اب قومی سیاست میں قسمت آزمائی !

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے انتخابی کامیابی کے بعد ریاستی عوام سے خطاب کرتے ہوئے اپنے وعدوں کو یقینی طور پر پورا کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ انہوں نے بڑے بڑے دعویٰ انکسار کی زبان میںکئے ہیں ۔ حلف لینے کے بعد انہوں نے اپنے مزاج میں کسی قدر نرمی دکھائی جس سے لوگوں کو متاثر کرنے میں مدد بھی ملی ہے ۔ ایک ڈرامائی کیفیت کا بھی احساس پیدا کیا ہے ۔ اپنے ساتھ صرف ایک وزیر کو حلف دلا کر انہوں نے اپنے عزم کا بھی اظہار کیا ۔ وزیر داخلہ کی حیثیت سے مسلم وزیر محمد محمود علی کو حلف دلایا گیا تو یہ عمل بعض کے نزدیک سحر زدہ تھا ۔ یہ قلمدان اس امر کا تقاضہ کرتا ہے کہ ان کا اپنا کردار بھی مثالی ہے اور ان کی ٹیم بھی فرض شناسی سے مرصع نظر ہے ۔ ان سے امید کی جانی چاہئے کہ وہ ایک نیک نام ٹیم کے ساتھ کام کرتے ہوئے محکمہ پولیس کو بہتر بنائیں گے ۔ ریاستی دھارے کی پارٹی کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کو تلنگانہ عوام کے بے پناہ محبت نے قومی دھارے کی سیاست میں قدم رکھنے کا حوصلہ بخشا ہے ۔ مگر قومی دھاروں کی سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے کے سی آر اپنے غیر بی جے پی اور غیر کانگریس محاذ بنانے کے عزم کو پورا کرسکیں گے ۔ یہ تو آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا ۔ قومی دھارے کی سیاست کو یوں سمجھئے کہ راہ اور عشق میں روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ۔ اگر قومی دھارے میں قدم رکھ کر وہ تلنگانہ عوام سے دور ہوں گے تو پھر یہ لوگ ان کی بے وفائی پر بھی اپنا جی فدا کریں گے تو اور بھی موضوعات سامنے آئیں گے ۔ تلنگانہ تحریک میں کے سی آر نے آگ تلے ابتداء عشق میں بم کے مصداق کام کیا تھا لیکن قومی دھارے کی سیاست کا خواب انہیں خاک زدہ نہ کرے تو بہتر ہوگا ۔ کیوں کہ اپنا علاقہ چھوڑ کر دوسرے علاقہ میں قسمت آزمائی کرنے کی کوشش نے کے سی آر کی نظروں کے سامنے ہی چیف منسٹر آندھرا پردیش اور صدر تلگو دیشم این چندرا بابو نائیڈو کو خاک زدہ کردیا ہے ۔ یہ سبھی جان چکے ہیں کہ تلنگانہ کی شدت سے مخالفت کرنے والے نائیڈو کو تلنگانہ عوام نے مسترد کردیا اور اس کی سزا کانگریس کو بھی ملی ہے ۔ اسمبلی انتخابات سے قبل عظیم اتحاد کی غلطی نے تلنگانہ میں کانگریس کی رہی سہی ساکھ کو بھی ختم کردیا ۔ کانگریس کے کئی قائدین مابعد انتخابی نتائج یہ ماتم کررہے ہیں کہ کانگریس ہائی کمان نے تلگو دیشم سے اتحاد نہ کرنے ان کے مشوروں کو نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے تلنگانہ کے رائے دہندوں نے تلگو دیشم سے کانگریس کے اتحاد کو بری طرح مسترد کردیا ۔

کانگریس نے تنہا مقابلہ کیا ہوتا تو تلنگانہ کے انتخابی نتائج کچھ اور ہی ہوتے ۔ تلنگانہ کانگریس قائدین کا احساس ہے کہ تلگو دیشم سے اتحاد کرنے پارٹی ہائی کمان کا فیصلہ فائدہ سے زیادہ نقصان کا باعث ہوا ہے ۔ کانگریس نے مہاکوٹمی کے ساتھ انتخابی مقابلہ کیا اس مہا کوٹمی میں تلگو دیشم ، تلنگانہ جنا سمیتی اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا شامل تھیں ۔ ریاست میں کانگریس کے قومی قائدین اور بی جے پی کے طاقتور لیڈروں کی انتخابی مہم کے باوجود کانگریس اور بی جے پی کو بری شکست کا منہ دیکھنا پڑا ۔ اگر اتحاد نہ کیا جاتا تو کانگریس کو زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل ہوتیں ۔ مگر مہا کوٹمی بدترین ہزیمت سے دوچار ہوئی ۔ کانگریس کو صرف 21 نشستوں پر کامیابی ملی اور تلگو دیشم نے 2 نشستیں جیت لی ۔ دیگر حلیف پارٹیوں کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی ۔ اب کانگریس حلقوں میں یہ ماتم کیا جارہا ہے کہ ہائی کمان نے بڑی غلطی کردی تھی لیکن اب 2019 کے عام انتخابات میں یہ اتحاد ہرگز نہیں ہوگا ۔ تلنگانہ کانگریس قائدین اس عظیم اتحاد کو برقرار رکھنا نہیں چاہتے ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کا تنہا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ مگر ہائی کمان کا موقف ہنوز غیر واضح ہے ۔ ادھر کانگریس قائدین کو چندرا بابو نائیڈو سے ایک قسم کی چڑ ہوگئی ہے تو دوسری طرف بی جے پی نے بھی کانگریس ۔ تلگو دیشم اتحاد کو ہی اپنی ناکامی کی اصل وجہ بتایا ہے ۔ بی جے پی کو بھی یہ احساس ہے کہ اگر تلنگانہ میں چندرا بابو نائیڈو نہیں آتے تو کے سی آر کو یہ کہنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا کہ تلنگانہ کے دشمن کو ووٹ نہ دو ۔ تلنگانہ عوام کے لیے نائیڈو کو ایک خطرناک لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا جو کامیاب کوشش ثابت ہوئی ۔ بی جے پی تلنگانہ یونٹ کے ترجمان کرشنا ساگر راؤ نے ریاست میں بی جے پی کی ناکامی بلکہ بدترین ہزیمت کے لیے چندرا بابو نائیڈو کو ہی ذمہ دار ٹہرایا ہے ۔ اگر کانگریس نے ان سے اتحاد نہیں کیا ہوتا تو آج انتخابی نتائج مختلف ہوتے ۔ کے سی آر کا اصل ایجنڈہ یہ تھا کہ انہوں نے خود کو تلگودیشم صدر این چندرا بابو نائیڈو کے مدمقابل کھڑا کیا اور تلنگانہ عوام سے یہی سوال کیا کہ آیا وہ تلنگانہ کے ایک سپوت کو منتخب کریں گے یا تلنگانہ کے دشمن کو ووٹ دیں گے ۔ کے سی آر کے اس نعرے نے کام کر دکھایا ۔ کے سی آر نے خود کو سیاسی بازی گر ثابت کردیا ۔ انتخابات کا سارا ایجنڈہ خود اڑا لے گئے ۔ نائیڈو کو دیکھنے کے بعد لوگوں نے کے سی آر سے والہانہ محبت اور ٹی آر ایس کے ساتھ ہمدردی کا واضح اظہار کرنا شروع کیا تھا ۔ بہر حال انتخابی ناکامی کے بعد کانگریس اور بی جے پی دونوں قومی پارٹیوں کو یہی غم ہے کہ انہیں علاقائی پارٹیوں کی وجہ سے ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔ کے سی آر کے تعلق سے ان کے مداحوں کا کہنا ہے کہ وہ بہت ہی سادہ مزاج کے لیڈر ہیں اور نائیڈو کی سیاست عیاری دکھاتی ہے ۔ لیکن تلنگانہ عوام کو کے سی آر کے قومی عزائم سے جھٹکہ ضرور لگا ہے ۔ اس لیے کہ وہ اب سے ہی دعا کرنے لگے ہیں کہ خدا کرے تجھے دہلی کی ہوا نہ لگے کیوں کہ کسی بھی علاقائی لیڈر کو دہلی کی ہوا لگتی ہے تو وہ اپنے علاقہ کو فراموش کردیتا ہے ۔ ماضی میں بھی ریاست سے تعلق رکھنے والے کئی قائدین نے دہلی کی سیاست میں گل کھلائے اور کامل اختیارات حاصل کر کے بھی علاقائی ترقی کے لیے کام نہیں کیا ۔ اگر کے سی آر اپنی ریاستی ذمہ داریوں کو اپنے فرزند کے ٹی راما راؤ کے سپرد کر کے دہلی میں کیمپ کرتے ہیں تو دہلی بھی یہی کہے گی کہ آرزو ہے کہ تو یہاں آئے اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں ۔ کے سی آر کی دہلی جانے کی نیت شوق بھر جائے تو وہ ادھر تلنگانہ کے عوام کے دل سے اترنہ جائے کہیں ۔ اگر ان کی کوشش رائیگاں چلی گئی تو غیر بی جے پی ، غیر کانگریس قومی محاذ کا خواب چکنا چور ہوگا ۔ کیا کوئی اپنی نادانی کے ساتھ بھی تصور کرسکتا ہے کہ وہ بی جے پی یا کانگریس کے بغیر قومی محاذ بنانے میں کامیاب ہوسکے گا ۔ قومی سیاست کا قیمتی سرمایہ تو کانگریس کے پاس ہونے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ۔ یہاں بی جے پی بھی اپنی بقاء اور استحکام کی جنگ لڑ رہی ہے کیوں کہ 3 ریاستوں میں کانگریس کی کامیابی کے بعد آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہے ۔
kbaig92@gmail.com