اسراف کی اُبکائیاں

میرا کالم             مجتبیٰ حسین
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ماہرین معاشیات عموماً نہایت صدق دل سے اور سیاسی و سماجی رہنما خصوصاً منہ دکھاوے کے طور پر عوام الناس کو آئے دن مخلصانہ مشورے دیتے رہتے ہیں کہ وہ اسراف سے حتی الامکان گریز کرنے اور کفایت شعاری پر حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ سماج میں امیر اور غریب کے درمیان فرق دور ہو اور دونوں معیشت کی ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں ۔ نہ کوئی مفلس رہے اور نہ ہی کوئی مفلس نواز ۔ مشورے دینا ہم سب کا محبوب مشغلہ ہے اور ان پر عمل نہ کرنا تو ہمارا اور بھی زیادہ مقبول مشغلہ ہے ۔ نتیجہ میں ہماری ہاں معیشت کی ایک ہی صف کبھی تشکیل نہ پاسکی ۔ ہر فرد کو اگلی صف میں گھسنے یا اپنی صف میں سے کسی دوسرے فرد کو پچھلی صف میں ڈھکیلنے کی جستجو میں مبتلا پایا ۔ اسی مسابقت نے ہمارے معاشرے کی صفوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے ۔ کفایت شعاری پر عمل کرنا نہایت معقول بات ہے لیکن ہم نے تو یہ دیکھا کہ جو نسلیں اپنے حالات اور دوراندیشی کے تحت جس جذبہ صادق کے ساتھ کفایت شعاری پر عمل کرتی ہیں اس سے حاصل شدہ اثاثے کو آنے والی نسلیں بڑی بے دردی کیساتھ رنگ رلیوں اور لہو لعب میں بے دریغ خرچ کردیتی ہیں اور کف افسوس کو ملنے کے ساتھ ساتھ وقفہ وقفہ سے پدرم سلطان بود کا راگ بھی الاپتی رہتی ہیں ۔ مغلوں کو محمد شاہ رنگیلے اور نوابان اودھ کو واجد علی شاہ نہ ملتے تو شاید تاریخ کچھ مختلف ہوتی ۔ دیکھا جائے تو کفایت شعاری کے بھی کچھ آذاب ہوتے ہیں ۔ ان آداب کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو کفایت شعاری اور کنجوسی میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا ۔ ہمارے پرانے دفتر کے ایک ساتھی بے حد کفایت شعار آدمی واقع ہوئے تھے  ۔اپنے ساتھ کھانا تو نہیں لاتے تھے البتہ اپنی جیب میں ایک لیموں ضرور رکھ کر لے آتے تھے ۔ دوپہر کے کھانے کے وقت وہ اپنے لیموں کا رس دوسروں کے کھانے پر نچوڑ کر کھانے میں شامل ہوجاتے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد لیموں کے رس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی عزت نفس کے رس کو بھی نچوڑنے پر مجبور ہوتے چلے گئے ۔ یہاں تک کہ ان کی خودداری اور اعتماد میں ذرا بھی رس باقی نہ رہا ۔ خودداری اور عزت نفس ہی کفایت شعاری اور کنجوسی کے نازک فرق کو برقرار رکھتی ہے ۔

آج ہم کفایت شعاری کے موضوع پر نہیں بلکہ حیدرآباد کی شادیوں میں اسراف کے بڑھتے ہوئے رجحان بلکہ مسابقت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ۔ پچھلے دو تین برسوں سے ہمیں حیدرآباد کی شادیوں کی تقاریب میں گاہے بہ گاہے شرکت کا موقع مل رہا ہے ۔ جن میں اسراف کے نت نئے نمونوں اور ان نمونوں کے بیچ بڑھتی ہوئی مسابقت کو دیکھ کر یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ شادی کی تقریب جو کسی زمانہ میں خانہ آبادی کی غرض سے منعقد کی جاتی تھی اب خانہ بربادی کے مقصد سے آراستہ کی جانے لگی ہے ۔ پچھلے دنوں ہمیں ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا جس میں دولہا میاں تین گھنٹوں کے طویل وقت کے اسراف کے بعد پہنچے تو دیکھا کہ ان کے گلے میں اتنا لحیم شحیم ہار ہے اور اس میں ایسے گل بوٹے سجے ہوئے اور ایسے نگ اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں تو یہ ہار کم اور زیور کی طرح زیادہ نظر آیا ۔ دولہے کے ایک رشتہ دار نے ہماری حیرت میں مزید اضافہ کرنے کی غرض سے ہمارے کان میں رازدارانہ انداز میں کہا کہ اس ہار کی تیاری پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا صرفہ آیا ہے ۔ پھر یہ بھی بتایا کہ وسیع و عریض شہ نشین کی سجاوٹ پر تین لاکھ روپے کا خرچ آیا ہے ۔ پورے شادی خانہ کی تزئین اور آرائش پر جو خرچ آیا ہوگا اس کا تخمینہ لگانے کا کام ہم آپ پر چھوڑتے ہیں کیونکہ ریاضی میں ہم یوں بھی خاصے کمزور ہیں ۔ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ۔ اس قیمتی ہار کو دیکھ کر ہمیں خود اپنی شادی کا ہار یاد آگیا  ۔ نصف صدی پہلے پہنے گئے اس ہار کی قیمت اس زمانہ کے حساب سے دس روپے سے زیادہ نہ ہوگی ۔ کہاں ڈیڑھ لاکھ روپے اور کہاں دس روپئے۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ اسی کو تو کہتے ہیں ۔ پھر ہم نے اس ہار کو نہایت رواروی میں پہنا تھا ۔ شادی سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اورینٹ ہوٹل سے گھر جا کر ہم نے شادی کی شیروانی پہنی تھی اور اس ہار کو پہن کر کسی اہتمام کے بغیر خود اپنی ہی شادی میں یوں شرکت کی تھی جیسے کسی بیگانی شادی میں شریک ہونے جارہے ہوں ۔

ذرا سوچئے کہ اتنا سستا ہار کتنا دیرپا اور پائیدار ثابت ہوا ہے کہ نصف صدی بعد بھی اس کے پھولوں کی مہک تازہ ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں قمست نے کچھ اس طرح یاوری کی کہ جگہ جگہ ہمارا ہاروں سے استقبال ہوتا رہا ۔ سینکڑوں ہی نہیں بلکہ ہزاروں ہار ہمارے گلے کا ہار بن گئے ۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ اگر ان سارے ہاروں کی قیمت جمع کی جائے تو تب بھی ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم نہیں بنے گی ۔ ہماری ناچیز رائے تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا شادی میں صرف پھولوں پر چار پانچ لاکھ روپے خرچ کردیئے گئے تھے اور اتنی ہی رقم میں بخدا ایسی چار پانچ غریب لڑکیوں کی شادیاں ہوسکتی تھیں جن کے ہاتھ برسوں سے پیلے ہونے کے منتظر ہیں ۔ دو تین برسوں کے عرصہ میں ہم نے بنظر غائر حیدرآباد کی شادیوں میں اچانک بڑھتے ہوئے اسراف کو دیکھا ہے ۔ خاص طور پر دعوتوں میں کھانوں کی انواع و اقسام میں جس رفتار سے اضافہ ہورہا ہے ان کے بارے میں صرف سوچتے ہی ہیں تو اُبکائیاں آنے لگتی ہیں ۔ کبابوں کی تین چار قسمیں ، تین چار اقسام کے مرغ کے کباب اور سالن ، مچھلیاں بھی اتنی ہی تعداد میں ، دہی کی چٹنی ، بینگن ، ٹماٹر اور مرچ کے تین چار سالن ، تین چار اقسام کے میٹھے ، بریانیوں کی اقسام کا تو پوچھئے ہی مت ۔ اب ہم ان کھانوں کی فہرست ہی لکھ رہے ہیں تو ہمارے قلم کو بھی ابکائیاں آنے لگی ہیں ۔ ایک زمانہ میں حیدرآباد کی شادیوں میں لقمی ، کباب ، بریانی ، بگھارے بیگن ، دہی کی چٹنی اور ڈبل کا میٹھا مقررہ غذا تھی ۔ لوگ بھی ڈھنگ سے کھاتے تھے اور ڈھنگ سے مرتے بھی تھے ۔ سچ پوچھئے تو بعض اصحاب کو آج جب ہم کھاتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ آدمی اتنا کھانا بھی کھاسکتا ہے ۔ ہمارے زمانہ میں پیٹ حلق سے کافی نیچے واقع ہوا کرتا تھا ۔ حلق کے نیچے جاتے ہی پہلے پھیپھڑوں ، پسلیوں اور دل وغیرہ کا نمبر آتا تھا ۔ اب یوں لگتا ہے کہ معدے نے حلق کے نیچے واقع سارے اعضاء پر قبضہ کرلیاہے ۔ حلق کے ذریعہ نہ صرف غذا پیٹ میں جاتی ہے بلکہ سانس کا تسلسل بھی اسی سے برقرار رہتا ہے ۔ لیکن جب بعض اصحاب پیٹ بھر کھالیتے ہیں تو سانس کا حلق میں داخل ہونا بھی دشوار نظر آتا ہے ۔ دعوتی یوں بے تحاشہ کھانا کھاتے ہیں کہ لگتا ہے وہ ہمہ تن شکم بن گئے ہوں ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرنے والوں کی قبریں گورکن پھاؤڑے اور کدال کی مدد سے کھودتے ہیں لیکن یہ غلط ہے ۔

ہمارا خیال ہے کہ انسان مرنے سے پہلے ایسی ہی دعوتوں میں شرکت کرکے خود اپنے دانتوں سے اپنی ہی قبریں کھودنے کا سلسلہ شروع کردیتا ہے ۔غور سے دیکھا جائے تو شادیوں میں اسراف کا معاملہ صرف اسراف کا نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے وہ گھٹیا جذبہ کارفرما ہے جس میں انسان اپنی دولت اور جھوٹی شان و شوکت کی نمائش کرکے سماج میں اپنا رتبہ بلند کرنا چاہتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک شادی میں ہم نے ایسے ہی دو اصحاب کی بات چیت سنی تھی ۔ ایک نے کہا ’’میرے بیٹے کی شادی میں پانچ ہزار افراد کو دعوت نامے روانہ کئے گئے تھے لیکن مجھے اندیشہ تھا کہ دعوتی زیادہ آئیں گے لہذا میں نے دس ہزار افراد کے کھانے کاانتظام کیا تھا ۔ چنانچہ اس شادی میں آٹھ ہزار افراد نے کھانا کھایا ۔ یہ الگ بات ہے کہ دو ہزار افراد کا کھانا پھر بھی بچ گیا‘‘ ۔ اس پر دوسرے صاحب نے اپنے دعوتیوں کی تعداد تو نہیں بتائی البتہ یہ ضرور کہا کہ میرے بیٹے کی شادی میں ایسا لاجواب انتظام کیا گیا تھا کہ ہزاروں افراد کی شرکت کے باوجود پانچ ہزار افراد کا کھانا بچ گیا تھا ۔ گویا یہاں کھانا کھانے کے بیچ نہیں بلکہ کھانے کے بچ جانے کے درمیان مسابقت جاری تھی اور اس طرح نمود و نمائش کی گنجائش پیدا کی جارہی تھی ۔ غرض ہمارے یہاں شادیوں میں نہ صرف وقت ، توانائی ، وسائل ، تعلقات اور رشتوں کا بیجا اسراف ہورہا ہے بلکہ اس بدعت کی بے ڈھنگی تشہیر بھی کی جارہی ہے ۔ اخباروں میں تصویریں بطور اشتہار چھاپی جاتی ہیں ۔ لاکھوں روپے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا کلچر اب ہر طرح کی بدہضمی کا شکار ہوتا جارہا ہے اور جس طرح کی حرکتیں سرزد ہونے لگی ہیں ان کے بارے میں صرف سوچتے ہیں تو ابکائیاں ہی آنے لگی ہیں ۔ یہ ابکائیاں اسراف کی ابکائیاں ہیں ۔ شادی کی رسم دو افراد کے بیچ ایک مقدس اور خوشگوار بندھن کی حیثیت رکھتی ہے جہاں سے یہ دونوں اپنی نئی زندگی کے سفر کا آغاز کرتے ہیں ۔ خالصتاً ایک شخصی رشتہ کی تشہیر کی آڑ میں کسی طمطراق ، بیجا شان و شوکت اور دھوم دھام کے مظاہرے کی کوئی گنجائش بظاہر نظر نہیں آتی ۔ ایسی تقاریب میں لوگوں کی جوق در جوق شرکت ، ان کے بے تحاشہ کھانے کی ضرورت اور بعد میں امراض شکم میں مبتلا ہونے کی حاجت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ بیگانی شادی میں دوسروں کے دیوانے ہوجانے کی روایت یوں تو پرانی ہے لیکن دیوانے اتنے بھی دیوانے ہوسکتے ہیں یہ کبھی نہ سوچا تھا ۔ (ایک پرانی تحریر)