ادبی ایدی پن

ڈاکٹر مجید خان

اردو زبان اور پاکستان کی روزمرہ کی زندگی
کسی نے اس تعلق سے لکھا ہیکہ
’’اب اردو کیا ہے ایک کوٹھے کی طوائف ہے ۔ مزہ ہر ایک لیتا ہے ۔ محبت کم کرتے ہیں‘‘

اس بیان سے متاثر ہو کر ایک اور صاحب نے پاکستان میں اردو کے روزمرہ کے استعمال کے تعلق سے اپنے تاثرات کا یوں اظہار کیا ہے ۔ جس طرح سے ہمارا نوجوان طبقہ اردو زبان اور خاص طور سے اردو ادب سے دوری اختیار کررہا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے لکھا ہیکہ میں نے لاہور گرامر اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کی اور مجھے دکھ ہوتا تھا یہ دیکھ کر کہ بیشتر طلبا اردو اخبارات کی سرخیاں بھی پڑھ نہیں سکتے تھے ۔ تعجب اس بات کا ہوتا ہیکہ اردو کا پڑھنا لازمی تھا ۔ ایک اور واقعہ کا انہوں نے بہت افسوس کے ساتھ ذکر کیا ۔ شعبۂ اردو میں دو مشہور اردو کی ہستیوں کو مدعو کیا گیا تھا ایک تو تھے ڈاکٹر جاوید اقبال جو علامہ اقبال کے صاحبزادے تھے اور دوسرے ایک نامور صحافی عطاء الحق قاسمی جن کو مختلف اوقات میں بلایا گیا تھا ۔ ان دونوں جلسوں میں صرف 50 شرکاء تھے ۔ جس یونیورسٹی میں 4000 طلباء زیر تعلیم ہیں وہاں پر صرف 50 طلباء کی شرکت ایک تاریخی المیہ سے کم نہیں ۔ یہ حشر لاہور کا ہے ۔ دوسرے پاکستانی مقامات کو تو بھول جایئے وہاں پر پنجابی ، سندھی وغیرہ کی اہمیت کو کم کیسے کیا جاسکتا ہے ۔ اردو کی وہاں پر کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

یہ اس ملک کا حال ہے جس کی قومی زبان اردو ہے ۔ اردو کے شیدائی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ چونکہ اردو پاکستانی قومی زبان ہے اس لئے اس سرکاری سرپرستی سے وہ پروان چڑھے گی وہ سراسر غلط ثابت ہوا ۔ ایک اور خبر اردو ایڈیشن اخبار ڈان میں شائع ہوئی تھی ۔ ایک اسکول کی اردو معلمہ کے علم میں یہ بات آئی کہ ایک لڑکی کی ماں نے یہ کہا کہ اردو نوکروں کی زبان ہے ۔ یہ بھی لاہور ہی کا واقعہ ہے ۔ اس معلمہ نے تکلیف اٹھا کر ان موصوفہ سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ جی ہاں میں یہ مانتی ہوں کہ اب اردو زبان کا استعمال نوکروں سے بات چیت کی حد تک رہ گیا ہے ۔ آپ لڑکیوں سے کہتی ہیں کہ وہ آپس میں اردو زبان میں گفتگو کریں تو وہ کرتی نہیں ہیں اور آپ ان پر خفا ہوتی ہیں ۔ اسلئے میں نے اپنی لڑکی سے کہا ہیکہ آپ کی جماعت کی حد تک وہ اردو میں گفتگو کرنے کی کوشش کرے ۔ قومی زبان کا اعزاز ہونے کے باوجود اگر اردو زبان کی یہ عزت و وقعت ہو تو اس ملک میں اس کا کیا مستقبل ہونے والا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

