ادبی صحافت کے فروغ میں حیدرآبادی خواتین کا حصہ

ڈاکٹر محمد ناظم علی
اردو صحافت کی عمر کم و بیش 200 برسوں پر محیط ہے یعنی 1822 تا 2014 ،لیکن 1950 تک خواتین کی خدمات صحافتی میدان میں کم تھیں ، اسکی وجہ خاندانی ، سماجی اور مذہبی حد بندیاں تھیں ، لیکن آزادی کے بعد خواتین اخبارات و رسائل سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے طور پر یا معاونین کے تعاون سے اخبارات ادبی رسائل و جرائد کا اجراء عمل میں لاتی رہیں اور بحسن و خوبی صحافتی فرائض انجام دیتی رہیں ۔ اس مضمون میں حیدرآباد سے نکلنے والے رسائل جن کی مدیر خواتین رہی ہیں ان کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ صغرا ہمایوں مرزا نے 1919 میں رسالہ النساء جاری کیا ۔ یہ ایک ایسا رسالہ تھا جس میں زیادہ تر خواتین کے مضامین شائع ہوتے تھے ۔ اس کی مدیرہ ایک اصلاحی اور انقلابی شخصیت کے مالک تھیں ۔ خواتین کی تعلیم و تربیت اس رسالہ کا خاص کردار تھا ۔ خواتین میں تعلیم کو عام کرنے تلقین بھی کی گئی ۔ داستان 1947 میں احمد مکی نے محترمہ زینت ساجدہ کی معاونت میں جاری کیا ۔ داستان ہندوستان گیر مقبولیت کا حامل تھا ۔ تمام مشاہیر ادب کی قلمی معاونت حاصل تھی ۔

عکس 1952 میں محمودہ یاسمین کی ادارت میں گوشہ محل سے جاری ہوا تھا ، یہ بھی رسالہ نئے ادب کا ترجمان تھا ۔ محمودہ یاسمین خود بھی اپنے دور کی اچھی افسانہ نگار تھیں ۔ اس لئے عکس کو بھی افسانے کے ارتقاء کیلئے وقف کردیا ۔ قدیر ظفر محمود جو محمودہ کے بھائی تھے ، انکی معاونت حاصل رہی ۔ خاتون دکن صالحہ الطاف کی ادارت میں اختر محبوب ، صبیحہ سعید ، رخشاں تحسین ، عذرا سعید کے تعاون سے نومبر 1962 میں شائع ہوا ۔ اس پرچہ کی مصوری میں ممتاز مصورہ عذرا سعید کا عمل تھا ۔ خاتون دکن مئی 1963 کے شمارہ میں ڈاکٹر سیدہ جعفر نے اپنے مضمون علامہ راشد الخیری کے ناولوں میں عورت کا کردار پر علامہ راشد الخیری کے ناولوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ راشد الخیری کے ناولوں میں عورت اکثر ابتداء سے انتہا تک مریم نظر آتی ہے ۔ کہیں زلیخا دکھائی نہیں دیتی ۔ یعنی انکی نظر میں عورت کی فطرت کے ایک ہی رنگ ایک ہی جلوے اور ایک ہی جہت پہ ہوتی ہے ۔ وہ کردار کی نشو و نما پاتے ، نئے روپ دھارتے ، بنتے اور سنورتے اور زندگی کے ترنم پر رقص کرتے ہوئے نہیں دکھا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ راشد الخیری کے یہاں عورت کے کردار میں ایک جمود ، یکسانیت اور یک رنگی ملتی ہے ۔ اسکے باوجود ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ راشد الخیری نے اپنے ناولوں میں عورت کے کردار کو پیش کرتے ہوئے اکثر بڑی صداقت سے کام لیا ہے ۔ خاتون دکن رسالے میں نقش اول کے عنوان سے مستقل اداریئے لکھے جاتے رہے ۔ ان میں اردو زبان و ادب کے مسائل پر روشنی ڈالی جاتی تھی ۔ اسکے کالم بہت مشہور ہوئے ۔

