اردو زبان اور ہماری انفرادی ذمہ داری

کے این واصف
نصف صدی سے کچھ زیادہ عرصہ قبل ہندوستان و پاکستان سے اردو بولنے والوں کی نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے اہل اردو امریکہ اور یوروپی ممالک کی طرف کوچ کرنے لگے ۔ پھر خلیجی ممالک کے دروازے کھلے تو شمال مشرقی ایشیائی ممالک سے قافلوں کی شکل میں لوگ خلیجی ممالک بہ سلسلہ روزگار جا بسے۔ ان میں بہت بڑی تعداد اردو بولنے والوں کی بھی تھی۔

انسان جب ایک ملک سے دوسرے ملک نقل مکانی کرتا ہے تو وہ نئی زبان ، نئے ماحول اور نئی تہذیب سے روشناس ہوتا ہے اور مصلحتاً ان سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی تہذیب سے بیگانہ نہیں ہوجاتا۔ اس لئے کہ وہ اپنی زبان اور تہذیب بھی اپنے ساتھ لئے جاتا ہے ۔ اس کی کوشش رہتی ہے کہ وہ ممکنہ حد تک اپنی تہذیب اور زبان سے جڑا رہے۔ جہاں تک ہندوستانی باشندوں کی نقل مکانی کا تعلق ہے سب سے زیادہ لوگ امریکہ اور خلیجی ممالک میں منتقل ہوئے ۔ امریکہ منتقل ہونے والے تو خیر وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ لہذا وہاں کے ماحول میں بڑی حد تک رچ بس جاتے ہیں لیکن پھر بھی اپنی تہذیب کی کچھ جھلکیاں ہی سہی امریکہ میں بھی دکھائی دیتی ہیں ۔ سنا ہے امریکہ کے شہر شکاگو پر ہندوستانی اور خصوصاً حیدرآباد کی خصوصی چھاپ ہے ۔ کہتے ہیں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں کے بازاروں پر سارے ہندوستانی یا حیدرآبادی چھائے نظر آتے ہیں۔ بازار میں ہندوستانیوں کے مزاج اور ذوق کے مطابق کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور دیگر استعمال کی ہر شئے دستیاب ہے ۔ حد تو یہ کہ سنا ہے کچھ ریسٹورنٹس کے آگے سرشام نہاری کی دیگ بھی لگائی جاتی ہے ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ امریکہ منتقل ہونے والوں کی اکثریت وہاں کی شہریت حاصل کی ہوئی ہوتی ہے ۔ وطن سے ان کا ناطہ تقریباً ختم ہوجاتا ہے ۔ ہاں حسن چشتی صاحب، محترمہ غوثیہ سلطانہ ، پروفیسر شمیم علیم ، ندیم واجد صاحب وغیرہ جیسی شخصیات سے امریکہ میں اردو زبان و تہذیب کا پرچم بلند ہے اور اب تو شکاگو شہر میں ڈاکٹر اوصاف سعید بحیثیت قونصل جنرل ہند متعینہ شکاگو ہیں۔ جدہ میں ڈاکٹر اوصاف سعید کی کمیونٹی سروس اور اردو زبان کی ترقی و ترویج میں مثالی خدمات کے تمام اہل اردو آج بھی معترف ہیں۔ شکاگو کے اہل اردو کو ڈاکٹر اوصاف سعید کی شکاگو میں موجودگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ یہاں میں اس بات کا اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شکاگو شہر اور امریکہ کے دیگر شہروں میں اور بھی بہت سی شخصیات ہیں جن کے دم سے امریکہ میں اردو زندہ ہے۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ سردست مجھے ان کے نام یاد نہیں آرہے ہیں ورنہ یہاں ضرور درج کرتا۔+

خیر بات شروع ہوئی تھی اردو زبان ، تہذیب اور اس کی بقاء و ترقی سے ۔ زبان کی بقاء و ترقی اس وقت ممکن ہے جب زبان کی نئی نسل میں منتقلی کا سلسلہ جاری رہے ۔ برطانیہ ، امریکہ ، آسٹریلیا اور سارے خلیجی ممالک میں اردو کی انجمنیں بڑے پیمانے پر مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں۔ ہند و پاک سے شعراء مدعو کئے جاتے ہیں ۔ سینئر شعراء کے جشن منائے جاتے ہیں۔ بے شک یہ اردو کی خدمت ہے۔ اردو کی نئی بستیوں میں یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا، جب تک اہل اردو کی وہ نسل باقی ہے جو اردو بولتی، لکھتی اور پڑھتی ہے ۔ اس لئے اردو کی نئی بستیوں میں چند سال بعد اردو کی صورت تبدیل ہوجائے گی، کیونکہ مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ آج اردو کی انجمنوں سے جڑے ہیں ، ان اردو داں حضرات کی نئی نسل کی اکثریت اردو سے نابلند ہوتی جارہی ہے ۔ نئی نسل کیلئے اردو اب ان کی جدی زبان ہوتی جارہی ہے۔

پچھلے ہفتہ پروفیسر شمیم علیم صاحبہ کا سیاست سنڈے ایڈیشن میں ’’اردو ڈھونڈ رہی ہے شکاگو میں نشیمن اپنا‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ۔ مضمون میں پروفیسر صاحبہ نے شکاگو کے اہل اردو کو کافی جھنجھوڑا۔ محترمہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ متمول ترین اردو بولنے والوں کے شہر شکاگو میں ایک جگہ یا بلڈنگ ایسی نہیں جسے ’’اردو ہال‘‘ کہا جاسکے۔ جہاں اردو کی بیش قیمت کتابیں محفوظ کی جاسکیں بلکہ جسے بیک وقت ایک لائبریری ، اہل اردو کو یکجا ہونے کا ایک مقام اور سب سے بڑھ کر اردو کی نئی بستی میں بے سر و سامان اردو کو ایک چار دیواری میسر آجائے ۔ ’’اردو ہال‘‘ قائم کرنے کی کوشش نہ صرف شکاگو بلکہ یوروپ اور امریکہ کے ہر اس شہر میں ہونی چاہئے جہاں اردو والوں کی ایک قابل لحاظ تعداد بستی ہے اور اس اردو ہال کو جزوقتی اردو اسکول کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ اردو والے اپنے بچوں کو نماز ، قرآن وغیرہ سکھانے کیلئے تو ضرور کوئی انتظام کرتے ہی ہوں گے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دینی تعلیم کے ساتھ بچوں کو اردو سکھانے کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسل اردو کی کچھ تو شد بد حاصل کرے ۔ خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب میں اردو ہال قائم کرنے جیسی کوئی بلڈنگ تعمیر کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہاں برسرکار خارجی باشندے اس کے مجاز نہیں لیکن یہاں لوگ اسکولس میں اپنے بچوں کو اردو بحیثیت ایک مضمون دلواتے ہیں یاپھر قرآن اور دینی تعلیم کیلئے جن جزوقتی اساتذہ کو مقرر کرتے ہیں ان ہی کے ذریعہ لوگ بچوں کو اردو کی تعلیم بھی دلواتے ہیں۔

دنیا بھر میں اردو کی انجمنوں سے جڑے لوگ جس دیوانگی اور لگن سے کام کر رہے ہیں، انہیں دیکھ کر اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ہاں ابھی کچھ لوگ ہیں جو اپنی زبان کی بقاء کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ جہاں کچھ لوگ زبان کی بقاء ، ترقی و ترویج کیلئے بڑے پیمانے پر سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، وہیں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جنہیں نہ اپنی زبان سے کوئی دلچسپی ہے، نہ اردو کے زوال پذیر ہونے یا ختم ہوجانے خوف ہے۔ یہ حضرات بڑی آسانی سے یہ کہہ کر اپنا پلا جھاڑ لیتے ہیں کہ ہمیں اپنے روزگار کی جھنجھٹ سے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی کہ اردو ، اردو کی سرگرمیوں یا اس کی بقاء ، ترقی و ترویج کے بارے میں سوچیں۔ شکر ہے کہ آج بھی کچھ ایسی شخصیتیں ہمارے بیچ موجود ہیں جو اپنی ذات میں خود انجمن ہیں یا پھر ہماری اردو کی انجمنیں جو بڑے پیمانے پر اردو کی ترقی و ترویج کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری نیک تمنائیں ہیں جو لوگ اردو کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ امید کرتے ہیں کہ پروفیسر شمیم علیم کی توقع کے مطابق نہ صرف شکاگو میں بلکہ ہر شہر میں جہاں اردو والے بڑی تعداد میں بستے ہیں وہاں اردو ہال قائم ہوں۔

