اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری

رشیدالدین
7 مودی۔نوازشریف ملاقات…صرف فوٹو سیشن نہ رہے
7 تحقیقاتی ایجنسیاں مودی کی چاپلوسی میں مصروف
عام انتخابات میں بی جے پی کو واضح اکثریت اور نریندر مودی کے وزیراعظم کی حیثیت سے انتخاب پر ملک کے سیاسی حلقوں میں مختلف اندیشوں کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ابھی نریندر مودی کی حلف برداری بھی نہیں ہوپائی تھی کہ مختلف محاذوں پر سیاست کا کھیل شروع ہوگیا۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہونے سے قبل ہی تحقیقاتی ایجنسیوں نے نریندر مودی کی خوشامد شروع کردی اور مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی زعفرانی ذہنیت کی عکاسی کی ہے۔ دوسری طرف نریندر مودی نے حلف برداری تقریب میں سارک ممالک کے سربراہوں اور خاص طور پر وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو مدعو کرتے ہوئے فراخدلانہ خارجہ پالیسی کے نام پر دنیا بھر کی واہ واہی لوٹنے کی کوشش کی تاکہ دنیا میں بنیاد پرست اور کٹر پسند کی امیج کو تبدیل کیا جاسکے ۔ بی جے پی اور نریندر مودی کی ان سرگرمیوں کو دیکھ کر عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال کیسے خاموش رہ سکتے تھے ۔ انتخابات میں پارٹی اور اپنی شکست کے سبب اپنے وقار اور قیادت کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے کجریوال نے گرفتاری کا ڈرامہ کیا تاکہ دہلی میں پارٹی کی بند دکان کو کھولا جاسکے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کجریوال خود اس راستہ کا انتخاب کرتے ہوئے جیل پہنچ گئے

لیکن شاید انہیں پتہ نہیں کہ ہر جیل کا راستہ اقتدار تک نہیں پہنچتا۔ انتخابی مہم کے دوران گزشتہ سال اکتوبر میں پٹنہ میں نریندر مودی کی ریالی کے موقع پر بم دھماکوں کے سلسلہ میں قومی تحقیقاتی ایجنسی NIA نے انڈین مجاہدین اور سیمی کا نام جوڑدیا ہے۔ مودی کی حلف برداری سے چند دن قبل این آئی اے نے بعض افراد کی گرفتاری کے ذریعہ دعویٰ کیا کہ مبینہ دہشت گردوں کے نشانہ پر نریندر مودی تھے۔ ممنوعہ تنظیم سیمی اور انڈین مجاہدین کو ذمہ دار قرار دیا گیا ۔ این آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے بہار میں سرگرم ان تنظیموں کے منصوبوں کو ناکام بنادیا ہے جو پٹنہ کے علاوہ دیگر شہروں میں دھماکوں کا منصوبہ رکھتے تھے ۔ دہشت گردوں سے نریندر مودی کو خطرہ ظاہر کرتے ہوئے مودی کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کرنے قومی تحقیقاتی ایجنسی کی کوششوں کی کامیابی میں قومی میڈیا نے اہم رول ادا کیا ۔ ٹی وی اینکرس اور تجزیہ کار انڈین مجاہدین اور مسلمانوں کو جوڑنے کیلئے گلا پھاڑ کر دلائل پیش کر رہے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پٹنہ دھماکوں کو 7 ماہ کا عرصہ ہوگیا لیکن قومی تحقیقاتی ادارے کو یہ ثبوت مودی کی حلف برداری سے عین قبل کیوں ملا ؟ اگر واقعی ثبوت حاصل بھی ہوجائے تب بھی اس کے انکشاف کے لئے وقت کا تعین از خود کئی شبہات پیدا کرتا ہے۔ ابھی یہ طئے نہیں ہے کہ این آئی اے نے یہ قدم آنے والی حکومت کے اشارہ پر اٹھایا ہے لیکن یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ نظم و نسق میں زعفرانی تنظیموں اور ان کی ذہنیت کے حامل عناصر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