رسالہ ’’قلم کار‘‘ مغل اکیڈیمی کی جانب سے احمدی بیگم کی ادارت میں فبروری 1963 میں نیشنل فائن پرنٹنگ پریس چار کمان حیدرآباد دکن میں طبع ہو کر شائع ہوتا تھا ۔ اس پرچہ کے مجلس مشاورت کے اراکین میں پروفیسر ابوظفر عبدالواحد ، رفیعہ سلطانہ ، جہاں بانو نقوی ، راجہ رتنا ریڈی ، حکیم تیموری ، خاور نوری اور سید مہدی حسین شامل تھے ۔ شرکاء میں اشرف رفیع اور زینب فیض الدین شامل تھے ۔ قلم کار کے اداریئے سوجھ بوجھ کے مستقل عنوان سے لکھے جاتے رہے ۔ ان اداریوں میں اردو زبان کی ترقی اور مستقبل کے بارے میں روشنی ڈالی جاتی رہی ۔ ایک اداریہ کا اقتباس نقل ہے ۔ ’’اس وقت صورت حال یہ ہیکہ وہ لوگ بھی جن کی مادری زبان اردو ہے اپنی زبان سے ، اغماز برت رہے ہیں ۔ تو بعض ارباب نظر کے اندازے کے مطابق اردو زبان جاننے والوں کا دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے ۔ کیونکہ نئی نسل کی تعلیم انگریزی ، ہندی یا تلگو زبانوں میں ہورہی ہے ۔ یہ واقفیت واقعی ایک حزنیہ ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو اردو زبان میں تعلیم دلانے پر راغب کرنے کی مہم چلائی جائے ۔ ’’قلم کار‘‘ کلاسیکی اقدار کے ساتھ ساتھ ترقی پسندی کی صحت مند رجحانات کا حامل رسالہ تھا ۔ اس کو ابتداء ہی سے ملک و بیرون ملک کے شعراء و ادیب کا تعاون حاصل رہا ۔ مغل اکیڈیمی کا یہ ترجمان تقریباً تین یا چار سال تک اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دیتا رہا ۔ بعد میں چند ناگزیر حالات کی وجہ سے بند ہوگیا
اکتوبر و نومبر 1964 میں خصوصی نمبر شخصیت اور فن ، طنز و مزاح و انشائیہ ، نقد و نظر شائع ہوئے ۔ ڈسمبر جنوری 1966 میں خصوصی افسانہ نمبر شائع ہوا ۔

شعور ، دوماہی رسالہ تھا اس کا پہلا شمارہ مارچ 1954 کو شائع ہوا ۔ ڈاکٹر مغنی تبسم اور اختر جہاں کی ادارت میں نکلا کرتا تھا ۔ اردو ادب کے مشہور محقق وادیب پروفیسر عبدالقادر سروی اس جریدہ کے مدیر اعزازی تھے ۔ باتصویر تھا اور حسن کاری میں سرور ڈانڈا کا عمل تھا ۔ ہما ڈائجسٹ سائز کا یہ رسالہ جملہ تین شماروں کی اشاعت کے بعد مسدود ہوگیا ۔ اس میں مختلف عنوان کے تحت اداریئے لکھے گئے آج کی رات ، نشست ، گفت و برخاست اور میں کیا کروں زمانہ اگر قدرداں ہے ۔ اس میں کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے فیصلوں اور مسائل پر روشنی ڈالی جاتی رہی ۔ رسالہ ’’شعر و حکمت‘‘ کے پہلے شمارہ کی اجرائی جنوری 1970 میں عمل میں آئی اور روز اول سے ہی اختر جہاں اور مغنی تبسم کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ۔ اس رسالے میں ادیب کا سماجی رول کے عنوان سے مستقل اداریے شہریار اور مغنی تبسم نے لکھے ۔ اس کی خصوصیت میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس میں مشرق اور مغرب کے نغمہ کے عنوان سے مغربی ادیبوں و شعراء کی تخلیقات کو اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا جاتا رہا ۔ اس کا نام راشد نمبر ناگپور اور جموں یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کیا گیا ۔ اس ادبی جریدہ کے عام و خاص شمارے کیفیت و کمیت کے لحاظ سے معیاری ہوتے تھے ۔اس کے ہر شمارے کے 384 صفحات ہوا کرتے تھے ۔ اس کی اولین مدیرہ اختر جہاں تھیں بعد میں مغنی تبسم ، شہریار شامل ہوئے ۔ اس طرح سے خواتین نے اول صحافت کو فروغ و ترقی عطا کی ۔