اردو کی صحافت بین الاقوامی صحافت

محمدمصطفے علی سروری
ملک کی دیگر زبانوں کے مقابل اردو زبان کو ایک بہت بڑی سبقت حاصل ہے ، وہ یہ کہ ہندوستان کی دیگر زبانیں صرف ہندوستان میں ہی بولی جاتی ہیں جبکہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ملکوں میں یہ نہ صرف بولی اور سمجھی جاتی ہے بلکہ صحافت کی بھی زبان ہے ، اب یہ اردو والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو زبان و ادب اور صحافت کے معیار کو بہتر بنانے اقدامات کریں۔ ان خیالات کا اظہار کولکتہ پریس کلب کے صدر اسنہاسیس سور نے کیا وہ کولکتہ پریس کلب کے زیر اہتمام اردو صحافیوں کے ایک تربیتی ورکشاپ کو مخاطب کر رہے تھے۔ 24 ستمبر تا 26 ستمبر 2018 ء منعقد ہوئے ، اس ورکشاپ کے انعقاد میں مغربی بنگال اردو اکیڈیمی اور اخبار مشرق نے بھی اشتراک کیا تھا ۔ اخبار مشرق کے اگزیکیٹیو ایڈیٹر جناب ندیم الحق نے بھی اردو صحافیوں کے اس ورکشاپ میں شرکت کی ۔ انہوںنے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اردو صحافیوں میں پر وفیشنل جذبہ ابھی زندہ ہے اور تربیتی ورکشاپ میں ورکنگ صحافیوں کی کثیر تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر اردو صحافیوں کوتربیتی مواقع فراہم کئے جائیںاور ان کی صلاحیتوںکو نکھارنے کیلئے پروگرام منعقد کئے جائیں تو وہ لوگ ان سے استفادہ کرنا چاہیں گے ۔ رکن پارلیمنٹ ندیم الحق نے کہا کہ دیگر زبانوں کے اخبارات کی طرح اردو اخبارات کو اصل مقابل الیکٹرانک میڈیا سے نہیں بلکہ سوشیل میڈیا سے درپیش ہے ۔ سوشیل میڈیا پانچ دس منٹوں کے اندر دنیا بھر میں خبروں کی ترسیل کر رہا ہے اور پل بھر میں یہ خبریں پوری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ ایسے میں پرنٹ میڈیا کی ذمہ داری ہیکہ وہ خبروں کا کوریج بھی کرے اور ہر طرح کی تفصیلات بھی پیش کرے ۔ اردو اخبارات کو صرف سوشیل میڈیا کی خبریں نہیں بلکہ ان خبروں کا بھی احاطہ کرنا ہوتا ہے، جنہیں سوشیل میڈیا میں نہیں پیش کیا گیا ۔ مسٹر ندیم الحق کے مطابق اخبارات نکالنا آسان کام ہے لیکن اخبارات کی اشاعت کو جاری رکھنا مشکل کام ہے اور ان کے مطابق یہ مشکل کام ایڈیٹر حضرات اسی وقت انجام دے سکتے ہیں ، جب انہیں پروفیشنل تربیت یافتہ افرادی قوت دستیاب ہو۔
کولکتہ پریس کلب کے زیر اہتمام اس تربیتی ورکشاپ کے سہ روزہ پروگرام میں مجھے بھی تربیتی کلاسس لینے کیلئے بلایا گیا تھا ۔ کولکتہ کے اردو صحافیوں سے بات چیت کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ اردو صحافی چاہے کولکتہ کا ہو یا حیدرآباد ان کے مسائل اور وسائل ایک جیسے ہیں، کولکتہ کے اردو صحافی اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ ان کیلئے تربیتی ورکشاپ منعقد کرنے کا بیڑہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود کولکتہ پریس کلب نے اٹھایا ہے ۔ پریس کلب کولکتہ کی اپنی ایک منفرد اور شاندار تاریخ ہے ۔ میڈیا میں کارگزار رپورٹرس کا پورے برصغیر ہند و پاک میں یہ سب سے پہلا پریس کلب ہے ۔ اس کا قیام ملک کی آزادی سے بھی پہلے 1945 ء میں عمل میں آیا تھا ۔ کولکتہ پریس کلب کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کلب کے پروگراموں میں ملک کے پہلے وزیراعظم سے لیکر کئی وزیراعظم اور صدر جمہوریہ شریک بھی رہے ۔ صرف اتنا ہی نہیں کولکتہ کی سرزمین کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کا سب سے پہلا اخبار ہکیز گزٹ بھی 1780 ء میں یہیں سے شروع کیا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ اردو زبان کا سب سے پہلا اخبار جام جہاں نما بھی کولکتہ سے ہی 1822 ء میں جاری کیا گیا تھا ۔ یعنی ملک کی صحافتی تاریخ اور اردو زبان و ادب کی تاریخ میں اس شہر کا اپنا خاص اور اہم مقام ہے ۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم و ممتاز مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اس شہر سے اخبار الہلال 1912 ء میں شروع کیا تھا ۔ آج بھی اردو کے کئی بڑے اخبارات یہاں سے شائع ہوتے ہیں ۔ کولکتہ پریس کلب کے ممبر اور سینئر صحافی امان اللہ محمد کے مطابق اردو صحافت نے اپنے آغاز کے بعد سے ایک طویل اور تاریخی سفر طئے کیا ہے ۔ موجودہ حالات میں جب ملک غیر اعلانیہ ایمرجنسی کے دور سے گزر رہا ہے ، اردو صحافت پر بڑی گرانقدر اور اہم ذمہ داریاں آن پڑی ہیں ۔ اردو اخبارات کو مختلف محاذوں پر چیلنجس درپیش ہیں۔ ان چیلنجس کا سامنا کرنے کیلئے وسائل محدود ہیں لیکن ان سب کے باوجود اردو اخبارات کو مسابقتی ماحول میں شریک رہتے ہوئے صحت مند صحافت کرنا ہے ۔ مسابقت کے ان حالات میں کیا اردو صحافی خبروں کو سنسنی خیز بنانے کیلئے آزاد ہے ، اس سوال کے جواب میں امان اللہ محمد نے کہاکہ اردو صحافت کو اپنا تاریخی رول مدنظر رکھتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کا خیال کرتے ہوئے حتی المقدور نہ صرف سنسنی خیزیت سے بلکہ زرد صحافت سے بھی پوری طرح اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے۔
کولکتہ پریس کلب ایک اور سینئر اردو صحافی ف ۔ س اعجاز صاحب نے اردو صحافیوں کے لئے تربیتی ورکشاپ کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، ان کے مطابق اردو صحافی حضرات اپنی زبان و ادب کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر نہ صرف اپنی رپورٹنگ کو جان دار بناسکتے ہیں بلکہ پرکشش زبان میں سرخیاں دیکر بے جان رپورٹس کو بھی قارئین کیلئے دلچسپ اور کارآمد بناسکتے ہیں۔ ف ۔ س اعجاز کے مطابق آج کل خبروں میں ذاتی نظریات اور مذہبی جذبات کو شامل کردیا جارہا ہے جو کہ صحافت کی خدمت نہیں بلکہ بد دیانتی اور بد خدمتی ہے۔ انہوں نے موجودہ دور میں فیک Fake نیوز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ خبروں کو اگر اس طرح من چاہے ، انداز میں اور ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنالیا جائے تو جمہوریت بھی خطرہ میں پڑسکتی ہے ، ان کے مطابق اخبارات چاہے کسی زبان کے ہوں خبر تو ایک ہی ہونی چاہئے ۔
قارئین اردو صحافیوں کے اس ورکشاپ کے دوران اردو صحافت اور صحافیوں کو درپیش مختلف صحافتی چیلنجس پر بھی بحث ہوئی اور نامساعد حالات کا سامنا کئے جاسکے، اس کے راستے بھی تلاش کئے گئے ۔ شرکاء ورکشاپ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اردو صحافت چونکہ غیر اعلانیہ طور پر مسلم کمیونٹی کی صحافت بنادیا گیا تواس پس منظر میں اردو صحافیوں اور اردو صحافت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مثبت اقدار کی پاس داری کریں اور اپنے تعمیری رول کو ہرگز فراموش نہ کریں ۔ اردو صحافیوں نے ایک سوال یہ اٹھایا کہ میں اسٹریم میڈیا سے سخت مقابلے کے دور میں اردو صحافی کیا کرسکتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں میں نے واضح کیا کہ اردو صحافت کا دائرہ کار محدود نہیں ہے ، ہاں وسائل محدود ہیں ، اس پس منظر میں اردو صحافی اپنے وسائل کے موثر استعمال کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرے۔ یہاں تک کہ اردو صحافی بھی (Investigative) جرنلزم کرسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر قانون حق معلومات (RTI) ایکٹ 2005 ء کو استعمال کرتے ہوئے (Exclusive) رپورٹنگ کی جاسکتی ہے ۔ اگر اردو صحافی یہ سمجھتا ہے کہ اردو اخبارات کے بیشتر قارئین صرف مسلمان ہیں اور اردو صحافت مسلمانوں کی صحافت بن گئی تو اردو صحافیوں کو مسلمانوں کے مسائل کا ماہر تجزیہ نگار بن جانا چاہئے ۔ یہاں تک کہ حکومت اور سبھی ادارے اس بات کو جان لیں کہ مسلمانوں کی صحیح صورتحال اور زمینی حقیقت انگریزی صحافت میں نہیں اور نہ کسی علاقائی زبان کی صحافت میں رپورٹ ہوتی ہے بلکہ مسلمہ مسائل کا صحیح کوریج اور تجزیہ صرف اور صرف اردو اخبارات ہی کرتے ہیں۔
