اردو شاعری ۔ دماغ کیلئے اکسیر

میرا کالم سید امتیاز الدین
اردو کے بارے میں عملی اقدامات تو کم ہوتے ہیں لیکن اچھی خبریں بہت سننے میں آتی ہیں ۔ چار پانچ دن پہلے ہم نے ایک انگریزی اخبار میں ایک سرخی دیکھی جس سے بہت خوشی ہوئی ۔ سرخی تھی ’’ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہاردو شاعری دماغ کے لئے اکسیر ہے‘‘ ۔ اس خبر کو ترتیب دینے والی نامہ نگاروں کا نام ہے شیلوی اور شاردا ۔ اب اس خبر کا آزاد ترجمہ پیش ہے ۔ آزاد اس لئے کہ خبر میں کئی میڈیکل اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں جن کا ہم اپنی ناقص معلومات کی وجہ سے اردو میں ترجمہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ خبر کا ترجمہ کچھ یوں ہے ۔ ’’اردو کے اشعار کو پڑھنا نہ صرف آپ کی روح کو لذت سے ہم کنارکرتا ہے بلکہ آپ کے دماغ کے لئے بھی اکسیر کا کام کرتا ہے ۔
مرکز برائے بائیو میڈیکل ریسرچ لکھنؤ کی ایک حالیہ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ اردو کا مطالعہ دماغ کے لئے بے حد مفید ہے ۔

یہ تحقیق جو نیورو سائنس کے انٹرنیشنل جرنل کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے یہ انکشاف کرتی ہے کہ اردو پڑھنے سے دماغ کے اگلے حصے کا زیادہ استعمال ہوتا ہے جس سے کئی ذہنی صلاحیتوں مثلاً فیصلہ سازی ، الجھنوں کا حل تلاش کرنا شامل ہیں ۔ اردو کے مطالعہ سے نسیاں یعنی بھول جانے کے مرض سے آدمی محفوظ رہتا ہے ۔ چھوٹے بچے جن میں سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اردو پڑھنے سے ان میں بہتری دیکھی گئی ۔
جس ٹیم نے یہ تحقیقات کی ہیں انمیں لکھنؤ کے ایک ریسچر اسکالر اتّم کمار بھی شامل تھے ۔ انھوں نے مختلف زبانوں اور رسم الخط کے طالب علموں کے دماغ کی ایک خصوصی مشین سے میاپنگ (نقشہ کشی) کی جس میں اردو رسم الخط سے واقف طلباء ممتاز قرار پائے‘‘ ۔
ویسے تو یہ خبر ذرا طویل ہوگئی لیکن اسے پڑھ کر ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری زبان کی خوبیوں سے ہم خود ناآشنا تھے ۔

جہاں تک اردو شاعری کا سوال ہے اس کے تعلق سے خود اردو والوں کا رویہ حوصلہ افزا نہیں ۔ اگر کسی گھر میں کوئی بچہ شاعری کرنے لگے تو ماں باپ تشویش میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ ہائے اب اس لڑکے کا مستقبل کیا ہوگا ۔ اسے اپنے بیٹی کون دے گا ۔ ہمارے ایک عزیز کے تین لڑکے تھے ۔ اتفاق سے ان میں سے ایک شاعر نکل گیا تھا۔ ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کے کتنے لڑکے ہیں تو سرجھکا کر لڑکوں کی تعداد دو بتاتے ۔ جب ان سے کہا جاتا کہ قبلہ آپ کے تو تین لڑکے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہتے کہ بھئی وہ تو شاعر ہے اسے گنتی میں کیا لاؤں ۔ وہ تو گیا کام سے ۔ اب جو نئی تحقیق سامنے آئی ہے شاید اس سے ہماری سوچ کچھ بدلے ۔ کیا پتہ طب کے طلباء کے لئے اردو زبان و ادب کو ان کے نصاب میں ایک ذیلی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے ۔ ڈاکٹر نسخہ لکھتے ہوئے دواؤں کے ساتھ بعض شاعرانہ مشورہ بھی دیا کریں گے ۔ کسی مریض نے شکایت کی کہ ڈاکٹر صاحب مجھے رات میں نیند نہیں آتی ۔ ڈراونے خواب آتے ہیں ۔ فوراً ڈاکٹر صاحب نسخے میں ایک شعر کا اضافہ کردیں گے ۔

