اخلاقی اقدار کا فقدان

ڈاکٹر سید بشیر احمد
اگر ہم سابقہ دور کے اخلاقی اقدار اور موجودہ دور کے اخلاق اقدار کا جائزہ لیں تو ہم کو کل اور آج میں بڑا فرق نظر آئے گا ۔ پہلے استادء کا بڑا احترام کیا جاتا تھا اور آج کے دور میں بدقسمتی سے طلبہ اپنے استاتذہ کااحترام ملحوظ نہیں رکھتے ۔ بعض اوقات تو لوگوں کو اساتذہ اور طلباء میں فرق ہی نظر نہیں آتا ۔ خلافت عباسیہ کے دور کے مشہور خلیفہ ہارون رشید گزرے ہیں ۔ ان کو اپنے فرزند مامون رشید کی تعلیم کے لئے معلم کی ضرورت تھی ۔ اس دور کے ایک نامور معلم دربار خلافت میں اپنے کسی کام سے حاضر ہوئے تھے ۔ خلیفہ نے ان سے شہزادے کی تعلیم و تربیت کے لئے زحمت کی خواہش ظاہر کی ۔
معلم صاحب نے جواباً کہا کہ وہ شہزادہ کو حصول علم کے لئے ان کے مکان روانہ کریں ۔ خلیفۂ وقت کی خواہش تھی کہ معلم صاحب شاہی محل تشریف لاکر شہزادہ کو زیور علم سے آراستہ کریں ۔ معلم صاحب نے معافی چاہتے ہوئے کہا کہ پیاسا دریا کے پاس جاتا ہے ، دریا پیاسے کے پاس نہیں آتا ۔ اگر وہ واقعتاً انہی سے تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو وہ شہزادہ کو ان کے مکان بھجوایا کریں ۔ بادشاہ نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ کم سے کم دوسرے طلبہ کو علحدہ تعلیم دی جائے اور شہزادہ کو علحدہ ۔ معلم صاحب نے خلیفہ کی تجویز کو رد کرتے ہوئے کہاکہ وہ طلباء میں تفریق کرنے سے قاصر ہیں۔ خلیفہ کچھ رد و قدح کے بعد شہزادہ کو معلم صاحب کے پاس روانہ کرنے پر راضی ہوگئے ۔

ایک بار خلیفہ کی سواری اتفاق سے معلم صاحب کے مکان کے قریب سے گزر رہی تھی ۔ اس وقت معلم صاحب وضو کررہے تھے اور شہزادہ ان کے پیروں پر پانی ڈال رہا تھا ۔ یہ منظر دیکھنے کے بعد خلیفہ نے سواری رکوائی اور غیظ و غضب کی حالت میں سواری سے اترا ، اس وقت بادشاہ کے ہاتھ میں ہنٹر بھی تھا ۔ لوگ خوف زدہ ہوگئے اور سمجھے کہ اب معلم صاحب کی خیر نہیں ہے ۔ بادشاہ معلم صاحب کے قریب پہنچا اور شہزادہ کو سخت تنبیہ کی اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے پیر دھوتا ۔ دیکھا آپ نے عہد ماضی میں استاد کا کیسا احترام ملحوظ رکھا جاتا تھا ۔
ذیل میں ایک اور واقعہ قلمبند کیا جاتا ہے جس سے کل اور آج میں تعظیم استاد کا نمایاں فرق نظر آتا ہے ۔ ایک صاحب تصرف بزرگ اکثر وعظ فرمایا کرتے تھے ۔ان کا معمول تھا کہ وہ بیٹھ کر وعظ کیا کرتے اور ان کے عقیدت مند نہایت احترام سے ان کو سنا کرتے تھے ۔ ایک دن ایسا ہوا کہ دورانِ وعظ حضرت قبلہ تین بار خلاف عادت ایستادہ ہوئے ۔ محفل کے اختتام پر آپ کے عقیدت مندوں نے اس عمل کی وجہ دریافت کی ۔ حضرت نے فرمایا کہ ان کے پیر و مرشد جن سے انہوں نے تعلیمات حاصل کی تھیں ، ان کے گھر کے قریب گلی میں رہنے والے کتے کا ہم رنگ کتا گزر رہا تھا ، اس کے احترام میں وہ کھڑے ہوگئے ۔ دیکھا آپ نے اور کہئے کہ آج اس قدر استاد کی تعظیم کی کوئی مثال نظر نہیں آتی ہے؟
ذیل میں راقم الحروف کوئی حکایت نہیں بلکہ عینی مشاہدہ پیش کرتا ہے ۔ آج سے تقریباً ربع صدی پہلے ایک مشہور بزرگ حضرت سید عبداللہ شاہ صاحبؒ گزرے ہیں ۔ ایک بار ایک صاحب بیعت کی سعادت حاصل کرنے حضرت کے پاس حاضر ہوئے اور اپنا مدعا عرض کیا ، حضرت نے ارشاد فرمایا کہ وہ وضو کرکے آئیں ۔ وہ صاحب وضو کرکے حاضر ہوئے ۔ انہوں نے دبے الفاظ میں عرض کیا کہ ان کو بادہ نوشی کی اجازت کے ساتھ داخلہ سلسلہ کیا جائے ۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ساتھ ایک شرط یہ ہوگی کہ وہ یہ وعدہ کریں کہ ان کے روبرو وہ کبھی بادہ نوشی کی جرأت نہیں کریں گے ۔ وہ صاحب بخوشی راضی ہوگئے اور تکمیل بیعت کے بعد اپنے مکان روانہ ہوئے ۔ حسب عادت مئے نوشی کے لئے میز پر سارے لوازمات جمالئے ۔ جب انہوں نے گلاس میں شراب انڈیلی تو انہوں نے حضرت کا عکس گلاس میں دیکھا اور لرزہ بہ اندام ہوگئے اور اس طرح برسوں کی لعنت سے ان کو چھٹکارا ملا ۔ یہ تھے باتصرف بزرگ کے اذکار ۔ اب ایک اور خود ساختہ بزرگ کا احوال ملاحظہ فرمایئے ۔

