اسلامی اقدار پر عمل میں ہی نجات

ظفر آغا

اکیسویں صدی عالم اسلام کی تاریخ میں ایک سیاہ باب بنتی جا رہی ہے۔ فرانس میں حملوں کے بعد مغرب اور عالم اسلام ایک نئے تصادم کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ گوکہ مغرب اور عالم اسلام کا یہ تصادم کوئی پہلا تصادم نہیں ہے، دونوں کے درمیان صلیبی جنگوں اور جہاد کی ایک دیرینہ تاریخ رہی ہے، جو مختلف مواقع پر دونوں گروپوں کے درمیان تہذیبی تصادم کی صورت اختیار کرتی رہی۔ اسی تہذیبی تصادم کی جھلک ایک بار پھر مغرب اور عالم اسلام کے درمیان نظر آرہی ہے، لیکن جب کبھی دو تہذیبوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو فاتح وہی تہذیب ہوتی ہے، جو انسانیت کو اپنے مدمقابل تہذیب سے زیادہ بااختیار بنانے میں کامیاب ہوتی ہے، کیونکہ تہذیب کی بنیاد اعلی انسانی قدروں پر ہوتی ہے اور انسانی قدروں کا مقصد انسان کو زیادہ سے زیادہ بااختیار اور آزاد بنانا ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر اکثر تہذیبوں کے درمیان رسہ کشی ہوتی ہے اور جو کبھی کبھی تصادم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
مثلاً اسلام کے عروج کے بعد اسلامی تہذیب اور کم و بیش دنیا کی تمام تہذیبوں کے درمیان دنیا کے مختلف خطوں میں تصادم ہوئے اور دنیا بھر میں اسلامی تہذیب دیگر تہذیبوں پر کامیاب ہوئی، جس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تہذیب کی بنیاد رکھی تھی، اس میں اس وقت کی تمام تہذیبوں کے مقابل انسان کو بااختیار بنانے کے مواقع زیادہ تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل دنیا کے تقریباً تمام مذاہب اپنے عالموں، راہبوں، پادریوں اور پنڈتوں کے ہاتھوں قید تھے۔
اسلام سے قبل عیسائی مذہب کا عروج تھا، لیکن ایک عام عیسائی کی مذہبی زندگی پادریوں کے ہاتھوں قید تھی، حد یہ کہ 1789ء یعنی اٹھارہویں صدی کے خاتمہ تک ہولی رومن امپائر کا یہ عالم تھا کہ عام عیسائیوں سے چرچ طرح طرح کے ٹیکس وصول کرتا تھا، عیسائی عقیدہ رکھنے والوں کو جنت میں داخلہ کے لئے چرچ پروانے لکھا کرتا تھا، یعنی عیسائیوں کی روحانی زندگی پر پادریوں کا قبضہ تھا۔ اسی طرح ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالئے تو یہاں کے ہندوؤں کی روحانی زندگی پر برہمنوں کا قبضہ تھا۔ کس ذات کے لوگ سماج اور مذہب میں کیا مقام رکھتے ہیں؟ پوجا پاٹھ کس ذات کی ملکیت ہوگی؟ کس شخص کو مندر میں داخلے کی اجازت ہوگی؟ کس ذات کے لوگوں کا منادر میں داخلہ ممنوع ہے؟ شادی بیاہ کی رسم کب اور کس وقت انجام دی جائے گی؟ الغرض ایک عام ہندو عقائد کے معاملے میں برہمنوں کا غلام تھا۔ یعنی قبل از اسلام انسان اپنے روحانی معاملات میں اپنے راہبوں، پادریوں اور پنڈتوں کا غلام تھا۔

