اتر پریش کے کاس گنج کا فرقہ وارانہ تشدد، ۲۹؍جنوری کو اقلیتی کمیشن کے اجلاس سے قضیہ غائب

نئی دہلی:۔ اتر پردیش کے کاس گنج میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پیش آئے فرقہ وارانہ تشدد واقعہ پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی سب سے بڑی آ ئینی باڈی کے ذریعہ غیر حساسیت کے مظاہرہ کا انکشا ف ہوا۔تین روز تک مسلسل ایک خاص طبقہ پر حملہ ہوتا رہا اور ان کے املاک کو نقصان پہنچاتے رہے۔بعد ازاں قومی اقلیتی کمیشن کا اجلاس اہلی میں منعقد ہوا ۔

اس اجلاس کے اقلیتی کمیشن کے چیئر مین سید غیور الحسن ،نائب چےئر مین جارج کورین اس کے علاوہ دوسرے موجود تھے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ا س اجلاس سے کاس گنج کا قضیہ غیر حاضر رہے۔اس اجلاس میں مسلمانوں کے مختلف مسائل پر گفتگو کی گئی۔لیکن کاس گنج کے قضیہ پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔

کمیشن کے نائب چیئر مین جارج کورین نے کہا کہ کاس گنج میں اکثریتی فرقہ کے لڑکے کا قتل ہوا تھا اس لئے ہمارے یہاں یہ معاملہ نہیں آیا۔کمیشن کے چیئر مین کا کہنا ہے کہ کاس گنج تشدد کے بعد پہلے اجلاس میں فرقہ وارانہ تشدد پربات ہوئی جس کے بعد کمیشن نے یو پی حکومت سے رپورٹ طلب کی۔

اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین وجاہت حبیب اللہ نے کہا کہ کاس گنج معاملہ میں کمیشن کو کیا ایکشن لینا ہے میں اس پر کوئی رد عمل نہیں دونگا۔جہاں تک بات ہے اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر کمیشن کے ذریعہ کارروائی کی تو میں کہنا چاہتا ہوں کہ کمیشن نے کئی بار جلد از جلد خود کارروائی کی ہے۔

واضح رہے کہ کاس گنج میں ترنگا یاترا نکالنے پر دو گروپوں میں فساد شروع ہو گیا افواہوں کا بازار گرم کرنے اور گھٹیا سیاست کی وجہ سے ماحول مزید خراب ہو گیا ۔اس پورے معاملہ میں مرکزی حکومت نے رپورٹ طلب کی اور اقلیتی کمیشن نے بھی کاس گنج معاملہ دلچسپی لے تے ہوئے یو پی کے چیف سکریٹری سے رپورٹ طلب کی ہے۔ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے دعوی کیا کہ کاس گنج میں فساد منصوبہ بند طریقہ سے کیا گیا۔