونوں اور نزاکت فن کا مشاہدہ کروایا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خطاطی زندگی کا لازمی جزو ہے ۔ جاپانی خطاط ھونڈا نے معنوی و صوری خیال آیات قرآنی میں پیش کیا ۔ خط ثلث اور ریحان میں آیات قرآنی کو لکھ کر کمال فن سے ثابت کردیا کہ اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن حیدرآباد میں یہ ناقابل فراموش ذخیرہ جمع کرکے بتادیا کہ ’’اسلام کی روح لکھائی خطاطی میں ہے‘‘ ۔ جو نظروں میں خیرہ اور قلب کو منور کردیا ۔ اس نمائش کا سہرا کنوینر جناب احمد علی صاحب کے سر جاتا ہے اور انتساب ڈائرکٹر جناب کے وی ایس ریڈی صاحب کی نظر شناسی پر ہے ۔
حیدرآباد کے ممتاز خوش نویس سلام خوشنویس ، عاصم حقانی (فرزند سلام صاحب) 20 جون 2001 نے اپنی معیار فن کو پیش کیا جو شائقین کو بیحد پسند آیا ۔ دیگر یہ کہ نعیم الخطاط نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور داد تحسین حاصل کی ۔
نائب صدر اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن جناب عمر علی صاحب نے فن خطاطی کو جمالیاتی فن اور فکر انگیزی کا خزانہ قرار دیا اور خاکہ پیش کیا۔ اس وقت کے ڈائرکٹر جناب کے وی ایس ریڈی صاحب نے فن اور فنکار کے ناموں کو اجاگر کرنے ایسے پروگرام منعقد کرنے کی ترغیب دی ۔ کنوینر جناب احمد علی کے شکریئے پر جلسہ کا اختتام عمل میں آیا ۔ فن اسلامی خطاطی پر شہر حیدرآباد کے نامور خطاط وقار قلم انیس الخطاط محمد ضمیر الدین نظامی محفوظ رقم صاحب کے عملی فن خطاطی کے مظاہرہ پر کثیر تعداد نے تِل ، چاول خشخاش پر مہین اور نازک خطاطی کے نمونوں کو دیکھ کر داد تحسین دی اور قدر شناسی سے خطاطی کو بام عروج پر پہنچانے ناظرین کے دل موہ لئے ۔ ٹیلی ویژن اور میڈیا والوں نے ان کے فن کو منظر عام پر پیش کیا ۔
ڈاکٹر ایم ایم تقی خان صاحب ، نائب صدر اسلامک ہیرٹیج فاؤنڈیشن نے نگرانی کی ۔ جاپان سے آئے عالمی شہرت یافتہ خطاط ھونڈا نے اپنے فن کا صوری معنوی خطاطی نے عمدہ اور نظر کو لبھانے والے نمنونے پیش کرکے شائقین کو بیحد خوش کردیا اور کہا کہ جاپان (ٹوکیو) میں عربی خطاطی کے ادارے کارکرد ہیں ۔
2004 میں بھی اسلامی خطاطی نمائش کا انعقاد عمل میں آیا تھا جس میں شاہ کار نمونے پیش کئے گئے تھے ۔ خطاطی کی اہمیت و ارتقاء پر مقالے پڑھے گئے ۔ یہ نمونے اور مقالہ جات ادارہ گلشن خلیل میں محفوظ ہیں ۔
یکم ستمبر سے 28ستمبر 2014 تک ’’اسلامی خطاطی نمائش‘‘ بہ اشتراک روزنامہ سیاست حیدرآباد سالار جنگ میوزیم میں منعقد ہوئی ۔ اس نمائش میں حیدرآباد کے خطاط اور آرٹسٹ حضرات نے حصہ لیا ۔ نمائش میں مشاہدین اور ناظرین نے روزنامہ سیاست میں مختلف النوع آراء (رائے) پیش کیں ۔ جس سے ظاہر ہورہا تھا کہ خطاطی اور خطاط و آرٹسٹس حضرات کی ستائش کے ساتھ روزنامہ سیاست کی تشہیر ہورہی ہے۔ عوام ، طالبان علم ، شوق و ذوق رکھنے والے جوق در جوق روزانہ میوزیم آتے رہے ۔ فنکار کی فنکاری کو داد تحسین ادا کرتے رہے ۔ جناب احمد علی کنوینر نمائش سالار جنگ میوزیم خطاطی پر تعارفی لیکچر دیتے ۔ شائقین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا جو سیاست میں شائع کئے گئے ۔ نعیم صابری خطاط کے رنگ برنگی طغروں کا کام عمدہ و نفیس تھا ضرور ۔ بعض آیات میں کچھ الفاظ چھوٹ گئے تھے ۔ تصحیح لازمی ہے ، جناب احمد علی صاحب نے ان غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ۔