راقم الحروف 1960 میں بحیثیت سب انسپکٹر پولیس فرائض انجام دے رہا تھا ۔ چارمینار پر جناب پدّا ریڈی صاحب بحیثیت اے سی پی کارگذار تھے ۔ ایک بار ایک خاتون ان کے پاس آئی اور اپنی دکھ بھری روداد سنائی ۔ میں اتفاق سے کسی کام سے ان کے ہاں گیا تھا ۔ میں یونیفارم میں تھا ۔ اس وقت بشرٹ کے اوپری حصہ میں دو جیب اور نچلے حصہ میں دو بڑے تھیلی نما جیب ہوا کرتے تھے ۔ راقم الحروف کسی ملزم کی گرفتاری کے سلسلہ میں نچلے جیب میں ہتھکڑی رکھا ہوا تھا ۔ جناب پدّا ریڈی صاحب نے مجھ سے کہا کہ اندر ایک خاتون بیٹھی ہوئی ہیں ان سے ذرا بات کرو ۔ تعمیل حکم میں اس خاتون سے دریافت کیا کہ ان کو کیا شکایت ہے جواب میں اس خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ شاہ علی بنڈہ کے آگے ایک خود ساختہ بزرگ رہتے ہیں ان کی شہرت سن کر وہ خاتون اپنا مدعا لے کر ان بزرگ کے پاس گئی اور ان سے مدد کی طالب ہوئی ۔ انہوں نے خاتون سے تین ہزار روپئے حاصل کرلئے لیکن ایک سال گزر گیا ، واقعات میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی جس پر اس خاتون نے اپنے حالات کا اظہار کرتے ہوئے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا ، خود ساختہ بزرگ نے خاتون سے کہا فکر مت کرو آسانی سے معاملہ رفع ہوجائے گا ۔ اس کے لئے وہ اس خاتون کے منہ میں زبان رکھ کر کچھ پڑھنا چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کوئی خاتون ایسی بے شرمی کی حرکت کے لئے آمادہ نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے وہ واپس ہوگئی اور چاہتی تھی کہ اس کی رقم اس کو واپس مل جائے ۔ راقم الحروف نے اس خود ساختہ بزرگ کامکمل پتہ لکھ کر پدّا ریڈی صاحب کو ساری روداد سنائی ۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس خصوص میں کوشش کی جائے ۔

میں خاتون سے حاصل کردہ پتہ پر پہنچا ۔ ایک بڑے ہال میں وہ بزرگ بڑی متانت سے تشریف فرما تھے ۔ ان کے اطراف ان کے کچھ عقیدت مند بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ جونہی میں ہال میں داخل ہوا ان حضرت نے بہ آواز بلند ’’السلام علیکم‘‘ کہا۔ میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ وہ ازراہ مہربانی دو منٹ تخلیہ میں زحمت فرمائیں ۔ جواب میں انہوں نے بڑی گرجدار آواز میں کہا کہ ’’یہ فقیر کا دربار ہے اور جو کچھ کہنا ہے وہیں پر کہا جائے‘‘ ۔ میں بڑا پریشان ہوا اور بیٹھنے کے خیال سے جھکا ، ہتھکڑی کا کچھ حصہ نیچے کی جیب سے باہر آیا ، جیسے ہی حضرت کی نظر ہتھکڑی پر پڑی ان کے رویہ میں تبدیلی پیدا ہوئی اور انہوں نے راقم الحروف سے اندرونی کمرے میں آنے کو کہا ۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو موصوف نے وجہ آمد دریافت کی ۔ راقم الحروف نے ان کو تفصیل سے اس خاتون کی شکایت کا ذکرکیا ۔ اس خاتون کی گریہ وزاری خداوند کریم کی رحمت کو جوش پر لانے کا باعث بنی اور وہ صاحب اندر جا کر تین ہزار روپئے لوٹادیئے ۔ اس واقعہ پر غور کریں تو ہم کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ اخلاقی اقدار کے فقدان سے زندگی کے ہر شعبہ میں کتنی منفی نمایاں تبدیلیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