نریندر مودی …نفرت سے ترقی کی طرف
اپوزیشن کو مقبول چہرہ کی تلاش
رشیدالدین
رنگ بدلنے کا محاورہ اگرچہ کسی غیر انسان سے مربوط ہے لیکن رنگ بدلنے میں آج کے سیاستدانوں کا کوئی جواب نہیں۔ وقت اور حالات کے اعتبار سے بیان اور لہجہ بدلتے ہیں۔ انتخابات سے قبل اور پھر اس کے بعد اکثر قائدین کے بدلتے تیور سے عوام روبرو ہورہے ہیں۔ بعض قائدین انتخابی مہم میں انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن کامیابی کے ساتھ ہی ’’پھولوں کے لب پر کانٹوں کی گفتگو‘‘ کی طرح لہجہ تبدیل ہوجاتا ہے ۔ بعض قائدین انتخابات کے دوران ماحول کو زہر آلود بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن نتائج کے بعد بھائی چارہ اور عاجزی کے کردار میں دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں طرح کے قائدین کا یہ عمل سیاسی مجبوری تو کہا جاسکتا ہے لیکن ان میں خطرناک وہ لوگ ہیں جوکامیابی کے بعد اپنا اصلی رنگ دکھاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال مسلم اکثریتی حلقہ دیوبند سے کامیاب بی جے پی امیدوار کی ہے جس نے دیوبند کا نام تبدیل کرنے کی مہم چھیڑدی ہے ۔ اسی طرح یوگی ادتیہ ناتھ اترپردیش کے تمام مسلم ناموں حتیٰ کہ تاج محل کا نام بدلنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف اترپردیش اور اتراکھنڈ میں پارٹی کو شاندار کامیابی سے ہمکنار کرنے والے نریندر مودی کے تیور تبدیل دکھائی دے رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں جس زبان پر قبرستان ، شمشان ، رمضان ، دیوالی ، ہولی اور عید جیسے الفاظ تھے ، آج اسی زبان پر ترقی کا نعرہ ہے۔ انکساری اور خاکساری کا مظاہرہ اور پھل دار درخت کی طرح جھک کر کام کرنے جیسی عظیم سوچ کا اظہار کیا گیا۔ جس بی جے پی نے اترپردیش کے 400 امیدواروں میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ، اب وزارت میں مسلم وزیر کی شمولیت کی تیاری کر رہی ہے۔ جس کٹر پنتھی ذہنیت اور مہم نے کامیابی دلائی ، اس کے نمائندہ یوگی ادتیہ ناتھ کا نام چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے امکانی امیدواروں میں شامل نہیں کیا گیا ۔ کیا یہ سب کچھ خوش آئند تبدیلی ہے یا پھر محض انتخابی حکمت عملی کا حصہ ۔ بی جے پی جس کی پالیسی ناگپور ہیڈکوارٹر سے تیار ہوتی ہے ، کیا وہ اس تبدیلی کو قبول کرے گی؟ کیا بی جے پی کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ اترپردیش کی کامیابی سیکولر ووٹ کی تقسیم کا نتیجہ ہے، لہذا شدت پسندی کا ایجنڈہ آنے والے چار ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ میں کام نہیں آئے گا ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابی نتائج کے بعد پھر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2022 ء کیلئے ترقی کا ایجنڈہ پیش کردیا ۔ انہوں نے دہلی کی ریالی اور پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں صرف ترقی کو ہی ایجنڈہ کے طور پر پیش کیا ہے، جس طرح پھل دار درخت جھکا رہتا ہے ، اسی طرح قائدین کو انکساری اختیار کرنے کی صلاح دی۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے وزیراعظم کی انکساری کی تعریف کی ہے۔ 2019 ء میں حکومت کی میعاد ختم ہوگی لیکن مودی نے 2022 ء کا نشانہ مقرر کیا۔ مودی کے یہ تیور اور تبدیلی خود بی جے پی قائدین کو بھی ہضم نہیں ہورہی ہے ۔ انتخابی مہم میں اچھالے گئے ایک بھی متنازعہ موضوع حتیٰ کہ انتخابی منشور کے متنازعہ امور کو بھی چھیڑنے سے گریز کرتے ہوئے مودی نئے رنگ میں دکھائی دیئے ۔