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
اس شعر کو رات میں سونے سے پہلے پانچ بار دل ہی دل میں دہرائیں ۔ نیند خود بخود آجائے گی ۔ پانچ سے زیادہ مرتبہ نہ دہرائیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نیند کی بجائے موت آجائے ۔ اسی طرح کبھی کوئی بہت شکستہ حال اور پژمردہ مریض ڈاکٹر کے پاس آجائے تو ڈاکٹر نبض پر ہاتھ رکھتے ہی سوال کرے گا ۔ کیا آپ نے حال میں میر تقی میر کا کثرت سے مطالعہ کیا ہے ۔ مریض اقرار میں جواب دے تو ڈاکٹرجواب دے گا ’اب گھر جاتے جاتے اکبر الہ آبادی کا دیوان یا مشتاق احمد یوسفی کی کوئی کتاب لیتے جایئے تاکہ آپ کی حالت کچھ سدھرے ۔ ہمارے اکثر شعراء کتابوں پر مشہور ادیبوں یا شاعروں کی رائے لکھواتے ہیں ۔ کیا پتہ اب ڈسٹ کور یا گرد پوش پر ڈاکٹروں کی رائے بھی آنے لگے کہ ہم نے یہ کتاب شروع سے آخر تک پڑھی ۔ اس کی بعض نظمیں قبض کُشا ہیں ۔ بعض غزلوں سے طبیعت میں جولانی پیدا ہوتی ہے ۔ اس کلام کو بعد غذا استعمال کریں ۔

خیر یہ باتیں تو ہم نے یونہی لکھ دیں لیکن ایمان کی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں بڑی کشش ہے ۔ اردو نہ سمجھنے والے محض اسے سُن کر بھی متاثر ہوتے ہیں ۔ انگریزی کا مشہور ادیب ای ایم فارسٹر بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان آیا تھا ۔ یہاں اس نے چند دن گزارے اور انگلستان واپس جانے کے بعد اُس نے اپنا مشہور ناول A passage to India لکھا جو بہت مقبول ہوا ۔ کئی سال بعد اس ناول کو ڈرامہ کی شکل میں لندن کے ایک مشہور تھیٹر میں پیش کیا گیا ۔ فارسٹر نے اس ڈرامے کے پہلے دن کی آمدنی حیدرآباد کے اردو ہال کی تعمیر کے لئے بھیج دی جو ان دنوں زیر تعمیر تھا جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اردو جانتے ہیں تو اس نے کہا کہ میں اردو تو نہیں جانتا لیکن میں نے یہ زبان اپنے احباب کے منہ سے سنبی ہے اور میں اس کی شیرینی سے بے حد متاثر ہوا ہوں ۔ تقسیم ہند سے پہلے اردو سبھی جانتے تھے ۔ آزادی کے بعد بعض تنگ نظر لوگوں نے اردو کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔ مشہور طنز و مزاح نگار کنہیا لعل کپور جو اردو کے عاشقوں میں سے تھے اپنی ایک کتاب کا انتساب اردو کے نام کیا تھا ’’اردو کے نام جو مظلوم ہونے کے باوجود اتنی ظالم ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود مرنے نہیں پاتی‘‘ ۔

ہمیں خوشی ہے کہ اردو رسم الخط پر جو ریسرچ کی گئی ہے اس سے ثابت ہوا ہے کہ اردو رسم الخط دماغ اور آنکھوں کے لئے بہت مفید ہے ۔ اردو رسم الخط کی ایک خوبی یہ ہے کہ جس مضمون کو لکھنے کے لئے کسی اور زبان میں دو صفحات کی ضرورت پڑتی ہے اردو میں وہی مضمون ایک صفحے میں آجاتا ہے ۔ قدیم زمانے میں ایک بہت سینئر قائد تھے گلزاری لال نندا ۔ ننداجی دو مرتبہ عارضی وقفے کے لئے ملک کے وزیراعظم بنے تھے ۔ پارلیمنٹ میں اور عام جلسوں میں اگر عجلت میں نوٹس لینا پڑے تو وہ ہمیشہ اردو میں نوٹس لیتے تھے ۔ ان کاکہنا تھا کہ اردو رسم الخط میں کم جگہ میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ منموہن سنگھ جب بحیثیت پردھان منتری لال قلعہ کی فصیل سے یوم آزادی پر تقریر کررہے تھے تو ٹی وی پر ان کی تقریر دیکھنے والے حیرت میں پڑگئے کہ ان کی نظریں کاغذ پر دائیں سے بائیں دوڑ رہی تھیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنی تقریر اردو میں لکھی تھی ۔ اسی طرح جواہر لعل نہرو بہت اچھی اردو لکھتے تھے ۔ ساغرنظامی کی ایک کتاب پر نہرو کا لکھا ہوا دیباچہ تھا جس کا عکس تحریر کتاب میں شامل تھا ۔ دو صفحات کے دیباچے میں کہیں کوئی لفظ کٹا ہوا نہیں تھا ۔

حالیہ تحقیق جس کا ذکر ہم نے شروع میں کیا بنیادی طور پر اردو رسم الخط کے بارے میں ہے کہ یہ براہ راست دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے اور نہایت مفید اور صحت مند اثر چھوڑتا ہے ۔ عربی ، فارسی اور اردو تینوں زبانوں کا رسم الخط تقریباً ایک ہے ۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ قرآن شریف کی تلاوت سے بینائی اچھی ہوتی ہے اور تادیر قائم رہتی ہے ۔ اس سے بھی تازہ تحقیق کی تائید ہوتی ہے ۔ قدیم زمانے میں خوش خطی تعلیم کا اہم جز تھی ۔ بالعموم لوگوں کا خط بہت اچھا ہوتا ہے ۔ اردو کے مشہور شاعر حضرت جگر مرادآبادی کا خط اتنا عمدہ تھا کہ ویسا خط اب دیکھنے میں نہیں آتا ۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کا خط بھی نہایت عمدہ تھا ۔ مخدوم ، سکندر علی وجد ، شاذ تمکنت ، مجروح سلطانپوری وغیرہ کا خط بھی بہت اچھا تھا ۔ سکندر علی وجد کا خط اتنا عمدہ تھا کہ انھوں نے اپنی ایک کتاب اپنے ہاتھ سے لکھ کر چھاپی تھی ۔ اسی طرح خطوط نویسی بھی اردوکی دین ہے ۔ غالب کے خطوط ادبی شہ پارے ہیں ۔ ابوالکلام آزاد کے خطوط جو مولوی حبیب الرحمن شروانی کے نام لکھے گئے تھے غبار خاطر کے نام سے شائع ہوئے اور ان کی ادبی اہمیت مسلم ہے ۔ اب خطوط نویسی ایک کھویا ہوا فن ہے ۔ ہمارے جو نوجوان باہر کے ملکوں میں ہیں اپنے ماں باپ سے یا تو ای میل سے یا پھر لیپ ٹاپ پر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بات کرلیتے ہیں ۔ جس طرح تار کا محکمہ بند ہوگیا اسی طرح شاید چند برسوں میں ڈاکیے صرف پارسل لے جانے کے کام کے رہ جائیں گے ۔

