رام پنیانی
کتابوں پر پابندی عائد کرنا، پاکستانی کرکٹ ٹیم اور پاکستانی گلوکاروں کی مخالفت پر اتر آتا ہندوستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے اس ملک میں شیطانی کلمات پر پابندی عائد ہوتے دیکھی، ہند ۔ پاک میچ کی مخالفت کیلئے ممبئی کے وانکھیڈے اسٹیڈیم کی پچ کو بعض عناصر کی جانب سے کھودتے ہوئے بھی دیکھا ، یہاں تک کہ ممبئی میں غلام علی کے غزل پروگرام میں خلل اندازی کا بھی مشاہدہ کیا ۔ ایسے کئی واقعات ہمارے علم میں ہیں یا ہم ان واقعات سے اچھی طرح واقف ہیں۔
حالیہ عرصہ کے دوران عدم برداشت کی شدت میں پڑی تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس مرتبہ جس موسیقی ریز پروگرام کو نشانہ بنایا گیا ، وہ کرناٹکی موسیقار ٹی ایم کرشنا کا پروگرام تھا ۔ ایرپورٹ اتھاریٹی آف انڈیا اور Spic Macay نے مشترکہ طور پر اس پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔ منتظمین کو یہ دھمکی آمیز پیغامات وصول ہوئے تھے کہ کس طرح ایک ہند۔دشمن ایک شہری نکسل اور ایک متعصب شخص کے پروگرام کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ جس نے عیسیٰ ؑ اور اللہ کے بارے میں نغمہ گائے ہیں۔ دھمکیوں کے باعث ایرپورٹس اتھاریٹی آف انڈیا نے کرشنا کا پروگرام ملتوی کردیا ۔ تاہم ٹی ایم کرشنا نے اس تاریخ کو اپنی دستیابی دکھائی جس پر اسی دن دہلی کے حکمراں عام آدمی پارٹی نے کرشنا کے پروگرام کی میزبانی کا اعلان کرتے ہوئے پروگرام کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ اسے غیر معمولی طور پر کامیاب بھی بنایا ۔ اس پروگرام میں نہ صرف موسیقی کے شوقین اور ٹی کرشنا کے مداحوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ، ان شخصیتوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس پروگرام سے محظوظ ہوئی جو ایسی سیاست کی سخت مخالف ہیں جس کے نتیجہ میں ملک کے فراخدلانہ آزاد خیال جمہوری اقدار کی پامالی ہورہی ہے ۔ ٹی کرشنا کے موسیقی ریز پروگرام کو جس طریقہ سے نشانہ بنایا گیا۔ وہ دراصل نفرت کی اس سیاست کا ایک سلسلہ ہے، جسے ہم نے ماضی قریب میں دیکھا ہے ۔ یہ حملے دراصل ادباء ، شعراء ، مصنفین اور آرٹسٹوں کی جانب سے ایوارڈ واپسی کے جراتمندانہ اقدام کے ردعمل تھے، ایوارڈ واپسی کا جہاں تک سوال ہے وہ عدم برداشت پر مبنی کارروائیوں کے خلاف پہلی بڑی مزاحمت تھی جس کے باعث ہی ڈاکٹر نریندر دابھولکر ، کامریڈ گوئند پنسارا ، ایم ایم کلکرنی اور گوری لنکیش ظالمانہ و بہیمانہ انداز میں قتل کئے گئے۔ اُس وقت محمد اخلاق کی شکل میں ایک بے قصور انسان کو گاؤ رکھشکوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ۔ عدم برداشت کے واقعات پر احتجاج بلند کرتے ہوئے اودے پرکاش اور نائن تارا سہگل نے اپنے ایوارڈ و اعزازات واپس کردیئے جس کی تقلید کرتے ہوئے 50 دیگر ادیبوں ، شاعروں ، فلمی شخصیتوں اور سائنسدانوں نے بھی اپنے ایوارڈس بھی واپس کردیئے اور اس کے ذریعہ حکومت کو یہ احساس دلایا کہ ملک میں عدم برداشت کے خطرناک رجحان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس مدت کے دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ابھرتے ہوئے دلتوں، کو سماجی انصاف کی جدوجہد کرنے والے دلت طلباء پر بھی حملے کئے گئے اور یہ حملے روہت ویمولا جیسے دلت نوجوان طالب علم کے ادارہ جاتی قتل کا باعث بنے اور متوازی سطح پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر اس قسم کے حملے کروائے گئے ۔ جے این یو میں نعرے لگانے والے نقاب پوشوں کو نہیں پکڑا گیا ، ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی جبکہ کنہیا کمار اور ان کے ساتھی طلبہ کو نشانہ بنایا گیا ۔ انہیں قوم دشمن عناصر قرار دیا گیا اور طلباء کے اس گروپ کے خلاف لفظ قوم دشمن مسلسل استعمال کیا گیا۔