اس کے برعکس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مذہب کی بنیاد رکھی، اس میں عقیدے کا معاملہ بندے اور خدا کے درمیان رکھا، کیونکہ اگر کوئی شخص کلمہ توحید پڑھ لیتا ہے تو وہ مسلمان ہوتا ہے اور اس کو کوئی عالم دین مسجد میں جانے سے روک نہیں سکتا۔ وہ نماز ادا کرنے کے لئے کسی بھی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ یعنی ہر امیر و غریب کے دینی فرائض رسول اللہ اور کتاب اللہ نے طے کردیئے ہیں، جن کا بجالانا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر کوئی ان احکام پر عمل نہیں کرتا تو اس کی جزا و سزا اس کے اعمال کی بنیاد پر پروردگار عالم طے کرے گا، اس بات کا اختیار کسی دوسرے کو نہیں دیا گیا۔ اس ایک عمل کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو روحانی طورپر اس قدر بااختیار بنادیا کہ جس کا تصور انسانیت نے اس سے قبل کبھی نہیں کیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ ساتویں صدی سے لے کر سترہویں صدی تک اسلام دنیا میں خوب پھلا پھولا۔ اسلام کے پھیلنے میں تلوار کی قوت نہیں تھی، بلکہ یہ اپنے نظریہ کی بنیاد پر پھیلا اور اس کی اصل طاقت انسانی آزادی تھی۔ اسی طرح اسلام نے سب سے پہلے دنیا کو اخوت اور انسانی برابری کا پیغام دیا۔ عورتوں کو طرح طرح کے حقوق عطا کرکے آزادی نسواں کا تصور دیا، یعنی اسلام نے انسانیت کو دیگر مذاہب کے مقابل زیادہ بااختیار بنایا اور اسی بنیاد پر وہ ساری دنیا میں چھاگیا۔

لیکن اسامہ بن لادن جیسے لوگوں نے مغرب کے خلاف جس تہذیبی تصادم کا نعرہ بلند کیا، کیا اس میں انسانیت کے لئے کوئی ایسی بات ہے، جو اس کو مغربی تہذیب کے مقابل زیادہ بااختیار بناتی ہو؟ یعنی آج کا جہاد صرف نفرت اور بدلے کے جذبہ پر منحصر ہے۔ القاعدہ نے امریکہ پر اس لئے حملہ کیا کہ امریکہ نے اسلامی ممالک میں کئی جگہوں پر اپنی فوج تعینات کردی تھی۔ پھر افغانستان میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد امریکہ نے افغان مجاہدین کے لئے ہر طرح کی امداد بند کردی، جس کا بدلہ لینے کے لئے القاعدہ نے امریکہ پر حملہ کیا۔ یہ نفرت کا جذبہ تھا، جس میں کسی ایسی قدر کا عکس نہیں دکھائی دیتا، جو انسان کو بااختیار بناتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس جذبہ کے تحت اگر جہاد کیا جائے تو دوسری جانب بھی نفرت پیدا ہوگی، جب کہ مغرب میں اس وقت ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ محض مسلمان ہی نہیں، بلکہ اسلام کے خلاف نفرت کا ایک سیلاب امنڈ پڑا ہے۔ مغرب کے مختلف شہروں میں آج ہزاروں افراد سڑکوں پر مسلمان اور اسلام کے خلاف ریلی نکال رہے ہیں۔ آج اس بات پر مباحثے ہو رہے ہیں کہ اسلام انسانیت کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔ راقم کی رائے میں یہ اسلامی تاریخ کا سب سے نازک دَور ہے، کیونکہ جس اسلام کو کبھی دنیا کے لئے رحمت اور انسانیت کا نجات دہندہ تصور کیا گیا تھا، آج اسی اسلام کو دنیا کے لئے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔

ظاہر ہے کہ مسلمان جن اسلامی اقدار پر انحصار کرتا تھا، اب وہ ان قدروں سے دور ہو چکا ہے۔ جو اسلامی قدریں انسان کو بااختیار بناتی تھیں، مسلم معاشرہ میں ان کا فقدان پایا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اسلامی قدروں کی باگ ڈور اب کن لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہے؟۔ اگر اس نقطۂ نظر سے آپ مسلم معاشرہ پر نظر ڈالیں تو آج اسلامی اقدار پر بھی فرد واحد کا اجارہ نظر آرہا ہے۔ اسلامی قدروں کے خلاف طرح طرح کے فتوے صادر ہو رہے ہیں اور اگر کسی نے جہاد کا اعلان کردیا تو اس کے اردگرد نہ جانے کتنے لوگ اکٹھا ہو جاتے ہیں۔ آج مسلم معاشرہ کو اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کرنے کے لئے اسی بااختیار راستہ کو اپنانا ہوگا، تب کہیں جاکر وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے گا۔