حسین الدین احمد صاحب نے بھی لکڑی کے کام کے طغروں اور کبعتہ اللہ کے منظر اور رفیع صاحب کے ماشاء اللہ اور لطیف صاحب کی سورہ رحمن کی معنوی مصوری (پینٹنگ) اور بوش سے لکھی گئی آیات خوب صورت رہی ۔ حافظہ مبینہ کے طغرے داخلی دروازے پر لگے تھے ۔ عمدہ اور دیدہ زیب رہے ۔ پھر ان ہی حافظہ صاحبہ کی (قلمی) کتابت شدہ قرآن پاک بخط نسخ خوب اور اچھی رہی ہے ۔ علاوہ ازیں مقبول عام خوشنویس محمد ضمیر الدین نظامی کا سیپی پر لکھا سورہ رحمن اور حافظ امیر الاسلام ، حافظ محمد عبدالستار کے لکھے آیات قرآنی کے طغرے اور حافظ عبدالستار کے چاول پر لکھے سورہ کوثر اسماء الہی قابل دید تھے ۔ اس سے پرے خوب سے خوبصورت رنگینی لئے بانکپن کے سا قوس قزح کی طرح سید عبدالقادر صاحب خوشنویس و آرٹسٹ کے کریٹیو آرٹ کے طغرے استغفراللہ ، درخت کی شکل میں اللہ اور بے شمار چیزیں بیحد نایاب اور بین الاقوامی نمائش میں رکھے جانے کے قابل تھے ۔ نظر نواز مشتاقان فن رہا ہے ۔ یہ موقع 23 دن سالار جنگ میوزیم میں ، مجھے ہر روز ایک سبق دیتا رہا ۔ بقول کسے
آج ہم ایک عہد ہیں ، زمانہ ہیں
ہمیں بھی یاد کروگے کسی سبق کی طرح
معروف خوش نویس حضرت نعیم صابری کی خطاطی رنگ برنگی ہونے کے ساتھ ساتھ بمبو کے قلم ، جو برش کے مماثل ، عمدہ دل آویزی لئے روشن نظارہ فن پیش کررہی تھی قابل تعریف ہے ۔ اخبار سیاست میں روزانہ رائے دینے والے حضرات کے خیالات شائع کرکے قدردانی اور ہمت افزائی کا نقارہ پیٹ دیا ۔ لاکھوں عوام اور طلبہ و طالبات اور مدرسین ، علماء شاعر ادیب محققین نے اس نمائش کا مشاہدہ کرکے خطاطی کو ملک اور بیرون ملک پھیلانے کا جذبہ پیدا کیا (ادارہ سیاست اردو زبان کی ترقی اور خطاطی فروغ کا نظم کرے) ایسا ہونا ہے تاکہ رسم الخط قائم رہے ۔
فنکاروں ، خطاطوں کی قدردانی صرف شالیں اوڑھا کر داد تحسین کے لئے ظہیرالدین علی خان نے اپنا بیان پیش کیا ۔
مغربی بنگال اردو اکیڈیمی ، غالب اکیڈیمی نئی دہلی ۔ انیس فاؤنڈیشن دہلی ، کشمیر ثقافت و ادب کے اداروں کی طرح توصیفی سند نقد انعام نہیں دے سکا ۔ البتہ کسی سوسائٹی کی جانب سے کارنامہ فنکاری کی نامی سند عطا کی گئی وہ بھی سادہ انداز میں کسی قسم کی تقریب نہیں ہوئی ۔
راقم الحروف ، افتتاح کے روز سے اختتام تک روز مشاہدہ اور مناظرہ کے لئے آتا رہا ۔ آخری دنوں میں نعیم الخطاط نے اپنے بیش بہا نمونے ، ناظرین کے نذر کئے ۔ اسکول کے بچوں نے نقلیں اتاریں ۔ جناب احمد علی صاحب نے تین چار لکچر خطاطی اور آرٹسٹ و خطاط صاحبان کے متعلق دئے جو دلچسپی کا باعث بنے رہے ۔
اختتام کی شام میں ظہیر الدین علی خان منیجنگ ایڈیٹر سیاست نے تمام فن کاروں ، نعیم الخطاط صاحب ، لطیف صاحب ، رفیع صاحب ، اکبر صاحب اور سید عبدالقادر کریٹیو آرٹسٹ ، محمد ضمیر الدین خدری نظامی ان کے تلامذہ (شاگردان) اور حافظہ مبینہ کو شامل اڑھا کر تحسین فن سے سرفراز کیا ۔ احمد علی صاحب اور نمائش سے متعلق عملہ کو شالیں پیش کی گئیں ۔ روزنامہ سیاست نے عوام کا دل موہ لیا ۔ آیندہ بھی فنکار پیدا ہوں گے ۔ فن اجاگر ہوگا ۔ رائے میں ایسا تحریر کیا گیا کہ ’’اردو کے فروغ ، ترویج اور ترقی کے لئے محلہ واری اساس پر یا دینی مدارس میں ، ادارہ سیاست مراکز خطاطی ، اردو زبان دانی قائم کرے ۔ قبل ازیں اردو اکیڈیمی حیدرآباد ، سیاست بھی قائم کرے اور جو کارکرد سنٹرز ہیں ان کی مالی اعانت کرکے اساتذہ اور سیکھنے والوں کو ترغیب دے ۔
چراغ سے چراغ جلاؤ کے روشنی پھیلے
بنگلور ، کرناٹک میں روزنامہ سیاست نے یہاں سے لئے گئے نمونوں کی نمائش کا اہتمام کیا جس نے عوام الناس کا دل جیت لیا۔ آنکھیں روشن چمکدار ہوگئیں ۔ خطاطی کا خوب چرچا ہوا ۔ اب آگے بڑھ کر ترقی وترویج فن کریں ۔ اردو پڑھئے ۔ اردو لکھئے ۔ اردو بولئے ۔