ڈاکٹر محمد سراج الرحمن نقشبندی
یہ مہرتاباں سے جا کے کہدو کے اپنی کرنوں کو گن کر رکھے
میں اپنے صحرا کے ذرہ ذرہ کو خود چمکنا سکھارہا ہوں
علامہ اقبال
وہ امت مسلمہ جس نے دنیا کی تمام انسانیت کو ایک خدا کی اطاعت پر جمع کرکے ایک برادری بنانے کی دعوت دی ۔جس امت کا دستور حیات قرآن مجید ایک خاندان ، ایک برادری کا نعرہ دیتا ہے ۔ فرماتا ہے رب العالمین ترجمہ : بنی آدم کو ہم نے ایک نفس سے پیدا کیا۔
قرآن الہی ہے ترجمہ : مسلمان تو سب بھائی بھائی ہیں سو اپنے دو بھائیوں میں اصلاح کردیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے (سورہ الحجرات)
افسوس وحدہ لاشریک لہ کا پیغام دینے والی امت اتحاد بین المسلمین کا مبدا حضورﷺ نے جس اتحاد کا سبق دیا ، امت کو امت واحدہ کی ہدایت دی ، وہی امت تفرقوں میں بٹ گئی بلکہ یہود و نصاری کافر و مشرکین کا آلہ کار بن گئی ۔ اپنے مرکز و محور رسول اکرمؓﷺ کی ذات اقدس کو بھول گئی ۔ تعلیمات اسلامی سے بے پرواہ ہوگئی ۔ آج مسلمان مختلف نازک حالات سے دوچار ، مختلف المیوںکا شکار ہوگئے ہیں ۔ ایک طرف اس امت کو خطرہ اسلام دشمن عناصر جن کا مقصد مسلمانوں کو بدنام کرنا ، اسلام کو بدنام کرنا ، مسلمان کو ایسی قوم کی حیثیت سے پیش کرنا ، شدت پسند ، ناروادار ، تہذیب و تمدن سے عاری ، متزلزل قوم ، بردباری سے محروم ، پھر مسئلہ کو تشدد ، طاقت ، نعروں سے حل کرنا چاہتی ہے ۔
دوسرا سنگین خطرہ خود مسلمانوں سے جو خود اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اپنے کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ خیال کرتے ہیں اور یہ اسلام کو اپنے تصور میں ڈھالتے ہیں یعنی اپنے طور پر اسلام کا تصور طے کرلیتے ہیں ۔ خود ہی اس کو نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ اعداء اسلام ہیں ۔جو دین اسلام کے تصور کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں ۔ دعوت دین ، تبلیغ دین حق کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں ۔
مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مذہبی طبقے میں مسلکی اختلافات اپنی انتہا پر پہنچ چکے ہیں ۔ بعض حضرات تبلیغ دین کے بجائے تبلیغ مسلک کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے ہیں ، مسجدیں ویران ہیں وہاں نماز کو دعوت دینے کے بجائے طریقہ نماز کو دعوت دی جارہی ہے ۔ اپنے سوائے دوسروں کی نماز کو غلط ٹھہرایا جارہا ہے ۔
کچھ مسلم نوجوانوں کا طبقہ تو ان مذہبی قائدین سے مایوس ہوچکا ہے۔
حجتہ الوداع کے موقع پر بڑے اجتماع میں ہدایتی اصول فرماتے ہوئے حضور اقدسﷺ نے واضح اشارہ دیا ۔ اسلام میں کالے گورے ، عجمی عربی وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہیں ایک ماں باپ کی اولادیں، اب یہ امت طرح طرح کے تفرقوں میں مبتلا ہو کر مذہب سے دور ، ایکدوسرے سے بے زار ، اس میں سیاسی جھگڑے ، نسبتی برادری، مسلکی ، امیر و غریب کو تفریق ، منافقت ، منافرت ، تک ہی ہمارا نقصان بوجھ بھی ناقابل برداشت تھا ۔ مزید گراں خود اپنے ہی کشتی سوار سامان کشتی تجارت کو چھید مار رہے ہیں ۔ اسلام دشمن عناصر سے تعلقات بڑھانے کی غرض سے اسلام مخالف جنگ و جدال ، عداوتوں ، جھگڑوں کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔
چھالے جگر کے پھٹ پڑے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
آج ہماری عظیم عددی طاقت کے باوجود پسماندہ ہم ہی ہیں ، ہم بے حیثیت ، سمندر کا جھاگ بنے ہوئے ہیں ،جب دنیا نے ہمیں غافل کردیا ۔ مال کیلئے ایکدوسرے پر سبقت ۔ عیسائی مشنریز نونہالوں ، نوجوانوں بلکہ غریب بے سہارا سامان بہنوں بھائیوں کے ایمان کو خریدا جارہا ہے ۔ سوشیل میڈیا کے ذریعہ دماغوں پر ڈاکہ ڈال کر کھوکھلا کیا جارہا ہے ۔ عقائد ونظریات کو تعلیم و تہذیب کے نام پر کھلواڑ کیا جارہا ہے ۔ انگریز کے دیڑھ سو سالہ تعلیم نظام نے پہلے ہی ہمیں علم دین سے محروم کیا ۔ جو کچھ احیا دین احیا سنت دیکھ رہے ہیں اس کے خاتمے کے اسباب خود ہم ہی بنارہے ہیں ۔
اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
اب بھی وقت ہے امت مسلمہ کو سرخروئی کامیابی کا ۔ اگر تمام مکاتب فکر کے علماء مل بیٹھیں ۔ سرجوڑ کر دلوں کو ملا کر تڑپ کے ساتھ ۔ وہ چیالنجس جو امت کو درپیش ہیں حل ہوسکتے ہیں ۔ تبدیلی آسکتی ہے ۔ اپنے تمام دیرینہ سیاسی ، مذہبی ، مسلکی اختلافات کو بقائے دین ملت اسلامیہ کے فراموش کرتے ہوئے ایک متحدہ (ایجنڈے کے ذریعہ جد وجہد) قوم بن کر ابھریں تاکہ مدمقابل جھگڑے فساد کے بدلے صلح و بھائی چارگی کو ہی نظریہ میں بقا سمجھے ، اس پر مسلمان کو نہ صرف کاربند رہنا ہے بلکہ اللہ کی مدد حاصل کرنا ہو تو دعوت الہ اللہ کا کام جس میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا واحد حل ہے ۔ اپنانا ہوگا ۔
حقیقت اگر ہم غور کریں دعوت الی اللہ کے کام نے محنت نے ہی امت مسلمہ کو نازک حالات میں سنبھالا ہے ۔
آج دنیا کے بہت سے علاقوں میں صورتحال یہ ہے کہ امت مسلمہ پر ظالم حکمران مسلط ہیں ۔ قبلہ اول تک ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا ۔ ہم ہماری جان و مال ، عزت و آبرو ، تہذیب تمدن ، ، عدم تحفظ کا شکار ہے وہ حالات دنیوی بگڑتے جارہے ہیں ۔
قرآن پاک جس عظیم کام کو ہماری شناخت کرواتا ہے اور ذمہ داری دیتا ہے ۔ ہمارا منصبی فریضہ ہے ، دعوت الی اللہ کے کام کو ہم نے پس پشت ڈال دیا ۔ اس اہم فریضے سے منہ موڑ لیا ہے ۔ پہلو تہی کی ۔ اگر ہم نصرت الہی کو شامل حال کرنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالی کے سایہ رحمت میں جگہ حاصل کرنا ہو تو ہم مسلمانوں کو اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ دعوت دین کو محنت پر متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ جب یہ کام پیغمبرانہ جذبہ ، پیغمبرانہ آداب کے ساتھ ادا کیا جائے گا تو رب العالمین آج بھی امت محمدیہ کی پیغمبروں جیسی مدد اور تحفظ فراہم کرے گا ۔ یہی اتحادملت کا واحد راستہ ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دعوت دین کی محنت کے طفیل میں متحد ، متفق فرما ۔ آمین ۔