’’اردو کی شعری و نثری اصناف‘‘ پروفیسر مجید بیدار کی تحریر کردہ کتاب نصابی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، جو 118 کتابوں کے مطالعہ کی عرق ریزی اور ان کے پینتیس سالہ درس و تدریس کے تجربے کے نتیجہ میں عالم وجود میں آئی ہے ۔ یہ کتاب اردو ادب کے طلبہ سے لے کر ریسرچ اسکالروں تک کے لئے بے حد مفید ہے ۔ اردو ادب کی شعری و نثری اصناف پر موجود مواد کو کسی ایک کتاب کی حیثیت سے واضح نہیں کیا گیا ۔ اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں ’’اردو شعری و نثری اصناف پر ابھی تک جتنی بھی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں ، ان کے تحقیقی اور تنقیدی جائزہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ درحقیقت ہر نقاد اور محقق نے ابھی تک نہ تو نثر کی حقیقی درجہ بندی کی طرف توجہ دی اور نہ ہی شاعری کے انداز کے تعین پر غور کیا ۔ اس کتاب میں پہلی مرتبہ یہ کوشش کی گئی ہے‘‘ ۔ (ص 10)
میرے ایک سوال کے جواب میں پروفیسر مجید بیدار نے زیر نظر کتاب کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’اس کتاب کی تحریر کا مقصد تدریس سے وابستہ اساتذہ ہی نہیں بلکہ اردو کے طلبا و طالبات کو ہر صنف کے صحیح مفہوم سے آگاہی دینا ہے جس سے ہر صنف کی آسانی سے شناخت ہوجائے تاکہ ہر شعری اور نثری صنف کے عہد بہ عہد ارتقاء کے بارے میں معلومات دستیاب ہوجائیں‘‘ ۔
اس تصنیف کو پروفیسر صاحب نے چار بنیادی موضوعات کے تحت تقسیم کیا ہے
(الف) شاعری کے دومختلف انداز
(ب) قصہ اور کہانی کے بیان کا موثر انداز ۔ افسانوی اصناف
(ج) اردو کی غیر افسانوی اصناف
(د) طنز و ظرافت
پہلے بنیادی موضوع ’’شاعری کے دو مختلف انداز‘‘ کے تحت تیس ذیلی عنوانات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ۔ شاہنامہ ، مرثیہ ، رزم نامہ ، غزل ، مثنوی ،قصیدہ ،نعتیہ قصیدہ ، شخصی مرثیہ ، موضوعاتی نظم ، قطعہ ،رباعی ،جدید مثنوی ،شہرآشوب ، واسوخت ، ریختی ، سانٹ ، ماہیا ، ترائیلے ، دوہا ، ہائیکو ، گیت ، نیچرل نظم ، وطنی نظم ، قومی نظم ، رومانی نظم ، انقلابی نظم ، علامتی نظم ، آزاد نظم ، معری نظم ، جدید نظم وغیرہ ۔ دوسرے بنیادی موضوع ’’قصہ اور کہانی کے بیان کا موثر انداز میں افسانوی اصناف‘‘ ۔ کے تحت پانچ ذیلی عنوانات شامل کئے گئے ہیں ۔ داستان ، ناول ، افسانہ ، ڈرامہ ،ناولٹ شامل ہیں ۔
تیسرے بنیادی موضوع ’’اردو کی غیر افسانوی اصناف‘‘ کے تحت سولہ ذیلی عنوانات شامل ہیں ۔ جن میں تذکرہ ، سفر نامہ ، مضمون ، خطوط ، سوانح ، انشائیہ ، خود نوشت ، آپ بیتی ، خاکہ ، دیباچہ ، رپورتاژ ، مراسلہ ، روزنامچہ ، تبصرہ ، مقالہ اور لغت نویسی کو شامل کیا گیا ہے ۔
چوتھا موضوع ’’طنز و ظرافت‘‘ سے متعلق ہے ۔
پہلے بنیادی موضوع میں پروفیسر مجید بیدار نے تمام شعری اصناف کا صنفی اور فنی تعارف اور عہد بہ عہد ارتقاء پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ خود پروفیسر مجید بیدار کے الفاظ میں ’’زیر نظر کتاب میں شاعری کو دو مختلف اصناف اور ان کی ہئیت ترکیبی کے علاوہ شاعری میں شامل مواد اور اس کے فنی وجوہات سے بحث کرتے ہوئے مختلف شعری اصناف کے تعارف کو تاریخی پس منظر میں نمایاں کیا گیا ہے‘‘ (ص ۱۰) ۔ پروفیسر مجید بیدار پابند شاعری کے علم بردار ہیں یعنی شاعری میں وزن ، بحر ، قافیہ اور ردیف کو ضروری خیال کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود جدید شاعری سے انھیں انکار بھی نہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے جدید اصناف شاعری کا مطالعہ اس کتاب میں پیش کیا ہے ۔ انھوں نے رزمیہ و بزمیہ شاعری ، موضوعاتی شاعری ،نظموں کے اقسام اور غزل کے اقسام میں رنگین غزل ، متصوفانہ غزل ، روایتی غزل ، مسائلی غزل ، رومانی غزل ، غزل مسلسل اور جدید غزل کے فن کا مکمل جائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ انگریزی ،فرانسیسی اور جاپانی زبانوں کی جن شعری اصناف کو اردو میں شامل کیا گیا ہے ان کا بھی احاطہ کیا ہے ۔
دوسرے اور تیسرے بنیادی موضوع یعنی افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کا بھی عصر حاضر کی روشنی میں تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ عہد بہ عہد ارتقائی مراحل ، ان کے حدود اور امکانات کا مفصل انداز میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔ افسانوی اور غیر افسانوی اصناف کی تعریف کو پروفیسر صاحب نے اختصار اور آسان انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے ، چنانچہ پیش لفظ میں لکھتے ہیں ’’تمام افسانوی نثر میں بیانیہ narration کی خصوصیات جلوہ گر ہوتی ہیں ، جب کہ غیر افسانوی نثر میں ،بیانیہ کے بجائے وضاحتیہ discription کے انداز کو روا رکھا جاتا ہے‘‘ (ص ۱۰)
چوتھے بنیادی موضوع ’’طنز و ظرافت‘‘ کے مختلف انداز اور اس کے تاریخی پس منظر کو مختصر اور جامع انداز میں نمایاں کیا گیا ہے ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تصنیف کا خاطر خواہ فائدہ اٹھایا جائے ۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دور حاضر میں اردو ادب کے طالب علموں ، ریسرچ اسکالروں اور اساتذہ کی طبیعت کچھ عجیب سی ہوگئی ہے کوئی بھی شوق سے اردو کی کتابیں خریدنا پسند نہیں کرتا ، بلکہ مفت حاصل کرنے کی خواہش مند رہتے ہیں ۔ اس کتاب کی اشاعت سے قبل پروفیسر مجید بیدار سے ملاقات کے دوران میں نے ان سے کسی کتاب کی فرمائش کی تو انھوں نے مجھے ایک واقعہ سنایا کہ ایک ریسرچ اسکالر بڑی منت و سماجت سے کچھ کتابیں یہ کہہ کر حاصل کیا کہ امتحانات کے بعد کتابیں لوٹائے گا ، لیکن وہ کتابیں واپس نہیں آئیں ، یاد آنے پر پروفیسر صاحب نے اس ریسرچ اسکالر سے فون پر ربط قائم کرتے ہوئے کتابوں کو لوٹانے کی بات کی تو وہ کہنے لگا ’’آپ نے کتابیں میرے حوالے کی ہیں بس اب وہ میری ہوگئیں‘‘ ۔ اس پر پروفیسر صاحب نے بھی برجستہ کہا ’’اور میں بھی تمہارا ہی ہوں آؤ اور مجھے بھی اپنے گھر لے جاؤ‘‘ ۔ پروفیسر مجید بیدار نے اردو ادب کی شعری و نثری اصناف کا مکمل درجہ بندی کے ساتھ بغیر کسی تشنگی کے خوبصورت انداز میں احاطہ کیا ہے اور اس کتاب میں عام فہم زبان استعمال کی گئی ہے ، جسے عام پڑھا لکھا شخص بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے ۔ بعض نثر نگار محض اپنی زبان دانی اور لفاظی کو ظاہر کرنے کے لئے متن کو مشکل بنادیتے ہیں ، جس سے قاری کواس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ پروفیسر مجید بیدار نے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سہل پسندی کو اپنایا ہے ۔ استاد محترم کی اس تصنیف پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد اور نیک خواہشات پیش کی جاتی ہیں اور امید ہے کہ اردو ادب کی اس کارگر اور مفید کتاب کو ادب کے طالب علم ، ریسرچ اسکالر اور اساتذہ ضرور خرید کر اپنے مطالعہ میں رکھیں گے ۔
کتاب کے صفحات 280 ہیں، جس کی قیمت 200 مقرر کی گئی ہے جو حسب ذیل پتوں سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ (۱) انجمن ترقی اردو ، اردو ہال حمایت نگر حیدرآباد (۲) ہدی بک ڈپو پرانی حویلی حیدرآباد ، (۳) ادارہ ادبیات ارد پنجہ گٹہ ، حیدرآباد ۔