اترپردیش میں مسلمانوں کیلئے سیاسی متبادل کی ضرورت

اقلیتوں کے ساتھ سماجوادی پارٹی کی وعدہ خلافی، امام بخاری کا الزام
نئی دہلی، 2 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) اترپردیش میں پیدا شدہ تازہ ترین سیاسی ہلچل اور حکمراں سماج وادی پارٹی کے داخلی انتشار کے درمیان ریاست میں قریب آتے ہوئے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر مسلمانوں کے تذبذب کو دیکھتے ہوئے شاہی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نے مسلمانوں کو اپنا سیاسی متبادل تلاش کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔شاہی امام نے کہا کہ سیاست، سیاست ہوتی ہے کوئی عقیدہ نہیں۔ سیاست میں ہر پانچ برس کے بعد مسلمانوں کو اپنے اور ملک کے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اسلئے اترپردیش کی موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کو اپنا سیاسی متبادل تلاش کرنا چاہیے لیکن مسلمان کسی ایک سیاسی پارٹی کو اپنا مسیحا مان کر اس کے پیچھے چل پڑتا ہے جسکی وجہ سے اسے ماضی میں کافی نقصان اٹھانا پڑتا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی ذہنی غلامی سے باہر نکل کر اپنی اس روش کو بدلنا ہوگا تاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کا صرف ووٹ بنک کے طور پر استعمال نہ کرسکے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست میں کسی کیساتھ دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ اسلئے ملک کے مسلمانوں کو ووٹ بنک کے طور پر استعمال ہونے سے خود کو بچانا ہوگا۔امام بخاری نے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سماج وادی پارٹی کے داخلی انتشار سے بی جے پی کو فائدہ نہیں پہنچے گا تو انہوںنے اس کا با اندازہ دیگر جواب دیا کہ بی جے پی کو ہرانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی نہیں ہے ۔ اس کی فکر وہ کریں جو اسے مرکز میں برسراقتدار لانے کے ذمہ دار ہیں۔کسی دوسری سیاسی جماعت سے سماج وادی پارٹی کے ممکنہ اتحاد کی بابت سوال پر امام بخاری نے کہا کہ مسلمانوں کو کسی سیاسی پارٹی کے اتحاد کے بجائے اپنے اتحاد کی فکر کرنی چاہئے کیونکہ سبھی سیاسی پارٹیوں کی کامیابی اسی میں ہے کہ مسلمان منتشر رہیں۔ ایس پی کو خاص طور پر زد میں لیتے ہوئے شاہی امام نے الزام لگایا کہ اس نے مسلمانوں کیساتھ دھوکہ کیا ہے اور بی جے پی کو مرکز میں حکومت بنانے میں مدد کی ہے ۔ورنہ کیا وجہ ہیکہ صرف ملائم سنگھ یادو کی فیملی کے ہی پانچ ممبران لوک سبھا پہنچے ۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ 2012 کے منشور میں مسلمانوں سے سماج وادی پارٹی نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا گیاحالانکہ اس پارٹی نے مسلمانوں کی کمزوری کا ہمیشہ فائدہ اٹھایا۔اس نے شاید یہ سمجھ رکھا ہیکہ مسلمان اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے ۔ وقت آگیا ہیکہ سیاسی پارٹیوں کی ایسی سوچ ختم کی جائے ۔ شاہی امام نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ناانصافی ووعدہ خلافی کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو اقتدار سے باہر راستہ دکھائیں تاکہ وہ مستقبل میں ایسا کرنے سے باز آئیں اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے اور مسلمانوں کیساتھ منصفانہ رویہ اپنانے کے عہد کی پابندی کریں۔