اداسی تم پہ بیتے گی تو تم بھی جان جاؤگے کہ کتنا درد ہوتا ہے نظرانداز کرنے سے

سید جلیل ازہر
پیش نظر عنوان پر کچھ لکھنے سے پہلے اگر ہم دنیا کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آج کا انسان خود کو ترقی یافتہ دور کا انسان کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ دنیا کے بشیتر ممالک علمی، صنعتی اور معاشی ترقی میں بام عروج تک پہنچنے کیلئے کوشاں ہے۔ کوئی خلائی میدان میں کامیابی حاصل کررہا ہے تو کچھ ممالک معاشی تحقیقات پر بے شمار دولت خرچ کررہے ہیں لیکن افسوس اس ارتقائی دور کے لوگ غریبی اور بھوک پیاس سے بلک رہے معصوموں پر تحقیق کرکے کوئی حل نہ نکال سکے۔ آخر یہ کیسی ترقی ہے؟ کیونکہ آج غریب معصوموں کی داستانیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ایسی بات نہیں کہ لوگ خیرخیرات کے معاملہ میں بہت آگے ہیں بلکہ غریبوں کے دکھ درد کو سمجھنے والی نئی نسل ہوٹل میں کھانے کے بعد جو بچا ہے اس کو پارسل کرواکر راستہ میں غریب کا خیال رکھتے ہوئے رزق کو بیکار ہونے نہیں دے رہے ہیں تو دوسری طرف دردناک پہلو یہ ہیکہ خیرخیرات کے حصول کیلئے نت نئے طریقہ استعمال کرتے ہوئے کوئی معذور ہونے کی اداکاری کررہا ہے تو کوئی آنسو بہا کر اگلے والے کو متاثر کررہا ہے اس لئے کہ لوگ
میرا لہجہ میری باتوں کا اثر دیکھتے ہیں
بھیک دینے میں بھی لوگ اب ہنر دیکھتے ہیں
اس لئے ضروری ہیکہ اس مقدس ماہ رمضان المبارک میں اپنی زکوٰۃ ، صدقات ان مستحقین تک پہنچانے کی کوشش کی جائے جو خودداری کے سبب غربت میں بھی اپنی پریشانی کا اظہار نہیں کرپاتے۔ راقم الحروف کے مطالعہ میں ایک واقعہ نے دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس لئے میں نے اس واقعہ کو مضمون کی شکل دیتے ہوئے قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے کہ سماج میں ایسے کتنے معصوم بے جان زندہ لاش کی مانند اپنی زندگی کا سفر طئے کررہے ہوں گے واقعہ اس طرح ہے۔
ایک آٹھ سال کا بچہ مسجد کے ایک طرف کونے میں اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ پاک سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا؟
کپڑوں میں پیوند لگا تھا مگر نہایت صاف تھے۔ بہت سے لوگ اسی کی طرف متوجہ تھے اور وہ معصوم بے خبر اللہ پاک سے باتوں میں لگا ہوا تھا۔
جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کر اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا اللہ سے کیا مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے ابو مر گئے ہیں ان کے لئے جنت۔ میری امی ہر وقت روتی رہتی ہے اس کے لئے صبر۔ میری بہن ماں سے کپڑے مانگتی ہے اس کے لئے رقم۔ اجنبی نے سوال کیا۔ کیا آپ اسکول جاتے ہو؟ بچے نے کہا ہاں جاتا ہوں۔ اجنبی نے پوچھا کس کلاس میں پڑھتے ہو؟ نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا ماں چنے بنادیتی ہے، وہ اسکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں۔ بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں۔ ہمارا یہی کام دھندا ہے۔ بچہ کا ایک ایک لفظ اس اجنبی کی روح میں اتر رہا تھا۔ اس بچہ کی آنکھوں کی ویرانی میں چھپے ہوئے درد نے اجنبی کے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کی دبی دبی سسکیاں، آنکھوں کے حصار کو توڑ کر آنسوؤں کو نکلنے پر مجبور کررہی تھیں۔ اجنبی نے پوچھا تمہارا کوئی رشتہ دار اجنبی نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھا؟ معصوم نے بے ساختہ کہا کہ امی کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ امی کبھی جھوٹ نہیں بولتی لیکن انکل جب ہم کھانا کھارہے ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں امی آپ بھی کھانا کھالو تو وہ کتہی ہیں میں نے کھا لیا ہے۔
