دمشق ؍ یروشلم، 19 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) شامی آرمی کا کہنا ہے کہ گولان پہاڑیوں میں اُس کی فوجی چوکیوں کے خلاف اسرائیلی فضائی حملوں میں ایک شامی سپاہی ہلاک اور 7 دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ آرمی نے کہاکہ ان حملوں میں اسرائیلی زیرقبضہ پہاڑیوں کے کنارے قنیترا ٹاؤن کے قریب تین چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ فوج نے اپنے بیان میں اسرائیل کو انتباہ دیا کہ اس طرح کی معاندانہ حرکتوں کااعادہ کرتے ہوئے صورتحال کو بھڑکانے سے گریز کرے۔ فوج نے کہا کہ اس سے خطہ کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ لاحق ہے ۔ قبل ازیں اسرائیلی فوج نے چہارشنبہ کو شام کی فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔ اسرائیلی فوجی ترجمان لیفٹیننٹ کرنل پیٹر لرنر کے مطابق اس حملے کی وجہ منگل کے روز سڑک کنارے کابم دھماکہ تھا۔ یہ دھماکہ گولان کی پہاڑیوں سے جڑی سرحد پر گشت میں مصروف اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا۔ نتیجتاً چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو ئے۔ اسرائیلی ترجمان کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا ہدف شامی فوجی ہیڈکوارٹرز، تربیتی مراکز اور توپ خانہ تھا۔
اس مقصد کیلئے اسرائیلی جنگی طیارے نے منگل اور چہارشنبہ کی درمیانی رات بمباری کی ہے۔ شام میں جاری جنگ کے اثرات کبھی کبھی اسرائیلی علاقے کے اندر تک چلے جاتے ہیں۔ جواباً اسرائیل کی طرف سے بھی کارروائیاں ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ منگل کے روز اسی علاقے میں اسرائیلی فوجیوں کی گشت کے دوران بم پھٹا تھا۔ اسرائیل نے اس دھماکے کی ذمہ داری شام پر عائد کی ہے۔ گولان پہاڑی پر مبینہ طور پر شامی حکومت کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں پر کئے گئے حملے کے جواب میں اسرائیل نے چہارشنبہ کے روز شام کے متعدد عسکری ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔اسرائیلی حکام کے مطابق حملوں کا مرکز گولان پہاڑی کا وہ حصہ تھا جو شام کے زیر تسلط ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی مدد کرنے والی لبنانی تنظیم حزب اللہ کے جنگجو گولان پر موجود ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کو یہ خدشات بھی لاحق ہیں کہ صدر اسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے جاری تحریک میں شامل ہو جانے والے اسلامی جنگجو اسرائیل کے خلاف بھی ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ اسرائیل کو یہ خوف بھی ہے کہ صدر اسد کا ساتھ دینے والے حزب اللہ کے عسکریت پسند دمشق حکومت کے جدید ہتھیارحاصل کر سکتے ہیں۔ گزشتہ برس گولان کے علاقوں کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر وہاں تعینات آسٹریا کے امن مبصرین کو واپس بلا لیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا تھا کہ وہ ان آسٹریائی مبصرین کی جگہ کسی دوسرے ملک کے امن مبصرین تعینات کرنے کے حوالے سے کام کریں گے۔