نریندر مودی کی چاپلوسی کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ جو پولیس گجرات میں بے قصور افراد کو انکاونٹر کے ذریعہ دہشت گرد قرار دے سکتی ہے ، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں۔ اس طرح کی گھناؤنی حرکت کا مقصد اکثریتی طبقہ کی نظر میں اقلیتوں کو متنفر کرنا ہے تاکہ انہیں ہمیشہ احساس کمتری اور دوسرے درجہ کے شہری کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے ۔ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی میں ملوث افراد کی ہرگز تائید نہیں کی جاسکتی لیکن دہشت گردی کو کسی مخصوص مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں۔ ملزم کا تعلق جس مذہب سے ہو، اس مذہب کے ماننے والوں کو شک و شبہ سے دیکھنا سراسر ناانصافی ہوگی ۔ اس طرح کی سازشوں کا مقصد ہندوستان کے اتحاد اور مذہبی رواداری کی روایات کو نقصان پہنچانا ہے۔ پٹنہ بم دھماکوں کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے این آئی اے نے بہار کے بی جے پی قائد گری راج سنگھ کی بکواس پر مہر لگانے کی کوشش کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت ملک بھر میں گرفتار کئے گئے افراد کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہے۔

گری راج سنگھ سے کوئی سوال کرے کہ مکہ مسجد ، اجمیر شریف اور مالیگاؤں بم دھماکوں میں ملوث افراد کا کس مذہب سے تعلق تھا۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ، سوامی اسیمانند ، کرنل پروہت اور اندریش گپتا کیا مسلمان ہیں؟ ن دھماکوں کے سلسلہ میں ابتداء میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس پر بعد میں حکومتوں کو ندامت کا اظہار کرنا پڑا۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائز ہونے والے شخص اور ان کا تھنک ٹینک آر ایس ایس تمام مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن بیورو کریسی مودی کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ کوئی پارٹی ہو یا حکومت فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحاد کی برقراری اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔
نریندر مودی نے اپنی حلف برداری تقریب میں سارک ممالک کے سربراہان حکومت کو مدعو کرتے ہوئے پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر رشتوں اور دوستی کی شروعات کی کوشش کی ہے۔ افغانستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے علاوہ دیگر رکن ممالک نے اس دعوت کو قبول کرلیا تاہم وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے لمحہ آخر میں دعوت نامہ قبول کرتے ہوئے ہندوستان کی خیر سگالی کا جواب خیر سگالی کے ذریعہ دیا ہے۔گزشتہ سال نواز شریف نے اپنی حلف برداری میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مدعو کیا تھا

لیکن انہوں نے اپنے نمائندہ کو روانہ کیا۔ نریندر مودی کے روایتی مخالف پاکستان موقف کے باعث پاکستانی عوام بھی دونوں ممالک کے تعلقات کے سلسلہ میں اندیشوں کا شکار ہیں۔ ایسے میں نواز شریف کی شرکت کی شرکت کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھی لیکن پاکستانی وزیراعظم نے حلف برداری تقریب میں شرکت کا فیصلہ کرتے ہوئے نپا تلا قدم ا ٹھایا ہے۔کارگل لڑائی کے بعد نواز شریف پہلی مرتبہ ہندوستان آرہے ہیں۔ ان کے دور میں ہی اٹل بہاری واجپائی پیام امن کے ساتھ بس کے ذریعہ لاہور گئے تھے اور دونوں ممالک کے درمیان بس سرویس کا بھی آغاز ہوا۔ 2004 ء میں اٹل بہاری واجپائی آخری ہندوستانی رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ہندوستان کی دعوت کو قبول کرنا نواز شریف کیلئے ایک مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ سارک کے تمام دیگر ارکان نے مودی کی دعوت کو پہلے ہی قبول کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فوجی لابی کے دباؤ کو نظرانداز کرتے ہوئے نواز شریف کو ہندوستان دورہ کا فیصلہ کرنا پڑا۔ مودی کے بڑھائے ہوئے دوستی کے ہاتھ کی طرف نواز شریف نے بھی اپنا ہاتھ دراز کیا ہے۔ یہ رشتے مستحکم ہوں یہی دونوں ممالک کی بھلائی میں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں قائدین کی ملاقات صرف فوٹو سیشن بن کر رہ جائے۔ دونوں ممالک کے عوام ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی نظریں اس ملاقات پر جمی ہوئی ہیں۔مودی کی جانب سے مدعو کرنا اور نواز شریف کا دعوت قبول کرنا بھلے ہی دونوں کی اپنی اپنی حکمت عملی کا حصہ ہو لیکن عوام اچھے دنوں کی شروعات کی امید رکھتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جاسکتے بلکہ ان سے بہتر رشتوں کے ذریعہ عوام کی بھلائی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ملاقات کے بعد کیا نریندر مودی کی پاکستان کے تعلق سے سخت گیر رویہ میں نرمی آئے گی ؟