اردو صحافیوں کو میں نے اس بات کی دعوت دی کہ ہم اردو اخبارات کے صحافتی مواد کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کریں۔ اردو اخبارات کے متعلق اس تاثر کو ختم کریں کہ اردو اخبارات پرانی باسی خبروں کو شائع کرتے ہیں یا نقل کرتے ہیں۔ ساتھ قارئین کی اس شکایت کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ اردو اخبارات میں ایسی کوئی خبر نہیں شائع ہوتی ہے جو قارئین کے لئے مددگار ثابت ہو یا کام آسکے۔
اردو اخبارات کے عملے کو دی جانے والی کم شرحوں کے متعلق جب مجھ سے پوچھا گیا تو میرا یہ جواب تھا کہ اگر اردو کا صحافی یہ سمجھتا ہے اردو اخبارات میں اس کو اس کی صلاحیتوں کے حساب سے مشاہیرہ نہیں دیا جارہا ہے تو اردو صحافی کسی دوسری زبان کی صحافت کا رخ کرلے ۔ اردو صحافت میں کارگزار صحافی حضرات کسی نے زبرستی نہیں کی کہ وہ اپنی صحافتی خدمات صرف اردو تک محدود رکھیں۔
کیا اردو کا صحافی انگریزی اخبارات میں کام کرسکتا ہے یا بانگلہ یا تلگو صحافت میں کام کرسکتا ہے تو اس کو ایسا کرنا چاہتے۔ اگر ان سوالات کا جواب نفی میں ہے تو اردو صحافیوں کو چاہئے کہ بجائے شکوہ شکایت کر نے کے اپنی صحافتی اور لسانی و ترجمہ کی صلاحیتوں کو پروفیشنل انداز میں نکھاریں اور آگے ترقی کر کے کسی بھی ایسے ادارے کا رخ کریں جہاں انہیں پرکشش اور ان کی صلاحیتوں کے حساب سے مشاہرہ ملے ۔ خود اردو اخبار کے مالکان ہو یا ایڈیٹر حضرات جب یہ دیکھیں کہ ایک باصلاحیت ، ہنرمند اور پروفیشنل انداز میں کام کرنے والا صحافی بہتر تنخواہ کیلئے کسی اور دفتر کا رخ کر رہا ہے تو وہ یقیناً اس کی تنخواہ پر نظر ثانی کریں گے ۔
پرکشش تنخواہوں کا نہ ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے کیا ہم اردو کے قارئین کو نصف معیاری اور غیر معیاری صحافتی مواد فراہم کرنے کیلئے آزاد ہیں ؟ بالکل نہیں ہرگز نہیں۔ مسائل چاہے جتنے بھی ہوں اور وسائل کتنے ہی محدود بحیثیت مجموعی صحافتی برادری کو مسلسل اس بات کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ ہم قارئین کو کیسے بہتر سے بہتر انداز میں کارآمد معلومات اور تعمیری مواد کی ترسیل کرسکیں۔
اردو صحافیوں سے میرا سوال تھا کہ اردو اخبارات حج سیزن کے آغاز سے لیکر حاجیوں کی وطن واپسی تک مسلسل ان کی خبروں کا کوریج کرتے رہتے ہیں لیکن اخبارات ہیں جو حاجیوں کی وطن واپسی کے بعد سفر حج میں حاجیوں کو حج کمیٹی اور ٹراویل ایجنٹوں کی لاپرواہی سے پیش آنے والے مسائل کے متعلق اسٹوریز کرتے ہیں ؟ اردو زبان و ادب کے سمیناروں کی خبریں شائع کرنے والے بہت کم اخبارات ایسے ہیں جو اردو میڈیم اسکولس کو درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں کیونکہ اردو زبان کا اصل مستقبل تو اردو کے یہی طلبا ہیں۔
اردو اکیڈیمی کے مشاعروں اور پروگراموں کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو اردو اکیڈیمیز کے ذمہ داروں سے یہ سوال بھی پوچھنا چاہئے کہ اکیڈیمی اپنے بجٹ کا کتنا حصہ ادب اطفال کے فروغ پر خرچ کر رہی ہے ؟ اردو صحافیوں کو ان سوالات کے جواب خود تلاش کرنے ہوں گے کہ اردو اخبارات صرف وہی خبریں شائع نہیں کرتے جو ان تک پہونچتی ہیں بلکہ وہ خبریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بھی نکال لاتے ہیں اور اپنے قارئین کوہمیشہ باخبر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خبر رسانی کا کام ایمانداری کا متقاضی ہے تو کیا ہم اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں صحافت کے میدان میں ہماری ذمہ داریاں پوری ایمانداری اور امانت کے جذبہ سے ادا کرنے والا بنادے (آمین)
sarwari829@yahoo.com