ان تمام کارروائیوں کا مقصد بہت واضح تھا۔ دراصل حکومت پر تنقید کرنے والوں کو ایک ملک دشمن، قوم دشمن کی حیثیت سے پیش کرنا اور ان کی شبیہ ایک دشمن کی طرح بنانا تھا ۔ اس طرح حکمراں جماعت کی پالیسیوں اور ایجنڈہ و اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو بھی ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے ۔ دوسری طرف بی جے پی کی سوشیل میڈیا پر مصروف فوج بھی جس طرح سرگرم نظر آتی ہے جس انداز میں وہ حکومت اور بی جے پی کے مخالفین کے بارے میں دروغ گوئی پر مبنی باتیں پھیلاتی ہیں۔ جھوٹ کا سہارا لیکر حکومت اور بی جے پی کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے ، اسے دیکھ کر تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ سنگھ پریوار میں بجرنگ دل طرز کی تنظیم کا ایک اضافہ ہے۔
جہاں تک ٹی ایم کرشنا کا سوال ہے ، وہ ایک غیر معمولی موسیقار ہیں ، وہ نہ صرف کرناٹکی موسیقی میں اہم و نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ وہ وقفہ وقفہ سے نسل پرستانہ قوم پرستی اور بڑھتے عدم تشدد کے خلاف اپنے خیالات ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ وہ موسیقی کی حقیقی روایات کے پاسدار ہیں اور ان روایات کی پاسداری کرتے ہوئے وہ گاندھی جی کے پسندیدہ بھجن (وشنو جنا) گاتے ہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت محمدؐ کے بارے میں بھی کلام سناتے ہیں اور اس قسم کی موسیقی بنیادی طور پر مقبول عام اور غالب تہذیب کی بنیاد پر ہوتی ہے اور موسیقی کسی بھی تنگ و تاریک سرحدوں کی پابند بھی نہیں ہوتی ۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں چند دہوں سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ اختراعی و تخلیقی صلاحیتوں کے حامل آرٹسٹوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور مذہب کی بنیاد پر انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ہماری ساری ہندوستانی تہذ یب مختلف و مذاہب سے آنے والی روایات کا مرکب ہے اور اس کا نقطہ عروج بالخصوص قرون وسطی کے دور میں دیکھا گیا، جب ہندوؤں اور مسلمانوں نے ان روایات کو مضبوط و مستحکم بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا جبکہ اس مختلف مذاہب کے ماننے والے کے درمیان پائے جانے والے اتحاد و اتفاق ہم آہنگی اور امتزاج کو بھکتی اور صوفی روایت میں اظہار کیا گیا ۔ ہمارے کھانے پینے کی عادت و اطوار ، ادب ، آرٹ اور آرکیٹکچر اس امتزاج کا نتیجہ ہیں۔
جواہرلال نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا میں ہماری تہذیب کے اس نمایاں پہلو کو بہت ہی اچھے انداز میں اجاگر کیا گیا ۔ تہذیبوں کے امتزاج ان میں غیر معمولی ہم آہنگی اور ایک دوسرے پر ان کے اثرات کی کئی پرتیں ہیں۔ جب تہذیبیں ملتی ہیں ، رابطہ قائم کرتی ہیں اور ایک بہترین شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور ان کی اپنی امتیازی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو بدلنے کے دوران بھی ہندوستان نے تہذیبی روایات کو برقرار رکھا ہے۔
بعض لوگ پگھلتے برتن کے ماڈل میں ایقان رکھتے ہیں۔ جہاں اس کی حقیقی خصوصیات یا امتیاز ایک یکساں شکل یا ایک ہی شکل میں ڈھل جاتی ہیں۔ ہندوستان سلاد کے کنورا کی مانند ہے اور اس سلسلہ میں اپنا منفرد و علحدہ مقام اور پہچان رکھتا ہے جس طرح ایک سلاد کے کٹورے میں انواع و اقسام کی سبزیاں پائی جاتی ہیں ، اسی طرح ہندوستانی تہذیب مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر مشتمل ہے ۔ ہمارے ملک میں جہاں بھکتی ، سنت بلا لحاظ مذہب و ملت تمام لوگوں میں کشش رکھتے ہیں ، اسی طرح صوفی بھی بلا لحاظ مذہب و ملت تمام کو متاثر کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صوفی سنتوں کے مزارات یا درگاہوں پر حا ضری دینے والے صرف مسلمان ہی نہیں ہیں ۔ ادب کے میدان اور رحیم و راس خان کے شری کرشنا کی نذر کئے جانے والے مذہبی گیت حیرت انگیز ہیں۔ ہمارے ملک کی اس مشترکہ تہذ یبی وراثت کی بہترین مثال ہندی فلم اور ٹیلی ویژن کی دنیا ہے ۔
ہندوستان میں کوئی بھی محمد رفیع صاحب کے گائے ہوئے بھجن ’’من تر پت ہری درشن کو آج (فلم بیجو باورا) یا انصاف کا مندر ہے یہ (فلم امر) اس طرح کے بین مذہبی تہذیبی اظہار کی ایک طویل فہرست ہے ۔ اس سلسلہ میں استاد بسم اللہ خاں ، استاد بڑے غلام علی خان کے فن سے روی شنکر اور شیو کمار شرما کا فن میل کھاتا ہے ۔ اس سلسلہ میں ہم صرف ایک مثال دیتے ہیں۔ وہ ہے موسیقی کی موجودہ دنیا کی اہم شخصحت اے آر رحمن کی مثال، ایک طرف اے آر رحمن پیا حاجی علی کی موسیقی تیار کرتے ہیں اور دوسری طرف ’’شانتاکرم بھوجناگ شپاتم جیسے گانے کی موسیقی ترتیب دیتے ہیں۔
اگر کرشنا حضرت عیسیؑ اور حضرت محمدؐ کی شان میں کلام گاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ حقیقتاً ہمارے تخلیقی و اختراعی صلاحیتوں کے حامل آرٹسٹوں کی خوبی ہے ۔ تعصب پسند و جانبدار اپنی تنگ نسلوں کے نتیجہ میں فن اور فنکار کی اچھائیوں کو نہیں دیکھ سکتے ۔ اس کیلئے ایک خصوصی نظر چاہئے اگر انسان ہر چیز کو مثبت نظر سے دیکھیں تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔ ہمارے ملک میں نسل و مذہبی منافرت پھیلانے کیلئے جو عناصر کوشش کر رہے ہیں ، وہ حقیقت میں وہی کام کر رہے ہیں جو افغانستان میں طالبان انجام دیتے آرہے ہیں۔
دوسری طرف ایرپورٹس اتھاریٹی آف انڈیا SPICMAY کے موسیقی ریز پروگرام کو دھمکیوں کے بعدملتوی کئے جا نے سے فرقہ پرست تنظیموں کی قبیل کی دوسری تنظیمیں بھی جارحانہ موقف احتیار کر رہی ہیں۔ دراصل پروگرام کو ملتوی نہیں کیا گیا تھا بلکہ اصل میں پروگرام کی منسوخی تھی ۔ دوسرے منتظمین نے اس منسوخ شدہ پروگرام کو میسور کے کوئمپو نگر میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن انہیں بھی کرشنا کا پروگرام منظم کرنے کے خلاف دھمکیاں دی گئیں اور ایسا ظاہر کیا گیا جیسے کرشنا ہندو مذہب کی توہین کر رہے ہوں۔ ان تمام حالات کے باوجود کرشنا کی ستائش کی جانی چاہئے کہ انہوں نے واضح کردیا ہے کہ موسیقی کی کوئی سرحد ، کوئی ملک ، کوئی مذہب یا زبان نہیں ہوتی ۔ وہ کہتے ہیں کہ موسیقی تو دننیا بھر میں گونجتی ہے اور تمام انسانیت کو اپنی جانب راغب کرتی ہے اور کرنی بھی چاہئے ۔ جو لوگ ان کے پروگرامس کے انعقاد میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں ، انہیں اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’میرے سماجی رتبہ ، سیاست سے متعلق میری رائے اور بی جے پی حکومت کی پالیسیوں سے میری عدم اتفاقی کے نتیجہ میں ایک طویل عرصہ سے میری مخالفت کی جارہی ہیں۔ میرے خلاف گالی گلوج کی جارہی ہے ، ہر فن میں میرا ایقان ہے ، اللہ ، عیسیؑ اور رام کے بارے میں میں نغمہ سرا رہتا ہوں کیونکہ ہمارا ملک ہندوستان ایک ہمہ لسانی اور ہمہ مذہبی ملک ہے۔