نریندر مودی کیا واقعی اپنے پڑوسیوں بالخصوص پاکستان سے دوستی کے استحکام میں سنجیدہ ہیں یا پھر وہ وزارت عظمیٰ کی نئی ذمہ داری کے ساتھ دنیا بھر میں اپنا امیج بہتر بنانا چاہتے ہیں ؟ سارک کے دیگر رکن ممالک سے زیادہ نواز شریف کو مدعو کرتے ہوئے مودی نے ایک چالاک سیاستداں ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ نریندر مودی اور سنگھ پریوار کو اس غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہئے کہ پاکستان سے بہتر سلوک کے ذریعہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کا دل جیت لیں گے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آپ دوستی مستحکم کریں یا ناطہ توڑلیں ۔ بین الاقوامی سطح پر امیج بلڈنگ کیلئے مودی کے سیاسی کھیل کے دوران عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال نے انتخابات میں بدترین شکست کے بعد دہلی والوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ دہلی کے عوام کو سنہری خواب دکھاکر وہ درمیان سے ہی فرار ہوگئے تھے۔ صرف 50 دن تک دہلی میں حکومت چلانے والے کجریوال نے سمجھا عوام انہیں ملک کی باگ ڈور تھما دیں گے۔ کجریوال کی پارٹی نے لوک سبھا کی 434 نشستوں سے مقابلہ کیا تھا

لیکن 413 امیدوار اپنی ضمانت بھی نہیں بچاسکے۔ صرف چار نشستوں پر اسے کامیابی ملی اور وہ نشستیں پنجاب سے ہیں۔ دہلی جو کہ پارٹی کا گڑھ مانا جاتا تھا وہاں ایک بھی نشست حاصل نہیں ہوئی۔ 7 ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کو ان ریاستوں میں نوٹا کے تحت استعمال کئے گئے ووٹ سے بھی کم ووٹ حاصل ہوئے۔ اس ہزیمت کے بعد کجریوال نے دوبارہ دہلی میں تشکیل حکومت کی کوشش کی تاکہ اپنی ساکھ کو برقرار رکھیں لیکن کانگریس نے تائید سے انکار کردیا ۔ اس صورتحال میں ان کے پاس دوبارہ انتخابات کے مطالبہ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ دوبارہ انتخابات کو یقینی دیکھتے ہوئے کجریوال نے تہاڑ جیل سے پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔ نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے سے قبل مختلف انداز میں عوام کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی ۔ بی جے پی پارلیمانی پارٹی اور گجرات اسمبلی سے خطاب کے دوران جذباتی انداز ، اشکبار آنکھیں اور مکالموں کی ادائیگی کا فلمی انداز میڈیا میں خوب چھایا رہا ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ نریندر مودی کبھی شاہانہ انداز میں فلم مغل اعظم تو کبھی عجز و انکساری کے ساتھ شعلے اور دیوار فلموں کے مکالمے دہرا رہے تھے ۔ نریندر مودی کو لوک سبھا میں اکثریت کے بھرم سے ابھرنا ہوگا ۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد 1984 ء میں راجیو گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو 415 لوک سبھا کی نشستیں حاصل ہوئی تھیں لیکن اس کے فوری بعد پارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک کے عوام نے جب مودی پر بھروسہ کیا ہے تو انہیں چاہئے کہ تمام طبقات اور علاقوں کے ساتھ مساوی انصاف کریں کیونکہ بہتر حکمرانی اور انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے بغیر اقتدار کی برقراری یقینی نہیں۔ پروفیسر شہریار نے کیا خوب کہا ہے ؎
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا