غضنفر علی خان
کسی بڑے اقدام سے پہلے اس کے نفاذ کا تجربہ چھوٹے پیمانے پر ہی کیا جاتا ہے ۔ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں شاندار کامیابی نے یقیناً بی جے پی کے حوصلے بلند کردیئے ہیں۔ اب بی جے پی اپنے پرانے راگ الاپنے میں کوئی تکلف نہیں کرے گی۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں حکومت کے قیام کے بعد اس کیلئے اپنا ایجنڈہ خفیہ رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی پر اب تو ڈنکے کی چوٹ پر بی جے پی وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو وہ کرنا چاہتی ہے ۔ اترپردیش میں کامیابی نے کئی اندیشوں کو بھی ختم کردیا ہے ، اب راجیہ سبھا میں بھی آئندہ اس کو کسی قانون کی منظوری پر دشواری نہیں ہوگی جو ابھی تک ایک بڑی رکاوٹ تھی ۔ اب راستہ صاف ہوگیا ۔ اترپردیش 20 کروڑ کی آبادی والی سب سے بڑی ریاست ہے ۔ یہاں کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ بنائے گئے ہیں ۔ یوگی تو وہ نام کے ہیں ، یوگی وہ ہوتا ہے جو دنیا کو کم و بیش تیاگ دیتا ہے ۔ وہ تو 5 مرتبہ لوک سبھا کیلئے گورکھپور سے منتخب ہوچکے ہیں ۔ اپنی شر انگیزی سے وہ خاص شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ یوگی ادتیہ ناتھ دراصل ہندوتوا کے ان پرزور لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں جو ملک میں ہندو راشٹریہ (ہندو مملکت) قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں کیوں اترپردیش کا چیف منسٹر بنایا گیا ، یہ سب ہی کیلئے لمحہ فکر ہے کیونکہ ان کے خلاف دستور کی خلاف ورزی ، دو فرقوں میں منافرت پھیلانے ، انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دینے ، ممنوعہ ہتھیار رکھنے ، دھماکو اشیاء کو اپنی تحویل میں رکھنے ، مذہبی مقامات کے تقدس کو ختم کرنے جیسے سنگین 9 کیسس ہیں جو قانون تعزیرات ہند کے دفعات 153A ، 295 ، 307 ، 422 ، 197 وغیرہ کے تحت درج ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے مجرمانہ ریکارڈ کے باوجود ابھی تک کسی معاملہ میں انہیں سزا نہیں ہورہی ہے۔ کیوں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ نے اقتدار کا تاج ان کے سر رکھا، آخر دونوں کو کونسی خوبی یوگی ادتیہ ناتھ میں دکھائی دی جو مودی کے خیال میں ان کے تمام گناہوں کی پردہ پوشی کیلئے کافی ہے۔ اترپردیش اسمبلی میں 300 سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی بی جے پی کو کیوں یوگی ادتیہ ناتھ کے علاوہ کوئی اور مناسب چہرہ نظر نہیں آیا ۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یوگی اپنی من مانی کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے نور نظر ہیں۔ ان کا انتخاب اس بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی کے لاکھ انکار کے بعد یہ ایک سچائی ہے کہ اس کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے صدر مقام ناگپور میں آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے خود کو منتخب کرا کے یہ تاثر دیا ہے کہ بی جے پی کے بڑے لیڈروں سے زیادہ آر ایس ایس کی نظر میں وہی قابل قبول ہیں ۔ یہ تاثر بھی دیا کہ ان کی ترقی سینئر لیڈروں (مرکزی لیڈروں) کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے اور ان لیڈروں میں خود نریندر مودی بھی شامل ہیں۔ دوسرے بزرگ لیڈر جیسے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی کو تو پہلے ہی نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اس وقت وزیراعظم کے مدمقابل پارٹی میں کوئی لیڈر نہیں ہے لیکن یہی بات یوگی ادتیہ ناتھ کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی ۔ اب چیف منسٹر اترپردیش کے لئے آر ایس ایس اور دوسری ہندوتوا تنظیموں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ ہی رام مندر تعمیر کرسکتے ہیں، وہ گاؤکشی پر امتناع عائد کرسکتے ہیں ۔ شراب کے کاروبار پربھی پابندی لگاسکتے ہیں۔ حالانکہ اس کاروبار سے ریاست کو تقریباً 20 ہزار کروڑکی آمدنی ہر سال ہوتی ہے ۔ وہ لو جہاد کی تحریک کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔ تبدیلیٔ مذہب کے مسئلہ پر بھی سخت رویہ اختیار کرسکتے ہیں، چنانچہ انہوں نے لوک سبھا میں ا پنی آخری حاضری دیتے ہوئے کہا ہے کہ صرف گائے کے مسالخ ہی نہیں آگے دیکھتے جائے اور کیا کیا بند ہوتا ہے ۔ ان کے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کیلئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ اترپردیش کو ہندو راشٹریہ کے قریب تر پہنچادیں گے ۔ دراصل بی جے پی اترپردیش کو ہندو مملکت بنانے کیلئے ایک ’’تجربہ گاہ‘‘ بنارہی ہے اور اس کام میں فی الحال اس کو کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہے ۔ اس تجربہ گاہ سے جو کچھ سنگھ پریوار کو حاصل ہوگا اس کو بی جے پی اور سخت گیر موقف کے حامل تنظیمیں ملک کی دوسری ریاستوں میں لاگو کرنے کی کوشش کریں گی ۔ خاص طور پر ان ریاستوں میں اترپردیش کے تجربہ کو دہرانے کے لئے وہ ریاستیں بہ آسانی آمادہ ہوجائیں گی، جہاں بی جے پی حکومتیں ہیں۔ اترپردیش کے اس تجربہ کو کامیاب نہ ہونے دینے کیلئے ملک کی سیکولر طاقتوںکو بہت زیادہ زور آزمائی کرنی پڑے گی ۔ آئندہ چند برسوں میں ایک کشمکش ان ہی سیکولر پارٹیوں اور ہندوتوا کی طاقتوںکے درمیان ہوگی، اس کشمکش میں کون غالب آتا ہے یہ کہنا دشوار ہے ۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں اکثریتی طبقہ کے ووٹوں کو یکطرفہ کرنے ان کا Polarisation کا عمل تو پورا ہوگیا ہے ۔ اتنی بھاری تعداد میں شاندار کامیابی کے بعد یہ کہنا کہ ابھی اکثریتی طبقہ کے ووٹ کسی ایک طرف نہیں ہوتے ہیں غلط ہوگا ۔ کم از کم اترپردیش میں تو بی جے پی کو اکثریتی طبقہ نے دل کھول کر ووٹ دیا ، پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ 2019 ء کے مجوزہ عام انتخابات میں یہی صورتحال نہیں ہوگی۔ دو سال بعد اپوزیشن پارٹیاں یا سیکولر جماعتیں وہ کونسا طلسم دکھاسکتی ہیں کہ ان کی صفوں میں مکمل اتحاد پیدا ہوجائے اور وہ اپنا Vote Share بڑھالیں۔ اس صوتحال کے پیدا ہونے کے بہت کم امکانات ہیں جبکہ یہ امکان زیادہ ہے کہ ہندوتوا کی طاقتیں اپنے وجود کو مضبوط کریں گے ۔ آج ایک یوگی ادتیہ ہے تو کل ایک سے زیادہ یوگی پیدا ہوجائیںگے جو اپنے گمراہ کن نظریات کی شدت کے ساتھ تشہیر کریں گے اس کا جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ملک کی دستوری حیثیت کیلئے بھی ت