آخر یہ کیا ڈرامہ ہے؟ ہزاروںکے مجمع میں نفرت پر مبنی ریمارکس اور عوام کو بانٹنے کی کوشش کرنے والے مودی آج عوام کو جوڑنے اور ترقی کی بات کر رہے ہیں ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کامیابی کے بعد سنگھ پریوار کے ایجنڈہ سے مودی دوری اختیار کرلیں گے۔ رام مندر ، یکساں سیول کوڈ اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 جو بی جے پی کے انتخابی منشور کا حصہ ہے، اسے اٹل بہاری واجپائی حکومت کی طرح پس پشت ڈال دیا جائے گا ۔ مودی خود کی شناخت واجپائی کی طرح معقول پسند قائد کے طور پر بنانا چاہتے ہیں۔ معقولیت پسندی کا یہ مظاہرہ دنیا کے حالات کو دیکھ کر بھی کیا جاسکتا ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ میں تبدیل شدہ حالات ، کٹر پسندوں کے خلاف عوامی ناراضگی اور ترقی میں رکاوٹ کو دیکھتے ہوئے مودی نے حکمت عملی شاید تبدیل کردی ہو۔ حالیہ عرصہ میں عرب ممالک سے تعلقات میں استحکام اور ملک کی ترقی میں عرب ممالک کے تعاون نے مودی حکومت کو مجبور کردیا۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہو تو نفرت کا ایجنڈہ ترک کرنا ضروری ہے۔ مودی نے متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب جیسے اہم عرب ممالک کا دورہ کیا ہے اور یوم جمہوریہ تقاریب میں متحدہ عرب امارات کے ولیعہد کو مہمان بناکر یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی کہ عرب دنیا مودی کے ساتھ ہے ۔ جاریہ سال سعودی عرب کے شاہ سلمان کے دورہ ہند کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ عرب ممالک کی مدد لینا ہو تو مودی کو اپنا اور حکومت کا امیج بدلنا ہوگا۔ عرب اور اسلامی ممالک سے روابط استوار کرنے ایم جے اکبر کو وزارت خارجہ کا قلمدان دیا گیا ۔ ایسے وقت جبکہ امریکہ ، روس اور چین سے تعلقات میں کبھی نرمی تو کبھی گرمی کا ماحول ہے ، ہندوستان کیلئے عرب ممالک کی دوستی فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے ۔ مودی کی عرب ممالک سے دوستی مجبوری سے زیادہ ضرورت ہے ۔ معقولیت پسندی یقیناً ملک کے مفاد میں اور عوام کے اتحاد کیلئے ناگزیر ہے لیکن اس کا اظہار صرف وقتی طور پر دنیا کو پیام دینے کیلئے نہ ہو بلکہ جہاں جہاں حکومتیں ہیں، وہاں بھی اس کا اطلاق ہونا چاہئے ۔ گجرات فسادات کے بعد واجپائی نے جب راج دھرم نبھانے کا مشورہ دیا تو مودی ناراض ہوگئے تھے لیکن آج واجپائی کے اسٹائیل میں خود کی معقول پسند قائد کی حیثیت سے شناخت بنانا چاہتے ہیں۔ مودی کے قومی مفاد میں بدلتے تیور پر سنگھ پریوار کا ری ایکشن اہمیت کا حامل رہے گا ۔ کٹر پسند عناصر کیا متنازعہ ایجنڈہ سے دوری کو قبول کرلیں گے ؟ مودی ان عناصر کا کس طرح مقابلہ کرپائیں گے ، اس پر دنیا کی نظریں رہیں گی۔ اترپردیش میں تشکیل حکومت کے بعد رام مندر اور دوسرے مسائل ضرور سر ابھاریں گے لیکن مودی ان سے نمٹ پائیں گے یا پھر دباؤ کے آگے جھک جائیں گے؟ ویسے بھی مودی کیلئے کچھ بھی ناممکن نہیں ۔
نریندر مودی کے ترقی کے ایجنڈہ کو آئندہ چار ریاستوں کے چناؤ سے جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے ۔ جاریہ سال مودی کو خود اپنی ریاست گجرات میں امتحان سے گزرنا ہے ۔ دہلی منتقلی کے بعد گجرات میں بی جے پی کا موقف کمزور ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی کو دو چیف منسٹرس تبدیل کرنے پڑے۔ اس کے علاوہ آئندہ سال راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پارٹی کے اقتدار کو بچانے کا چیلنج ہے۔ چاروں بھی بی جے پی زیر اقتدار ریاستیں ہیں اور اطلاعات کے مطابق گجرات ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں حکومت کے خلاف عوامی ناراضگی کا رجحان ہے ۔ مودی لہر اور ترقی کے ایجنڈہ کے ذریعہ امیت شاہ حکومتوں کو بچانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس کا موقف مضبوط ہوا ہے ۔ اگر اترپردیش کے نتائج سے بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں تو دوسری طرف پنجاب کی شاندار کامیابی اور منی پور اور گوا میں واحد بڑی پارٹی کے موقف نے کانگریس کیڈر میں نئی امنگ پیدا کردی ہے۔ مودی نے 2019 ء کا انتخابی بگل بجاتے ہوئے 6 تا 14 اپریل ملک بھر میں گاؤں کی سطح پر پارٹی کی یوم تاسیس تقاریب منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی ارکان پارلیمنٹ 4 دن اپنے انتخابی حلقوں میں گزاریں گے۔ اس طرح نریندر مودی ابھی سے قائدین اور کیڈر کو 2019 ء کی تیاری کیلئے کمربستہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب وہ نہ ہی آرام کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے ۔ پانچ ریاستوں کے نتائج پر راہول گاندھی کا یہ تبصرہ حقیقت پر مبنی ہے کہ نتائج کانگریس کیلئے برے نہیں ہے ۔ عوامی فیصلہ کے اعتبار سے کانگریس نے تین ریاستوں میں کامیابی حاصل کی لیکن بی جے پی نے توڑ جوڑ کی پالیسی اور متعلقہ گورنرس سے ملی بھگت کرتے ہوئے منی پور اور گوا میں حکومتیں قائم کرلیں۔ جمہوری طریقہ کار کے مطابق واحد بڑی پارٹی کو تشکیل حکومت کی دعوت دی جانی چاہئے تھی ۔ دونوں چھوٹی ریاستوں میں پارٹی اقلیت میں ہونے کے باوجود غیر اصولی طریقے اختیار کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا گیا، جس سے عوام میں بی جے پی کا وقار مجروح ہوا ہے ۔ اترپردیش اور اتراکھنڈ جہاں واضح اکثریت حاصل ہوئی لیکن فوری طور پر تشکیل حکومت نہیں کی گئی کیونکہ پارٹی میں آپسی انتشار اور قائدین میں چیف منسٹر کے عہدہ کی دوڑ کی اطلاعات ملی ہے ۔ بی جے پی کو دو ریاستوںکی کامیابی اور دو چھوٹی ریاستوں میں تشکیل حکومت سے بے قابو نہیں ہونا چاہئے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ راجیو گاندھی کو پارلیمنٹ میں شاندار اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن اس کے بعد کانگریس میں پھوٹ پڑگئی اور کئی اہم قائدین نے دوری اختیار کرلی۔ ان تجربات سے بی جے پی کو سبق حاصل کرتے ہوئے عوامی رائے اور جذبات کو ملحوظ رکھنا ہوگا اور حکمرانی میں کسی قسم کی جارحیت یا فرقہ پرستی کو جگہ نہ دی جائے۔ اقتدار کسی بھی پارٹی کیلئے مستقل نہیں ہوتا اور عوام کا فیصلہ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ پانچ ریاستوں کے نتائج کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو مودی سے مقابلہ کیلئے کسی مقبول چہرہ کی تلاش ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی ملک بھر میں نریندر مودی کے متبادل کے طور پر ابھرتے دکھائی نہیں دیتے۔ لہذا دیگر سیکولر جماعتوں نے 2019 ء میں بی جے پی اور نریندر مودی سے مقابلہ کیلئے عظیم تر اتحاد کی تجویز پیش کی ہے ۔ بہار کی طرز پر اتحاد کے ذریعہ بی جے پی کے بڑھتے قدم روکے جاسکتے ہیں۔ یوں بھی مرکز میں گزشتہ 20 برسوں سے مخلوط حکومتوں کا دور چل رہا ہے ۔ اگر اترپردیش میں کانگریس ، ایس پی اور بی ایس پی اتحاد ہوتا تو بہار کی طرز پر بی جے پی کی شکست یقینی تھی۔ مودی کے بدلتے لہجہ پر حیدر علوی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
اب اُس کے لفظ بھی کھونے لگے چمک اپنی
اب اُس کی باتوں میں پہلی سی دھار تھوڑی ہے