خیر یہ رہی بات پاکستان کی ۔ میں اردو کی بقا کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہوں گا حیدرآباد کے تناظر میں ۔ 10 سال پہلے میں بھی اردو کے تعلق سے ناامید ہوگیا تھا ۔ حیدرآباد کی حد تک تو میں کہہ سکتا ہوں کہ اردو کا مستقبل اتنا تاریک نہیں ہے جتنا کہ پاکستان میں نظر آرہا ہے ۔ جب میں چند سال قبل لاہور گیا تھا تو وہاں کے اردو اخبارات پڑھ کر مجھے رونا آیا کرتا تھا ۔ مشہور اخبارات اپنے اخبارات میں بے حساب انگریزی الفاظ کا بے دھڑک استعمال کرتے ہیں ۔ جس کو میں انتہائی معیوب سمجھتا ہوں ۔ حیدرآباد کے اردو اخبارات کی صورت شکل دیکھئے کتنے جاذب اور خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ان کو سجایا گیا ہے اور کسی قسم کا بے ڈھنگا پن ان میں نظر نہیں آتا بجز اسکے پاکستانی اردو اخبارات بہت ہی بے ترتیب ہوتے ہیں ۔ یہاں کی طرح خوشنما اور خوش اسلوب نظر نہیں آتے ۔ بالفاظ دیگر بدنما اور گچ پچ نظر آتے ہیں ۔ غالباً وہاں کے اردو صحافی خوش پوشاکی کی طرف توجہ نہیں دیا کرتے ہیں ۔ کیا یہ لاپروائی ہے یا بے اعتنائی یا صحافی ایدی پن ۔
مگر میری اصلی شکایت اردو صحافیوں سے ہے جو بلا جھجک انگریزی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔

میں اپنے آپ کو اہل زبان تو کہہ نہیں سکتا مگر اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میری سوچ میں انگریزی زبان زیادہ غالب ہے مگر میں اپنے مضامین میں جہاں تک ہوسکے انگریزی الفاظ کے استعمال سے گریز کرتا ہوں بلکہ یہ سمجھئے کہ میری حد تک میں اس کو گناہ سمجھتا ہوں ۔ خوشی کی بات یہ ہیکہ اخبار سیاست میں بے دھڑک انگریزی اصطلاحات کم استعمال ہوتے ہیں ۔ ادارے کو چاہئے کہ وہ لکھنے والوں سے درخواست کریں کہ جہاں تک ہوسکے انگریزی الفاظ نہ استعمال کریں ۔ مضمون نگار تعلیم یافتہ اردو داں حضرات ہیں اور اکثر انگریزی داں بھی ہیں اور تھوڑی سی جستجو کے بعد متبادل اردو ترجمہ مل ہی جاتا ہے ۔ ترجمہ نہ سہی ، قریبی الفاظ جو اس مطلب و مفہوم کی ترجمانی کرسکتے ہیں وہ معذرت کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے ۔ ورنہ یہ عادت اگر بڑھ جائے تو اس ابدی ایدی پن کی وجہ سے زبان ٹھٹھر جائے گی جیسا کہ ہورہا ہے ۔ نئے اصطلاحات اور نئے طرز بیان کو متعارف کرانے سے مت جھجکئے ۔ خیر یہ تو میرے نجی تاثرات ہیں مگر مرکزی سوال اردو کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے ۔ پرانے اصحاب سے جب میں ملتا ہوں جو اردو پرست ہیں وہ لوگ تو ایسا معلوم ہوتا ہیکہ ہمت ہار گئے ہیں ۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ صاحب کون اردو پڑھتا ہے ۔ اردو پڑھنے والوں کی کمی ہوگئی ہے ۔ اس زبان کا کوئی تابناک مستقبل نہیں ہے ۔

مجھے اختلاف ہے ۔ گذشتہ دس سال میں جو ترقی میں نے اردو زبان کے پھیلاؤ میں دیکھی ہے وہ ناقابل یقین ہے ۔ اور یہ محض Digital Technology کی وجہ سے ہے ۔ یہاں پر آکر مجھے انگریزی زبان کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے ۔ اسکا موزوں ترجمہ میں نہیں کرسکتا ۔ جیسا کہ میں نے اس سے قبل لکھا ہیکہ عربی زبان ہی ایک ایسی زندہ زبان ہے جس میں آناً فاناً ترجمہ مہیا کردیا جاتا ہے ۔
میرا اشارہ کمپیوٹر اور اس کی نئی نئی عقلی اختراعات کے انقلاب کی طرف ہے ۔ پہلے سیل فون متعارف ہوا اور اکثر لوگ بس اسکے استعمال کی حد تک اپنی معلومات محدود کرچکے ہیں ۔ سیل فونس کی دوسری صلاحیتوں سے نہ صرف بے بہرہ ہیں بلکہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے ۔