اور اب ہم ان عدیم الفرصت حضرات سے مخاطب ہیں جنہیں اجتماعی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا وقت نہیں مل پاتا۔ ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ وہ کم از کم اردو کی بقاء ، ترقی و ترویج میں اپنی انفرادی ذمہ داری پوری کریں جس کی صورت یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اردو لکھنا ، پڑھنا سکھانے کا اہتمام کریں۔ اردو کتابیں ، رسائل و جرائد جو انہیں پسند ہوں خریدیں۔ اس خریداری کو وہ اپنی ضروریات زندگی کی فہرست میں شامل کریں۔ اس سے گھر میں اردو کا ماحول بنے گا اور ان لوگوں کی بالواسطہ طریقہ سے مدد ہوگی جن کا روزگار اردو سے جڑا ہے۔ ہم وطن میں ہمیشہ یہ شکایت سنتے رہے ہیں کہ اردو دشمن طاقتوں نے اردو کو نقصان پہنچانے کیلئے اردو کا رشتہ روزگار سے توڑ دیا جس کی وجہ سے اہل اردو اپنی زبان سے دور ہوگئے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو میڈیم اسکول نہ ہونے کے برابر ہوگئے ۔ ان اسکولس کا معیار بے انتہائی خراب، اچھی تعلیم کے لئے اردو والوں نے بھی انگلش میڈیم اسکولس کا رخ کرلیا ۔ اس بات کی پروا کئے بغیر کہ اس طرح ہماری زبان ختم ہوجائے گی ۔ اچھی تعلیم کی غرض سے اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولس میں داخل کرادیا لیکن ساتھ میں انہیں چاہئے تھا وہ انگلش میڈیم اسکول کے انتظامیہ کے ساتھ بضد ہوتے کہ ہمارے بچوں کو اردو بحیثیت دوسری زبان پڑھانے کا انتظام کرے ۔ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی کوشش کرنا ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے لیکن اردو والوں نے اس پر بھی سمجھوتہ کرلیا کہ وہ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کی خاطر اپنی زبان کی قربانی دے دیں گے اور اپنے بچوں کو بڑے بڑے ڈونیشن دے کر معیاری مشنری اسکولس میں داخلے دلوائیں گے جہاں اردو بحیثیت دوسری زبان نہیں پڑھائی جاتی۔ اس طرح پچھلے 30 تا 35 سال کے عرصہ میں پڑھ کر بڑی ہونے والی ہماری نئی پود اردو زبان سے نابلند رہ گئی ۔ چند سال قبل حکومت ہند نے حیدرآباد شہر میں ایک اردو یونیورسٹی قائم کردی جس پر حیدرآباد کو فخر ہے۔ مگر ہمیں اس بات کا بالکل افسوس نہیں کہ حیدرآباد جیسے شہر میں ایک اچھا اور معیاری اردو میڈیم اسکول نہیں ہے جس پر ہم فخر کرسکیں ۔ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہماری لائبریریوں میں کوڑے کرکٹ کی طرح پڑا ہے کیونکہ اب کتب خانوں میں اردو پڑھنے والے نہیں آتے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا ایک بیش قیمت دینی سرمایہ بھی اردو زبان میں ہے ۔ اب جبکہ نئی نسل کی اکثریت اپنی زبان سے ناواقف ہے تو ان دینی کتابوں کو کون پڑھے گا ۔ لہذا یہ گراں قدر دینی سرمایہ بھی ایک دن ضائع ہوجائے گا یا دیمک کی غذا بن جائے گا۔

جیسا کہ ہم نے لکھا ہے اب ہر اردو بولنے والے کو اپنی انفرادی ذمہ داری پوری کرنی ضروری ہے ۔ وہ یہ کہ ہم اردو اخبار ، رسائل وغیرہ پابندی سے خریدیں۔ گوکہ ٹی وی اور انٹرنیٹ بڑی حد تک آپ کی یہ ضرورت پوری کرتے ہیں لیکن آپ کی جانب سے اردو اخباروں ، رسائل خریدنے سے ان افراد کی معیشت بہتر ہوگی جن کا روزگار اردو سے جڑا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ اردو رسائل اور جرائد کی تعداد اشاعت بڑھے گی تو ان کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہوگا ۔ حکومت کے ایوانوں میں یہ پیام جائے گا کہ اردو اخبار و رسائل میں شائع ہونے والی بات قارئین کے ایک وسیع حلقے تک پہنچتی ہے اور اشاعت بڑھنے کا اثر اخبار کے بزنس پر پڑے گا، کیونکہ مشترین جرائد اور رسائل تعداد اشاعت کو دیکھ اشتہار جاری کرتے ہیں اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ جرائد و رسائل کو اشتہارات کی وجہ سے معاشی استحکام حاصل ہوتا ہے ۔ اشاعتیں بڑھیں گی تو اردو پڑھے لکھے افراد کیلئے ملازمتوں کے مواقع فراہم ہوں گے اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوگا ۔ جب ہر اردو بولنے والا اپنی انفرادی ذمہ داری پورے کرے جو اوپر بتائی گئی ہے ۔ کسی بھی ملک اور شہر میں قوت خرید رکھنے والے ہر شخص کو روزانہ ضرور کوئی نہ کوئی اخبار اور ہفتہ وار رسالہ خریدنا چاہئے ۔ چاہے ان کے پاس اسے پڑھنے کا وقت ہو یا نہ ہو۔ اخبار صرف یہ سوچ کر خریدیں کہ اپنی کمائی کا ایک معمولی حصہ اپنی زبان کی بقاء کیلئے خرچ کرنا ضروری ہے ۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
knwasif@yahoo.com