عطا اللہ خوندمیری
حصول اراضی کا قانون انگریزوں نے یہاں 1894 ء میں پہلی مرتبہ رائج کیا تھا۔ جس کے تحت اراضیات کے مالکانہ حقوق اور اختیارات راجہ رجواڑوں اور زمینداروں کو دیئے گئے تھے۔ 1947 ء میں آزادی کے بعد رجواڑوں اور ان کی ریاستوں کو برخاست کردیا گیا۔ 1950 ء کے عشرہ میں زمینداری نظام بھی برخاست ہوگیا اور کسانوں کو اراضیات پر مالکانہ حقوق حاصل ہوئے لیکن 1984 ء میں حصول اراضی قانون میں کسانوں کو اراضیات پر مالکانہ حقوق حاصل ہوئے لیکن 1984 ء میں حصول اراضی قانون میں کسانوں کے حقوق مستحکم بنانے کے ساتھ کمپنیوں کو زرعی اراضیات خریدنے میں آسانیاں فراہم کی گئیں۔ ہندوستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی شعبہ کو خاطر خواہ ترقی حاصل نہ ہوسکی اور یہ شعبہ آج بھی پسماندگی کا شکار ہے لیکن ملک کی 50 فیصد آبادی کا روزگار ہنوز زراعت سے وابستہ ہے جبکہ صرف 20 فیصد آبادی صنعتی روزگار سے وابستہ ہے۔ زراعت سے کسانوں کو روزی اور عوام کو روٹی حاصل ہوتی ہے اس کے باوجود زراعت اور صنعت جیسے دو کلیدی شعبے آزادی کے بعد سے ایک دوسرے کے خلاف مسلسل متصادم رہے ہیں۔ صنعتکار ہمیشہ زرعی اراضیات پر نظریں مرکوز کرتے رہے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے حصول اراضی کے تحت تاحال 6 کروڑ 10 لاکھ ایکر اراضیات کی تحصیل عمل میں آئی جس سے تقریباً 6 کروڑ افراد بے گھر اور بے زمین ہوئے۔ ایک شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ قانون حصول اراضیات کے تحت حاصل کی جانے والی اراضیات اور اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد یا اُنھیں دیئے جانے والے معاوضات کے علاوہ یہ اراضیات کس کو دی گئی تھیں اس کا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس بات کا اعتراف خود یو پی اے حکومت نے 2012 ء میں ایک پارلیمانی کمیٹی کو دیئے گئے جواب میں کیا تھا۔ اتفاق سے مذکورہ پارلیمانی کمیٹی کی قیادت بی جے پی رکن پارلیمنٹ سمترا مہاجن کررہی تھیں جو اس وقت لوک سبھا کی اسپیکر ہیں اور دیکھ رہی ہیں کہ حصول اراضیات سے پہونچنے والے نقصانات سے کسانوں کو بچانے کیلئے ان کی کمیٹی کی طرف سے کئے گئے کام پر اب خود ان ہی کی پارٹی کی حکومت ہی پانی پھیر رہی ہے۔
آزادی کے بعد چونکہ کانگریس ہی طویل عرصہ تک برسر اقتدار رہی ہے چنانچہ 6 کروڑ ایکر اراضیات کے حصول کی بھی وہی اصل ذمہ دار قرار پاتی ہے۔ غالباً اس نے غلطی کی اصلاح کے لئے 2013 ء میں حصول اراضیات کی جامع بل منظور کی تھی جس کے تحت کسانوں کے مفادات کا بڑی حد تک تحفظ کیا گیا تھا لیکن بی جے پی جس کی تائید سے یہ بل منظور کی گئی تھی اب اس میں ترمیمات پر بضد ہے۔ بی جے پی شاید محسوس کرتی ہوگی کہ 60 برسوں کے دوران کانگریس نے خوب لوٹا اور اب وہ مساویانہ موقع سے کیوں محروم رہے۔ بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی کو اس ضمن میں دوسروں سے زیادہ دلچسپی ہونا لازمی بات ہے کیونکہ وہ اِن اُمور پر غیرمعمولی مہارت رکھتے ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ماضی میں جب وہ گجرات کے چیف منسٹر تھے ٹاٹا گروپ کے چیرمین رتن ٹاٹا کو احمدآباد سے بمشکل 100 کیلو میٹر دور سانند میں نانو موٹر پلانٹ کے قیام کیلئے صرف 72 گھنٹوں کے دوران اراضی اور برقی کی فراہمی، ٹیکس سے استثنیٰ اور چارلین پر مبنی مشاہراہ کے ساتھ 9000 کروڑ روپئے کے قرض کا انتظام کردیا تھا۔ ادانی گروپ کو بھی وہ 15000 ایکر اراضی دے چکے ہیں۔ ریلائنس کے امبانی برادران نوی ممبئی میں 35000 ایکر اراضی حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ علاوہ ازیں اور بھی کئی دوسری ریاستوں کے چیف منسٹرس بھی ہیں جو اب حکمرانی سے قطع نظر حصول اراضیات، اراضیات کے الاٹمنٹ کیلئے اختیارات کا غیرمعمولی استعمال کررہے ہیں اور بلاشبہ اب تو وزیراعظم بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ ملک میں رئیل اسٹیٹ شعبہ کی ترقی کے ساتھ اراضیات کی قیمتوں میں اضافہ کے پیش نظر اکثر ریاستی حکومتیں رئیل اسٹیٹ ایجنٹس بلکہ بروکرس کے طور پر کام کررہی ہیں۔ حالانکہ دوسرے ممالک میں ایسا نہیں کیا جاتا۔
