کریم نگر۔/4جولائی، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے سی آر نے ائمہ اور مؤذنین کو سرکاری خزانہ سے ماہانہ ایک ہزار اور پانچ سو روپئے تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے اور اسی کے ساتھ ریاست بھر میں سرکاری انتظامیہ کی جانب سے ایک ہی دن 8جولائی کو دعوت افطار و طعام کے اہتمام کے ساتھ غریبوں میں 500روپئے فی کس کے حساب سے ملبوسات کی تقسیم کا اعلان کیا ہے اور اسے مسلمانوں کو رمضان المبارک کے تحفہ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب علمائے دین کی کیا رائے اور فیصلہ ہوگا۔ اس لئے کہ قبل ازیں کانگریس دور حکومت میں بھی ائمہ و موذنین کو پانچ ہزار روپئے ماہانہ تنخواہیں دینے کی بات رکھی جانے پر سخت اعتراض کیا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے مساجدسرکاری نظم و نسق کے تحت آجائیں گی آزادی نہیں رہے گی۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی کے عمل دخل میں حکومت کی مداخلت کا امکان رہے گا وغیرہ۔ ویسے کچھ ائمہ مساجد کی جانب سے کے سی آر کے اس فیصلہ کی تعریف کی جارہی ہے۔ الکٹرانک چینل پر امام مکہ مسجد حیدرآباد اور تاریخ داں و دانشور علامہ اعجاز فرخ نے بھی کے سی آر کے اس فیصلہ کی ستائش کی ہے۔ قیوم انور کے سوالات کے جواب میں علامہ اعجاز فرخ نے کے سی آر کے اس اقدام کو نواب میر عثمان علی خان کے طرز عمل سے تشبیہ دیتے ہوئے غریبوں میں فی کس پانچ سو روپئے کے ملبوسات دیئے جانے کو کے سی آر کی جانب سے غریبوں کو تحفہ کہا ہے اور ائمہ و موذنین مساجد کے لئے ایک طرح سے مالی امداد کہا ہے۔ کریم نگر ضلع انتظامیہ اپنی لاعلمی کی وجہ سے زکواۃ کے کپڑوں کی تقسیم کہا جارہا ہے۔ مولانا خیر الدین صدر جماعت اسلامی ہند شاخ کریم نگر نے کے سی آر کے اس فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے خزانہ سے یہ تنخواہیں دی جارہی ہیں اس میں ہمارا بھی ٹیکس کی شکل میں دیا ہوا روپیہ شامل ہے اسے لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جبکہ مولانا برکت اللہ قاسمی استاذ حدیث نے اعتراض کیا ہے اور کہا کہ حکومت جب تنخواہ دینا شروع کردے تو خدشہ ہے کہ مسلمان مساجد کو عطیات چندہ وغیرہ دینا بند کردیں گے اور مساجد کے انتظامی امور میں بھی ہوسکتا ہے کہ حکومت کی مداخلت یا دباؤ کا امکان ہے۔ مولانا خواجہ علیم الدین نظامی نے کہا کہ حکومت دے رہی ہے تو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ہم بھی برابر کے شہری ہیں۔ کچھ ائمہ مساجد نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا کہ کے سی آر کے ایک ہزار دینے سے کیا ہوگا اس سے زیادہ رقم تو معذوروں کو وظیفہ میں دی جارہی ہے۔ مسجد کے امام کاجو مقام ہے ان کے لئے ایک ہزار روپئے رقم اس مقام کی بے عزتی کے مترادف ہے۔ کئی ایک مساجد کے ائمہ نے سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے بہت سارے مسائل ہیں حکومت ان مسائل کو حل کرے۔ کے سی آر نے چناؤ سے قبل مسلمانوں کو تعلیم اور ملازمت میں 12فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا اور گزشتہ رمضان اور بعد میں بھی کہا تھا کہ بہت جلد 12فیصد تحفظات کو یقینی بنایا جائے گالیکن ایک سال کا عرصہ ہوچکا ہے کچھ نہ کچھ وجوہات بتاتے ہوئے اسے ٹالا جارہا ہے۔مسلمانوںکی فلاح و بہبود کے تحت بجٹ کا اعلان ہوتا ہے لیکن خرچ نہیںہوتا ، بعض اسکیمات کے قواعد اتنے سخت ہوتے ہیں کہ اس کی تکمیل کیلئے جوتے گھس جاتے ہیں۔ مفتی محمد یونس قاسمی نے بھی ائمہ مساجد کو سرکاری تنخواہ دیئے جانے پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ ہم نے شروع سے ہی اس کی مخالفت کی ہے۔ اس طرح ایک ہزار روپئے کی حقیر رقم کا حکومت کا اعلان ائمہ کی تذلیل ہے۔ مفتی غیاث محی الدین نے کہا کہ معزز پیشہ امامت کے لئے پہلے تو ایک ہزار روپئے تنخواہ ائمہ کی توہین ہے دوسری اہم وجہ قبول نہ کرنے کی یہ ہوگی کہ آئندہ حکومت مساجد کے معاملات میں دخل دے گی جبکہ مسلمانوں کا جذبہ ایمان زندہ ہے۔جبکہ کئی ایک مساجد کے اماموں کی تنخواہیں 10، 15اور 20ہزار سے بھی زائد ہیں۔ ائمہ مساجد کی تنخواہوں کے لئے حکومت کے محتاج نہیں ہیں ان خیالات کا اظہار مختلف علماء نے کیا۔ انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ حکومت واقعی مسلمانوں سے ہمدردی رکھتی ہے تو بہت سارے مسائل ہیں انہیں حل کرے۔ کئی مسلمان بیروزگار ہیں جن میں تعلیم یافتہ بھی ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی ہیں ان میں جسمانی معذور بھی ہیں اور نابینا بھی جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان کے لئے معقول ماہانہ وظیفہ مقرر کرتے ہوئے کے سی آر ان کی دعائیں لیں۔ بعض ائمہ مساجد اور مفتیوں نے تنخواہ لینے یا نہ لینے کے بارے میں کوئی خیال ظاہر نہیں کیا۔ مفتی اعتماد الحق امام مدینہ مسجد نے بھی حکومت کی جانب سے تنخواہ لے جانے پر اعتراض کیا ہے۔ مفتی محمد ندیم الدین نے کہا کہ ہندوستان دارالامن ہے مذہبی آزادی ہے، اسلامی ممالک کے مساوی ہے اسی بنیاد پر کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مملکت کے مماثل کا درجہ ہے اسی لئے ہندوستان کی جانب سے اسلامی ملک کی اسوسی ایشن میں رکنیت دینے کی خواہش بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے ائمہ مساجد اور موذنین کی تنخواہ دی جارہی ہے تو لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ امامت کا جو منصب ہے اس کے شایان شان مشاہرہ ہونا چاہیئے، ایک ہزار روپئے مناسب نہیں ہے۔ ائمہ کی تنخواہ معقول ہونی چاہیئے۔ البتہ جن مساجد میں کوئی آمدنی ہی نہ ہو اور نہ وہاں کوئی چندہ عطیہ وغیرہ نہ ہو تو ایسی مساجد کے اماموں کو ایک ہزار بھی مل رہا ہے تو شکریہ کے ساتھ قبول کرلینا چاہیئے۔