ڈاکٹر محمد ناظم علی
اردو زبان کے فروغ و ترقی میں اور اس کی ترویج و اشاعت میں ادبی رسائل وجرائد کا کلیدی رول رہا ہے اور روزناموں و اخبارات نے بھی اردو زبان و ادب کو فروغ عطا کیا ، ان کے علاوہ اردو زبان و ادب کو فروغ تخلیقی اعتبار سے بھی ہوا، مختلف ادیبوں وشعراء نے نہ صرف زبان کے گیسو سنوارے بلکہ ادب کو ترقی عطا کی ہے ۔ زبان و ادب کی تحریکات اور انجمنوں نے بھی اردو کی آبیاری کی ہے۔ بہرحال اردو امیر خسرو سے لے کر آج تک قائم دائم ہے اور رواں دواں ہے۔ اردو صحافت کی نوعیت کچھ بھی ہو علمی ، مذہبی ، سیاسی ، تہذیبی ، ثقافتی ہو لیکن ادبی صحافت کی عظمت واہمیت اپنی جگہ ہے ۔ زبان و ادب کی بقاء کیلئے اخبارات و رسائل کاہونا ناگزیر ہے ، ان وسیلہ سے اردو کی ہمہ جہت ترقی ہوتی ہے ۔ اردو کے اخبارات اور ادبی رسائل نے زبان و ادب کو نئی سمت و ڈگر عطا کئے ہیں۔ اب جب اردو زبان کو سیکھنے پڑھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے تو کیسے اردو اخبارات و رسائل کی بقاء ہوگی۔
آزادی سے قبل برصغیر میں اردو رسائل کا بول بالا تھا۔ کئی بڑے شہر ادبی رسائل کے مراکز تھے۔ ان میں کراچی ، لاہور ، رام پور ، دلی ، لکھنو ، بھوپال ، کشمیر ، حیدرآباد ، اورنگ آباد ، پٹنہ ، الہ آباد وغیرہ ان شہروں سے بے شمار ادبی علمی رسائل نکلا کرتے تھے اور قارئین بھی ذوق و شوق سے پڑھتے تھے ۔ رسالہ چھپنے کی تھوڑی ہی دیر میں تمام کی نکاسی ہوجاتی تھی۔ اردو کے ادبی رسائل کے تعلق سے اب ویسی کشش دھن کیوں نہیں ہے۔ اردو کے بڑ ے ادبی رسائل جو اب ناپید ہوچکے ہیں، ان کا دوبارہ احیاء کیسے ہو۔ کئی ایک معیاری رسائل دم توڑچکے ہیں۔ ان کے مسدود و موقف ہونے کے کئی ایک وجوہات میں اصل وجہ مالی حالت ہے۔ کئی ایک معیاری ادبی رسائل مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوگئے یا ادبی صحافی کے انتقال کے بعد ان کی اولاد وراثتاً جاری نہ رکھ سکی ۔ کیسے رکھتی ، صحافیوں نے اور ادیبوں نے اپنی اولاد کی اردو میں تربیت ہی نہیں کی ہے ۔ کئی ایسے صحافی اور ادیب شاعر اساتذہ ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو اردو سے آراستہ پیراستہ نہیں کیا۔ اگر کرتے ہوتے تو ان کی علمی ادبی وراثت کو جاری رکھا جاتا ۔ ہم نے غفلت لاپرواہی برتی۔ اردو سے غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج اردو کے ادبی رسائل ایک ایک کر کے بند ہورہے ہیں ۔ اردو کا دانشور طبقہ خاموش ہے۔ ہونی کو کیا کرتے سہہ کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔
اردو کے ادبی رسائل زبان و ادب کو نئی فکر ، نیا رجحان ، نیا مواد ، جدت و ندارت پر مبنی مشمولات عطا کرتے ہیں ۔ ان کا مواد بہتے پانی کے مانند ہوتا ہے جو صاف و شفاف بھی ہوتا ہے۔ اردو کے ادبی رسائل ہمیشہ سے زبان و ادب میں نئی چیز کو پیش کرتے رہے اور ناول داستان اور افسانہ لکھنے کا محرک بھی ادبی رسائل رہے ہیں ۔ تادم تحریر اردو کے ادبی رسائل کی دنیا سونی پڑی ہوئی ہے ۔ پہلے زمانے میں اردو والے اردو کے اخبارات و رسائل اور کتابوں سے ذوق و شوق کے حد تک دلچسپی رکھتے تھے اور ماحول میں پڑھنے کی عادت سی ہوگئی تھی ۔ لوگ ناول، افسانے ، پاکٹ سائز ناول کتابیںاور اخبارات و ادبی رسائل اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اُس دور کی زندگی کا لازمہ تھا ہر فرد کے ہاں کوئی کتاب یا میگزین ضرور ہوا کرتا تھا لیکن آج کل لوگوں کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر آگیا ہے اس لئے کتابیںا ور رسائل خریدنے کا رواج کم ہوگیا ہے جو رسائل نکل رہے ہیں وہ بھی باقاعدہ نہیں ہے بہرحال اردو کے ادبی رسائل جو نکل رہے ہیں ، وہ آکسیجن پر ہے ، اگر یہ آکسیجن بند ہوجائے تو ادبی رسائل کی دنیا فوت ہوجائے گی اور ایسا عمل زبان و ادب کیلئے خسارہ کے سواء کچھ نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے ، لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں ۔ عالم گیریت اور عالمی سطح پر تبدیلیوں نے لوگوں کی طرز فکر کو متاثر کیا ہے ۔ اب ہر چیز معاشرہ سماج کے فوری فائدے کے لئے ہوتی ہے ، صارف صارفیت کا ماحول پر دور دورہ ہے ، ادبی رسائل معاشرہ کیلئے کس حد تک فائدہ مند ہیں اور سماجی مطالبات تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں ۔ ان نکات پر غور کرنا ہوگا ۔ وہی رسالہ زندہ رہتا ہے جو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور عصری ٹکنالوجی ، انٹرنیٹ کمپیوٹر سے مربوط ہو ۔ ادبی رسائل کی بقاء و ترقی کیلئے ہمارے دانشوروں کو لائحہ عمل طئے کرنا ہوگا ۔ منصوبے بنائیںکہ کس طرح ان کو زندہ آباد رکھا جاسکتا ہے۔
پروفیسر ارتضا کریم مدیر ماہنامہ اردو دنیا ماہ جون 2016 ء ہماری بات اداریہ میں ادبی رسائل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ادبی رسائل کی عمومی راہ وروش کچھ ایسی ہے کہ وہ کچھ ایسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جن کی موجودہ عہد میں کوئی معنونیت نہیں ہے ۔ اب نئے عہد کے تقا ضے تبدیل ہوچکے ہیں اس لئے لازمی ہے کہ ان مسائل پر خاص طور پر رسائل کو مرکوز کیا جائے جو ہماری موجودہ معاشرت ثقافت اور سیاست سے متعلق ہو اور جس سے معاشرتی ترقیات کی تصویر سامنے آتی ہو ۔ مغرب میں بھی تخلیق اور تحقیق کا منہج تبدیل ہوا ہے اور یہ تبدیلی خوش گوار ہے کہ وہ ان مسائل پر مرکوز ہے جن کا انسانی زندگی سے بنیادی رشتہ ہے ۔ پرانے زمانے کے کچھ رسائل انسانی زندگی کے تمام تر معاملات اور مسائل پرمحیط ہوا کرتے تھے ۔ سائنسی سماجی اور تاریخی علوم پر بیش قیمت تحریریں شائع ہوتی تھیں ، ان رسائل میں ایک طرح کا تنوع تھا جس میں مختلف ذہنی سطح کے قارئین کے ذوق کی تسکین کا سامان موجودتھا ۔اب ادبی رسائل کواپنا انداز نظر تبدیل کرناچاہئے ۔ یہ تبدیلی وقت اور معاشرہ کی ضرورت ہے ۔ یعنی اردو کے ادبی رسائل اپنا چولہ بدلے اور بدلتے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوجاتے اور سماج اور معاشرہ جو چاہتا ہے اسے پیش کرتے، ادبی نظریات مباحث کے علاوہ عام قاری کے جذبات کو ملحوظ رکھے یعنی رسالے کو تمام قسم کے علوم و فنون کا منبع و مرکز بنائیں لیکن ادبی رسائل کا ہمیشہ جو مسئلہ تھا وہی مالی بحران ہے۔ کئی ایک رسائل مالی و معاشی کسمپرسی کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں ۔ ان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب جو رسائل ادارہ ، ٹرسٹ ، تنظیموں کی جانب سے شائع ہورہے ہیں، ان کی بھی بکری یا نکاسی نہیں ہورہی ہے ۔ میری یہ تجویز کہ جتنے اردو کی روٹی کھانے والے ہیں ، ان کو ا یک رسالہ خریدنے کی تاکید و نصیحت کی جائے یا متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ افسروں سے ہدایات جاری کی جائیں۔ محکمہ تعلیم میں سرکاری اسکول سے لیکر جامعات تک سب کو رسائل خریدنے کیلئے احکامات جاری کئے جائیں۔ ایسے عمل میں اردو زبان و ادب اور ادب رسائل کی بقاء ہوگی ۔ بہرحال جو ادبی رسائل جاری ہیں ، ان کو بچانا ضروری ہے ۔ جناب جمیل نظام آبادی مدیر ماہنامہ گونج میں ادارۂ اردو کی ادبی صحافت سے اردو والوں کی غفلت صفحہ 2 پر یوں رقم طراز اردو کی ادبی صحافت نے اردو زبان کی ترقی و ترویج میں بڑا اہم حصہ ادا کیا ہے ۔ آزادی کے بعد سے ملک میں ایسے کئی اہم اور معیاری ادبی رسالے شائع ہوتے رہے جن سے ادبی صحافت کو نہ صرف اہم مقام ملا تھا بلکہ ان رسالوں میں شائع مضامین نظم نثر کو اردو والے بڑی اہمیت سے دیکھتے اور ان کی قدر کرتے تھے۔ اردو والوں کو ہر ماہ ان رسائل و جرائد کا انتظار رہتا تھا لیکن الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کے بعد اور خاص طور پر کمپیوٹر اور ٹی وی کے عام ہونے کے بعد سے آہستہ آہستہ اردو کے پرنٹ میڈیا کو زوال کا شکار ہونا پڑا اور آہستہ آہستہ کئی مشہور معیاری اور اہم رسائل و جرائد بند ہوتے گئے اور اب انٹرنیٹ کے فروغ فیس بک کے عام ہونے کے بعد اردو کے رہے سہے رسائل بھی اردو والوں اور خاص طور پر اردو کے قلم کاروں کی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہونے لگے۔
یہ صرف گونج کی آواز نہیں ہے ۔ ہندوستان سے نکلنے والے بڑے سے بڑے چھوٹے سے چھوٹے رسائل و جرائد کی پکار ہے۔ سب رسائل ان حالات سے گزر رہے ہیں۔ ماہنامہ شاعر کا انجام بھی یہی ہوگیا ہے اور دیگر رسائل بھی اردو والوںکی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان باتوں پر اردو کے دانشوروں کو غور کرنا چاہئے ۔ خدانخواستہ اگر کل جو ادبی رسائل نکل رہے ہیں تو ان کا انجام بھی اگر یہی ہوگیا تو اردو کبھی اردو والوں کو معاف نہیں کرے گی ۔ اردو کے ادبی رسائل کی بقاء ترقی ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ اردو والے صدق دل سے ان رسائل کا ساتھ دیں اور نہ صرف ریاست بلکہ پورے ہندوستان میں جیسے اردو اسکول ، کالجس جامعات ہیں ان کے سربراہ اور صدور بجٹ منظور کروا کر منگواتے ہیں تو رسائل زندہ رہ سکتے ہیں۔ آج وقت کی ضرورت ہے کہ اردو کے ادبی رسائل کو اردو کا تعاون لازمی طور پر ہونا ضروری ہے ۔ اردو کے ادبی رسائل کا موقوف ہونا اردو تہذیب و تمدن اقدار کا خاتمہ ہے اسلئے اردو زبان کو زندہ پائندہ رکھنے کیلئے اردو اخبارات اردو کے ادبی رسائل کو زندہ رکھنا ہر اردو والے کا فرض بنتا ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے