میرا کالم مجتبیٰ حسین
انگریزی روزنامہ ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ میں کچھ عرصہ پہلے انگریزی کے مشہور صحافی رکشت پوری کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں اردو کے ایک حالیہ سمینار کے حوالہ سے اردو کی موجودہ صورت حال کے بارے میں نہایت اطمینان بخش اور دل خوش کن تصویر پیش کی گئی تھی ۔ اتفاق سے ہم نے بھی یہ کالم پڑھا تھا لیکن اس کے بارے میں کسی اظہار خیال کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی تھی کہ رکشت پوری انگریزی کے صحافی ہیں ۔ انگریزی جیسی خوشحال زبان میں اگر کوئی کسی اور زبان کے بارے میں کچھ لکھے گا تو وہ اچھا ہی لکھے گا ۔ شخصی خوشحالی اور مرفہ الحالی ، زندگی کو دیکھنے کا زاویہ ہی بدل دیتی ہے ۔ ہماری جیب میں اگر کبھی دو تین سو روپئے فالتو موجود ہوں تو بخدا زندگی بہت حسین نظر آنے لگتی ہے ۔ جھگیاں اور جھونپڑیاں بھی قدرت کا ایک انمول تحفہ معلوم ہوتی ہیں ۔ غریب آدمی تو ہمیں دکھائی دیتا ہے لیکن غربت نہیں دکھائی دیتی ۔ ایسا زاویہ نگاہ وقتی خوشحالی کا مرہون منت ہوتا ہے ۔پھر رکشت پوری تو انگریزی کے صحافی ہیں ۔ اردو بھی تھوڑی بہت جان لیتے ہیں لیکن انہیں کیا پتہ کہ ان دنوں اردو اس ملک میں کن حالات سے گذر رہی ہے ۔ دس بارہ برس پہلے اردو کے مشہور شاعر اور ناقد ساقی فاروقی جو لندن میں رہتے ہیں ، اپنی جرمن بیوی کے ساتھ پہلی بار ہندوستان آئے تھے ۔ بیگم ساقی فاروقی نے ساقی کے ساتھ دہلی کی چند اردو محفلوں میں شرکت کی اور جب دیکھا کہ لوگ ساقی کے کلام پر دوہرے ہو ہو کر داد دے رہے ہیں اور ہلکان ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں تو بیگم ساقی فاروقی نے ہم سے انگریزی میں جو کچھ کہا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’مجھے پتہ نہیں تھا کہ ساقی اردو کے اتنے بڑے شاعر ہیں ۔ میں نہ جانے کتنے ہی برسوں سے ساقی کے ساتھ زندگی گذار رہی ہوں لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ میں اردو کے اتنے بڑے شاعر کی رفیق حیات ہو ۔ اگر میں ان کے ساتھ ہندوستان نہ آتی تو سدا اندھیرے میں ہی رہتی‘‘ ۔ اس پر ہم نے بیگم ساقی فاروقی سے کہا تھا ’’آپ چونکہ اردو نہیں جانتیں اس لئے اگر اپنے شوہر کے بارے میں ایسی رائے قائم کرلیتی ہیں تو یہ بات حق بجانب ہے ۔ اردو نہ جاننے کے یہی تو فائدے ہیں‘‘ ۔ اردو کی محفل میں لوگ جس طرح سماں باندھ دیتے ہیں اس کے باعث وہ لوگ جو اردو نہیں جانتے اکثر غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ماحول بنانا یا سماں باندھنا ، اردو تہذیب کا خاصہ رہا ہے ۔ ہم نے مشاعروں میں بعض شاعروں کے ایسے کلام پر سامعین کو بے پناہ داد دیتے ہوئے دیکھا ہے جس پر شاعر کو اصولاً سزا ملنی چاہئے تھی ۔ سزا اور داد کا فرق جب مٹ جائے تو زبانوں کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ رکشت پوری نے اردو کی موجودہ صورتحال کے بارے میں جو دل خوش کن تحریر لکھی ہے وہ اصل میں ایسی ہی کسی محفل میں شرکت کے بعد لکھی ہے ۔
اس کے جواب میں اردو کے ایک بہی خواہ اے اے عباسی کا ایک تفصیلی مراسلہ ’’اردو کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ہندوستان ٹائمز میں ہی شائع ہوا ہے جس میں مراسلہ نگار نے رکشت پوری کے مندرجہ بالا کالم کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایسی گمراہ کن تحریروں سے اردو والے خواہ مخواہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ مراسلہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ ساری گڑبڑ اردو کے ان معدودے چند پروفیسروں اور اساتذہ کی پیدا کردہ ہے جو دہلی ، علی گڑھ ، بھوپال ، لکھنؤ اور حیدرآباد میں بیٹھ کر اردو کے بارے میں جان بوجھ کر ایسی خوش فہمیاں پھیلاتے رہتے ہیں ۔ اور ایسی خوش فہمیوں کو پھیلانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اردو کے یہ پروفیسر اور اساتذہ اپنے زندہ رہنے کا جواز ڈھونڈتے ہیں ۔ انہیں اصل میں اپنے حلوے مانڈے سے مطلب ہوتا ہے ۔
اردو اساتذہ کا یہ ٹولہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ ان اداروں اور انجمنوں پر قابض ہوجاتا ہے جنھیں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے امداد ملتی ہے ۔ پھر یہ آپس میں مل کر اردو کے لئے ملنے والی اس امداد کو بانٹ لیتے ہیں ۔ ان کے سامنے اردو کی بقا کا نہیں بلکہ اپنی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ مثل مشہور ہے کہ جلتے گھر کے بانس کو بھی لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں ۔ اردو کے جلتے ہوئے گھر کے ساتھ بھی یہ اساتذہ یہی کررہے ہیں ۔ مراسلہ نگار نے اردو کے بارے میں دل خوش کن تحریریں لکھنے والوں سے کہا ہے کہ وہ اردو کی محفلوں میں اساتذہ کی جانب سے کی جانے والی چکنی چپڑی باتوں پر بالکل نہ جائیں بلکہ اپنی نظر اردو کی کسی بھی محفل میں موجود شرکاء کے سروں کے اندر نہیں بلکہ سروں کے اوپر ہی ڈال لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ اردو کی صورت حال کتنی سنگین ہوتی جارہی ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر شرکاء کے سروں پر یا تو بال ہی نہیں ہوں گے اور اگر ہوں گے تو وہ سفید ہوں گے ۔ اردو کی کسی بھی محفل میں اب جتنے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں ان کی عمریں پچپن اور ساٹھ برس سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ اردو کی محفلوں میں نئی نسل آ ہی نہیں رہی ہے تو کالے بالوں والے سامع کہاں سے آئیں گے ۔ اردو کی موجودہ سنگین صورت حال کو سمجھنے کے لئے یہ ثبوت کافی ہے ۔ مراسلہ نگار کی اس رائے سے ہمیں پوری طرح اتفاق نہیں ہے کیونکہ دہلی کی ادبی محفلوں میں کبھی کبھار کوئی کالے بالوں والا سامع شریک بھی ہوجاتا ہے ۔ ہماری مراد ڈاکٹر خلیق انجم سے ہے جو اپنے بالوں میں بڑے اہتمام سے خضاب لگاتے ہیں ۔ہم انہیں جب بھی دیکھتے ہیں تو اردو کا مستقبل اتنا تاریک نظر نہیں آتا ۔ اگر بالوں کی سیاہی کا مطلب اردو کے روشن مستقبل سے ہے تو اردو والوں سے ہماری گذارش ہے کہ وہ اردو محفلوں میں جانے پہلے اپنے بالوں میں خضاب ضرور لگایا کریں کیونکہ بالوں میں خضاب لگانا بھی اردو کے مستقبل کے بارے میں دل خوش کن تحریریں لکھنے کے مترادف ہے ۔
جو لوگ اردو کے مستقبل کے بارے میں اچھی اچھی اور پرامید تحریریں لکھتے ہیں وہ بھی تو آخر اپنی تحریر میں خضاب ہی لگاتے ہیں ۔ یادش بخیر اردو کے تاریک مستقبل اور روشن ماضی کے بارے میں ایک واقعہ یاد آگیا۔ پندرہ برس پہلے بنگلور میں ایک سمینار منعقد ہوا تھا جس میں پروفیسر ثریا حسین ، جو اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو تھیں اور ڈاکٹر فہمیدہ بیگم ، جو ان دنوں ترقی اردو بورڈ کی ڈائرکٹر تھیں بھی موجود تھیں ۔ پروفیسر ثریا حسین کا رنگ نہایت سرخ و سفید ہے اور ڈاکٹر فہمیدہ بیگم کا رنگ کسی قدر سیاہی مائل ہے ۔ سمینار میں دونوں برابر برابر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایک مقرر نے سمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’حضرات! اردو کا ماضی اگرچہ نہایت روشن اور تابناک تھا لیکن اب اس کا مستقبل تاریک ہوتا جارہا ہے‘‘ ۔ اس پر ہم نے دونوں معزز خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اور اتفاق سے اس وقت اردو کا روشن ماضی اور تاریک مستقبل دونوں ساتھ ساتھ موجود ہیں‘‘ ۔ بہرحال یہ ایک فقرہ تھا جو ہمیں اچانک یاد آگیا ۔ غرض مراسلہ نگار نے اپنے مراسلہ میں اور بھی بہت سی باتیں کہی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے بھی دو ایک برس پہلے اسی کالم میں لکھا تھا کہ اردو کی محفلوں میں اب زیادہ تر بوڑھے ہی شرکت کررہے ہیں ۔ سوچا تھا کہ ہمارے لکھنے کے بعد کچھ نوجوان بھی اردو کی محفلوں میں آنے لگیں گے اور اتفاق سے چند روز بعد ہی ہمیں اردو کی ایک محفل میں بارہ برس کا ایک لڑکا نظر آگیا ۔ اردو سے اس کی محبت کو دیکھ کر ہم نہال ہوگئے ۔ چنانچہ ہم نے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کی ہمت افزائی کرنے لگے ۔ اتا پتہ پوچھا تو معلوم ہوا کہ اردو کے ایک پروفیسر ، جو ہمارے دوست بھی ہیں ، کا نواسا ہے ۔ جب ہم نے اپنے پروفیسر دوست سے ان کے نواسے کی اردو سے محبت کی تعریف کی تو بولے ’’نعوذ باللہ! بھیّا اسے اردو سے کیا لینا دینا ہے ۔مجھے اصل میں اس محفل کے بعد ایک تقریب میں جانا ہے ۔ اس لئے اسے ساتھ لے آیا ہوں ۔ بڑی مشکل سے آیا ہے ۔ پورے دس روپئے کے چاکلیٹ دلائے ہیں ۔ تب کہیں جا کر اردو کی اس محفل میں آنے کے لئے راضی ہوا ہے ۔
آپ بھی بڑے معصوم آدمی ہیں ، آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں اپنے نواسے کو اردو کے چکر میں مبتلا کروں گا ۔ یہ تو انگلش میڈیم کے اسکول میں پڑھتا ہے ۔ اردو کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں ہے ۔ کیاآپ مجھے اتنا عاقبت نااندیش سمجھتے ہیں کہ میں اپنے نواسے کو اردو پڑھاؤں گا‘‘ ۔ اس جواب کے بعد ہم نے اردو محفلوں میں نوجوانوں کو تلاش کرنا چھوڑ دیا ہے ۔ اگر کوئی نوجوان مل بھی جاتا ہے تو اس سے یہ تک نہیں پوچھتے کہ وہ کتنے روپیوں کے چاکلیٹ لے کر اس محفل میں آیا ہے ۔ مراسلہ نگار نے اردو اساتذہ کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے اس سے ہمیں بھی صدفیصد اتفاق ہے ۔ لیکن ہم اس بارے میں کھل کر اس لئے کچھ کہنا نہیں چاہتے کہ اردو کے بیشتر نقاد یہی اساتذہ ہوتے ہیں ۔ بھیّا! ہمیں بھی تو ادب میں زندہ رہنا ہے (بھلے ہی زبان مرجائے) ۔ اردو کے سوائے کسی اور زبان میں یہ نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی ٹوٹی پھوٹی اردو میں ایم اے کرکے کسی کالج میں اردو کا استاد مقرر ہوجاتا ہے تو فوراً ناقد بھی بن جاتا ہے اور ادب کے بارے میں غلط زبان لکھ کر غلط فیصلے صادر کرنے لگا جاتا ہے ۔ آپ کو اردو کا کوئی خالص استاد ایسا نہیں ملے گا جو اردو کی تعلیم سے مطلب رکھتا ہو ۔ جو بھی ملے گا ناقد ہی ملے گا ۔ اس کی دکان بھی ایسی ہی لنگڑی لولی تنقیدی تحریروں کے ذریعے چلتی ہے ۔ ہمارے ہاں اردو کے بعض اساتذہ کی خواہش یہ نہیں ہوتی کہ اردو زبان کو عام کیا جائے ۔ ان کی ساری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو کے نام پر امداد کہاں سے حاصل کی جائے ۔ کون سی کمیٹی کی رکنیت پر قبضہ کیا جائے اور جوڑ توڑ کے ذریعہ ’’بندر بانٹ‘‘ کو کس طرح فروغ دیا جائے ۔ ہم نے تو اب اردو کے مستقبل کے تعلق سے ان اساتذہ کی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ ہمیں تو وہ نادار اور مفلس کارکن اچھے لگنے لگے ہیں جو رضاکارانہ طور پر اردو کی ابتدائی تعلیم کے لئے سرگرم عمل ہوگئے ہیں ۔ اردو کا مستقبل روشن ہوگا تو ایسے ہی بے لوث لوگوں کے ذریعہ ہوگا ۔ اردو کے بالوث اساتذہ کو تو اپنے ڈرائنگ رومس میں بیٹھ کر لفظوں کے طوطا مینا بنانے سے ہی فرصت نہیں ملتی ۔
(ایک پرانی تحریر)