اس وقت لگتا ہے وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ بیٹا اگر گھر کا خرچ مل جائے تو تم پڑھوگے؟ بچہ بالکل نہیں کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا، پاس سے گذر جاتے ہیں۔ اجنبی حیران بھی تھا پریشان بھی۔ پھر اس نے کہا کہ ہر روز اس مسجد میں آتا ہوں کبھی کسی نے نہیں پوچھا جبکہ یہاں آنے والے تمام میرے والد کو جانتے تھے مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا۔
بچہ اس قدر زور زور سے رو رہا تھا جیسے پرندہ قفس میں پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہے اور کہنے لگا انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی بن جاتے ہیں۔ اجنبی کے پاس بچے کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ ایسے کتنے معصوم ہوں گے جو حسرتوں سے زخمی ہیں۔ بس اس مقدس ماہ میں ایک کوشش کی جائے اور اپنے اردگرد ایسے ضرورت مند یتیموں اور بے سہارا کو ڈھونڈیئے اور ان کی مدد کیجئے۔ مدرسہ یا مساجد میں اناج کے تھیلے ضرور پہنچائے لیکن پہلے اپنے آس پاس کسی غریب کو دیکھ لیں کیونکہ غریبی میں گھٹ گھٹ کر مرنے والوں کی طرف بہت کم لوگ توجہ دے رہے ہیں۔ ہر باشعور اپنے زمین میں انقلابی تبدیلی لاتے ہوئے یہ سونچ لے کہ کسی غریب کی مدد کرکے یہ مت سوچو کہ تم اس کی دنیا سنوار رہے ہو یہ سوچو کہ وہ غریب آپ کی آخرت سنوار رہا ہے کیونکہ بزرگوں کا قول بھی ہے کہ زندگی کو رمضان جیسا بنالو تو موت عید جیسی ہوگی۔ آج غریب یہ سوچ کر مررہا ہیکہ
یہاں غریب کو مرنے کی اس لئے بھی جلدی ہے صاحب
کہیں زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہوجائے
سر سے باپ کا سایہ گذر گیا اور معصوم غریب کے زمین سے قبرستان کا خوف نکل گیا۔ وہ یہ سوچ کر بڑے فخر سے کہتا ہے کہ مجھے قبروں سے ڈر نہیں لگتا میرے ابو وہیں رہتے ہیں۔ سماج کے صاحب استطاعت غریب نادار کی مدد کے ساتھ ساتھ ان کو اس بات کا احساس دلائیں کے صبر رکھو خوشیاں نہیں ٹھہریں تو غم کی کیا اوقات ہے۔ آج ماہ رمضان کے پیش نظر عبادت گاہوں کے پاس عطیات، صدقات کے حصول کیلئے کئی غیرمقامی سفیروں کی قطاریں ہیں کوئی مدرسہ کی عمارت تعمیر کرنے کی غرض سے رجوع ہورہا ہے تو کوئی طلباء کی کفالت کے لئے جبکہ ہر محلہ ہر علاقہ میں یتیم یسیر بچوں کی کمی نہیں ہے بالخصوص صفا بیت المال جیسی انجمنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ادارہ کی جانب سے رمضان المبارک کا راشن غریب بیواؤں تک پہنچارہے ہیں اسی طرح اور کچھ وقت نکال کر ایسے معصوم غریب بچوں کے لئے نشاندہی کرتے ہوئے ان تک امداد پہنچائیں تاکہ غریب بے سہارا بھی خوشیوں میں شامل ہو کیونکہ فی زمانہ انسان اپنی سوچ کو بدل چکا ہے۔
چہرہ بتا رہا تھا کہ مارا ہے بھوک نے
سب لوگ کہہ رہے تھے کہ کچھ کھا کے مر گیا