بہرحال اب جو تحقیق سامنے آئی ہے اگر اس کو سنجیدگی سے لیا جائے تو شاید شاعری افسانہ نویسی وغیرہ کو بڑھاوا ملے ۔ ہمارے بزرگ اپنے چھوٹوں کو شعر گوئی سے نہ روکیں گے ۔ خود فیض احمد فیض نے لکھا ہے کہ جن دنوں وہ اسکول کے طالب علم تھے اور سیالکوٹ میں رہتے تھے تو کبھی کبھی مشاعروں میں شریک ہوتے تھے ۔ ان دنوں ایک صاحب تھے جو ان مشاعروں کاانتظام کرتے تھے ۔ ان کا نام تھا منشی سراج دین ۔ وہ علامہ اقبال کے ملنے والوں میں تھے ۔ منشی سراج دین نے فیض سے کہا ’’دل و دماغ میں پختگی آجائے تب شاعری کرنا ۔ اس وقت یہ تضیع اوقات ہے‘‘ ۔ یہ سن کر فیض نے شعر گوئی ترک کردی ۔

جب فیض کالج میں داخل ہوئے تو یوسف سلیم چشتی اردو پڑھانے آئے جو شارح کلام اقبال تھے ۔ انھوں نے کالج میں ایک طرحی مشاعرہ رکھا ۔ فیض نے جو عرصہ ہوا شعر گوئی ترک کردی تھی طرح پر غزل کہی اور مشاعرے میں سنائی ۔ غزل پسند کی گئی ۔ یوسف سلیم چشتی نے کہا شعر کہتے رہو ۔ ایک دن بہت بڑے شاعر بنوگے ۔ اگر فیض منشی سراج دین کے کہنے پر عمل کرتے تو ہماری اردو شاعری ایک بہت بڑے شاعر سے محروم رہ جاتی ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ اپنے بچوں کو شاعر بنایئے کیونکہ شعر گوئی ایک فطری عمل ہے ۔ محض شعر موزوں کرنے کی صلاحیت سے کوئی شاعر نہیں بن جاتا ۔ اس کی ایک زندہ مثال ہم خود ہیں ۔ مختلف بڑے لوگوں کے مرنے پر ہم نے نظمیں کہی تھیں ۔ جوش ملیح آبادی کے انتقال پر ہم نے بمشکل ایک گھنٹے میں تعزیتی نظم لکھ دی تھی جو دوسرے دن اخبار میں شائع ہوئی ۔ بعض لوگوں نے ہماری نظم پہلے دیکھی جوش صاحب کے انتقال کی خبر بعد میں پڑھی ۔ ایک بہی خواہ ن ہم سے سوال بھی کیا کہ ہم نے یہ نظم احتیاطاً پہلے سے لکھ رکھی تھی ۔ ہم نے سن رکھا تھا ’بگڑا شاعر مرثیہ گو‘ ۔ اس لئے اس کے بعد ہم فرمائشی سہرے لکھنے لگے ۔ اتفاق دیکھئے کہ ہمارے ایک دو سہرے ایسے نکلے کہ شادیاں ٹوٹ گئیں ۔ اس کے بعد ہم کو شادی کے دعوت نامے ایسے ملنے لگے جن پر ہمارے نام کے نیچے لکھا ہوتا تھا ’براہ کرم سہرہ لکھنے کی زحمت نہ فرمائیں‘ ۔ خیر ، ہم اپنے قارئین سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ اردو اس وقت تک اس ملک میں باقی رہے گی جب تک آپ اردو کو اپنے گھروں میں محفوظ رکھیں ۔ اگر آپ کے بچے انگریزی میڈیم میں پڑھتے ہیں تو گرما کی چھٹیوں میں انھیں اردو کے گرمائی اسکول میں داخل کیجئے ۔ روزنامہ سیاست کے زبان دانی امتحانات میں شریک کیجئے ۔ اردو سے وابستگی ہماری تہذیبی شناخت ہے ۔