چند لوگ ، مجھ جیسے بے چین پتلے اسکے پیامات بھجوانے کی سہولتوں کے ہر پہلو کا استعمال کرتے ہیں اور کئی مفت میں ہیں ۔ بعض سیل فورنس کو اتنے شاطر ہیں کہ جیسے آپ کچھ پیام لکھ رہے ہیں تو وہ آپ کے مقصد کو بھانپتے ہوئے تین متبادل الفاظ اسکرین پر لادیتے ہیں ۔ لفظ اسکرین کیلئے معذرت پر وہ استعمال کرنا چاہئے تھا ۔ اردو کی خدمت جو کمپیوٹر نے کی ہے وہ اسکی بقا کی ضامن ہے ۔ مثال کے طور پر تقریباً تمام شعراء کے کلام کہیں نہ کہیں محفوظ ہیں ۔ بے حساب اردو کے لغات کئی زبانوں میں انگلی کے دبانے سے آپ کے کمپیوٹر کے پردے پر آجاتے ہیں اور اب تو سیل فونس پر بھی آجاتے ہیں ۔ یہ انقلاب جاری و ساری ہے ۔ اردو انگریزی لغات میں آپ بھی اپنے تجاویز پیش کرسکتے ہیں ۔

جب کبھی میری ملاقات ظہیر الدین علی خان صاحب روزنامہ سیاست سے ہوا کرتی ہے تو اس ترقی کی سمت کے تعلق سے میری معلومات میں اور اضافہ ہوتا ہے اور وہ نئے نئے پروگرامس کا ذکر کرتے ہیں جو اردو کے استعمال کو لافانی کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی تامل نہیں ہوتا کہ سیاست اخبار کا جو رول رہا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔

اردو کے کارواں کا سفر اب روکے نہیں رک سکتا ۔ کمپیوٹر کی ناقابل یقین صلاحیتیں اس کو اسی مقام پر پہنچاسکتی ہیں جس پر مروجہ و مقبول زبانیں پہنچ چکی ہیں ۔ سب کی خوشی کی بات تو یہ ہیکہ اردو اب انگریزی زبان سے مربوط ہوچکی ہے اور اس کی ترقیاتی خدمت میں انگریزی کے شانہ بشانہ شروع ہوگئی ہیں ۔ اردو کا رومن رسم الخط بھی بڑا مفید ثابت ہورہا ہے ۔ لوگ لکھیں یا نہ لکھیں اردو میں گفتگو کرنا ہی کافی ہے ۔ فرض کیجئے اگر اردو عربی زبان سے ٹکنیکی اور فنی طور پر مربوط ہوجاتی تو اتنی ترقی نہیں ہوسکتی ۔ سوشیل میڈیا وغیرہ بھی اسکے استعمال کو عام اور آسان بنارہے ہیں ۔ میری صرف اتنی درخواست ہیکہ اہل زبان نئے اصطلاحات کا استعمال اپنے خیالات کی واضح ترجمانی کیلئے کریں ۔ اس ترقی کیلئے وہ اردو داں حضرات ذمہ دار ہیں جو دوسرے ممالک میں رہتے ہوئے بھی اسکی صحیح خدمت کررہے ہیں ۔ کسی بھی شعر کے پہلے دو الفاظ لکھئے اور دیکھئے کتنے اشعار آپ کے کمپیوٹر کی اسکرین پر آجائیں گے ۔ کیا اب بھی کسی کو اردو کی بقا کے تعلق سے تشویش ہوسکتی ہے ۔ ؟