بالخصوص امریکہ کے سابق صدر جارج بش نے 2006 ء میں عاملانہ احکام جاری کرتے ہوئے واضح کردیا کہ خانگی کمپنیوں کے لئے حکومت کی طرف سے اراضیات حاصل نہیں کی جائیں گی۔ یوروپی ممالک میں بھی حصول اراضی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جاپان میں ناریتا ایرپورٹ کی تعمیر کے لئے مالکان سے طویل بات چیت کے بعد اراضی خریدی گئی تھی۔ لیکن ہندوستان میں اراضی کے بھوکے صنعتکاروں کو لاکھوں ایکر اراضی کے حصول کی راہ ہموار کی جارہی ہے جو دیہی علاقوں میں صنعتوں کے قیام اور مقامی افراد کو روزگار کا وعدہ کرتے ہوئے کوڑیوں کے مول لی گئی قیمتی اراضیات پر بینکوں سے اربوں روپئے کے قرض حاصل کررہے ہیں۔ تاہم ٹاٹا کے نانو موٹر پلانٹ اور چند دیگر اداروں کے سواء کسی بھی دوسرے SEZ میں بڑی صنعت کا قیام عمل میں نہیں آیا اور نہ ہی مقامی افراد کو روزگار حاصل ہوسکا۔ بعض مقامات پر زمین دینے والوں کے خاندان کے فرد کو سکیورٹی گارڈ یا لیبر کی ملازمت حاصل ہوئی لیکن اس کی تنخواہ سے گھر نہیں چل سکتا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ حصول اراضی کے قانون سے متاثرہ خاندان کے صرف ایک فرد کو ملازمت مل سکتی ہے جبکہ زمین کی موجودگی میں سارا خاندان اس پر کام کیا کرتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر ملک کے کسان اور دیہی عوام مختلف اندیشوں کے شکار ہوگئے ہیں اس کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی نے حصول اراضی بل کو اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں نہ صرف بی جے پی قائدین میں اُلجھن پیدا ہوگئی ہے بلکہ کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئی ہیں اور تو اور خاموش مزاج راہول گاندھی بھی جاگ اُٹھے ہیں اور اس مسئلہ پر دہلی میں منعقدہ کسان ریالی کے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی بی جے پی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں۔
سوٹ، بوٹ اور لوٹ، حکومت کے دعوے، حقائق سے متضاد
ملک
1947 ء کے بعد سے حکومت ہند کی جانب سے 6.1 کروڑ اراضی کا حصول، چھ کروڑ افراد بے گھر بے زمین ہوئے ہیں۔ جن میں کئی تاحال معاوضوں اور بازآبادکاری سے محروم ہیں۔
دیگر ممالک
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کنیڈا، جاپان میں ملکی حکومتیں خانگی کمپنیوں کی دوکانیں چمکانی حصول اراضیات میں رئیل اسٹیٹ بروکر کا رول ادا نہیں کرتیں۔
ریاستیں
(سابق متحدہ) آندھراپردیش، اترپردیش، گجرات، راجستھان اور مہاراشٹرا جیسی پانچ ریاستیں اپنی تاسیس کے بعد سے تاحال 5.72 لاکھ ایکر اراضیات حاصل کرچکی ہیں اور ڈسمبر 2014 ء 2.55 لاکھ ایکر اراضیات کسی بھی صنعت کیلئے الاٹ نہیں کی گئیں۔
صنعت
مہاراشٹرا میں ڈسمبر 2014 ء تک 100,000 ایکر اراضی پر مشتمل غیر الاٹ شدہ لینڈ بینک رہا ہے۔گجرات میں 1,03,784 ایکر پر مشتمل لینڈ بینک تھا اور اچانک ڈسمبر 2014 ء میں 50 فیصد لینڈ بینک صنعتی یونٹوں کے لئے الاٹ کیا گیا۔
کارپوریٹس
گودریج گروپ ممبئی میں 2800 ایکر اراضی پر قابض ہے اور اس کا بڑا حصہ بیکار پڑا ہے۔ انفوسیس بنگلور میں 1.4 کیلو میٹر کا مالک ہے لیکن اراضی کا کوئی استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔
خصوصی اقتصادی زونس SEZ
2006 ء اور 2013 ء کے دوران SEZ کیلئے 1,50,000 ایکر اراضی حاصل کی گئی جس کے منجملہ 14 فیصد اراضی تجارتی مقاصد کے لئے منتقل کردی گئی۔ 576 کے منجملہ صرف 2013 SEZ 152 تک کارکرد ہوسکے۔