آہ ! اے پی جے عبدالکلام ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

ظفر آغا
الوداع اے پی جے عبدالکلام الوداع ! بھلا کون سابق ہندوستانی صدر ہوگا جس کی موت پر ہر ہندوستانی بے چین ہو اٹھا ہو ۔ لیکن عبدالکلام وہ سابق ہندوستانی صدر تھے جن کی موت پر ہر ہندوستانی کی چشم نمناک ہو اٹھی۔ کیا امیر ، کیا غریب ، کیا صدر مملکت ، کیا وزیراعظم ، کیا ٹیچر اور کیا اسکولی بچے ، اور تو اور گھروں میں رہنے والی جوان اور بوڑھی عورتیں بھی عبدالکلام کی موت پر غمناک تھیں ۔ آخر ایسا کون سا جادو تھا جس نے ہر ہندوستانی کو کلام کا گرویدہ کردیا تھا ؟ وہ کیا بات تھی کہ ان کی موت پر ہر ہندوستانی کو یہ احساس ہورہا تھا کہ گویا ملک ایک عظیم شخصیت سے خالی ہوگیا ! سچ تو یہ ہے کہ اے پی جے عبدالکلام کوئی سیاستداں نہ تھے ۔ انہوں نے سیاست کے میدان میں کوئی ایسا گل نہیں کھلایا تھا جس کے لئے وہ ہردلعزیز ہوتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑے سائنسداں تھے انھیں ’میزائل میان‘ کے نام سے ہی جانا جاتا تھا ، یعنی انھوں نے ہندوستان کو بڑے طاقتور میزائیلوں سے لیس کیا تھا ۔ مگر اس میں بھی ایسی بات نہ تھی کہ اگر وہ ایسا کرتے تو کوئی دوسرا سائنسداں ہندوستان کی وہ خدمت نہ کرپاتا جو انہوں نے سائنس کے میدان میں کی تھی  ۔ان کا نام ہندوستان کے جوہری بم کے ساتھ جڑا ضرور تھا لیکن اس کے وہ موجد نہیں تھے ۔ پھر بھی کلام صاحب کی موت پر پورا ملک بے چین ہو اٹھا  وہ ٹی وی ہو یا اخبار ، محلے کی بیٹھکیں ہوں یا دفتر کی چہ میگوئیاں ، نکڑ کی دکان ہو یا پان والے کا ڈبہ ، ہر سو کلام صاحب کا ذکر تھا اور ہر زبان ان کی تعریف کرتے نہ تھکتی تھی۔

پھر وہی سوال کہ وہ کیا بات تھی جس نے ہر ہندوستانی کو اے پی جے عبدالکلام کا دیوانہ بنادیا ۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس ملک میں اور بھی سائنسداں آئیں گے ، کلام سے بہتر میزائل میان پیدا ہوجائیں گے ، لیکن ہندوستان کو دوسرا کلام نہیں میسر ہوگا ۔ کیونکہ کلام ایک فقیر تھے، ایک درویش تھے ، ان کی ہرسانس میں ہندوستان اور ہندوستانیوں کی محبت سمائی ہوئی تھی ۔ وہ اتنے بلند انسان تھے کہ ان کے آگے صدارت کی کرسی اور عہدہ چھوٹا نظر آتا تھا ۔ یہ کمال صرف ان کی ہی شخصیت میں تھا کہ جس دور میں بی جے پی اور سیکولر خیمے میں گجرات فسادات کے معاملے پر تلواریں کھنچ گئی تھیں ، اس دور میں وہ کیا کانگریس رہی ہو یا بائیں پارٹیوں کا محاذ اور کیا صوبائی پارٹیاں ہوں یا خود بی جے پی کا این ڈی اے مورچہ ، ہر سیاسی جماعت نے اے پی جے عبدالکلام کا نام صدارت کے عہدے کے لئے سنتے ہی بغیر کسی چون و چرا کے انکے نام پر اتفاق کرلیا ۔ یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ کلام صاحب اس ملک کے صدر بن گئے ۔ ہوا کچھ یوں کہ جب واجپائی دور حکومت میں ایک نئے صدر کی تلاش شروع ہوئی تو بی جے پی کو کوئی ایسا نام سوجھتا ہی نہ تھا کہ جو اپوزیشن پارٹیوں کو بھی منظور ہو ۔ کیونکہ نمبر گیم میں واحد بی جے پی اور اسکی حلیف این ڈی اے پارٹیوں کی حمایت سے کوئی صدر نہیں بن سکتا تھا ۔ سارا سیاسی نظام اس پس و پیش میں تھا کہ کہاں سے ایسا شخص لایا جائے جو سب کو منظور ہو ۔ ایسی صورت میں ملائم سنگھ یادو نے کلام کے نام کی پیشکش کردی ۔ بس واجپائی فوراً راضی ہوگئے ۔ ان کی منظوری کے بعد کانگریس سمیت تمام سیکولر خیموں نے بھی کلام کے نام پر حامی بھرلی اور بس ہندوستان کا یہ میزائل میان صدارت کی کرسی پر جابیٹھا  ۔

سیاسی اعتبار سے عہدہ صدارت محض شان و شوکت کا عہدہ ہوتا ہے ۔ یوں تو ہر فیصلے پر صدر مملکت کی ہی مہر ثبت ہوتی ہے اور وہ فوج کا اعلی کمانڈر بھی ہوتا ہے ، لیکن تمام سیاسی طاقت اور فیصلے وزیراعظم ہند کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں ۔صدر تو بس وزیراعظم کے فیصلے پر مہر ثبت کرتا ہے ۔ اس اعتبار سے صدر ہندوستان کسی امریکی صدر جیسی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا ہے ۔ یعنی صدارت کے عہدہ پر فائز ہو کر اس ملک میں کوئی شخص ملک کو اپنا گرویدہ نہیں بنا سکتا ہے ۔ پھر بھی کلام صاحب نے اس مقام سے پورے ملک میں اپنا لوہا منوالیا ۔ وہ کیسے ؟ دراصل یہ اے پی جے عبدالکلام کی سادگی اور منکسرالمزاجی تھی جس نے ہندوستان کو انکا گرویدہ بنادیا تھا ۔ جیسا میں نے عرض کیا کہ ان کی شخصیت میں فقیری اور درویشی کا ایک انوکھا عنصر تھا جس کے باعث ہر شخص ان کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا ۔ ان کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ ہندوستان کسی طرح جلد سے جلد ایک سپر پاور بن جائے اور ترقی کی ان منزلوں کو چھولے جہاں تک شاید کوئی اور نہ پہونچ پائے ۔ اس کے لئے وہ اس بات کو ضروری سمجھتے تھے کہ اس ملک کے ہر گھر میں تعلیم کا چراغ روشن ہو ۔ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ اگر ہر ہندوستانی تعلیم یافتہ ہوگا تو ہندوستان کی ترقی کو کوئی روک نہیں سکے گا ۔ ان کو ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ تھا ۔ وہ ٹامل ناڈو کے ایک چھوٹے سے ماہی گیر باپ کے گھر پیدا ہوئے ، جہاں تعلیم کا کوئی ایسا بڑا ڈنکا نہیں بجتا تھا ۔ وہ ایک عام ہندوستانی کی طرح ایک معمولی سے گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ لیکن ان کو تعلیم حاصل کرنے کی ایسی لگن تھی کہ جب ان کو تعلیم حاصل کرنے میں مالی مشکلات پیش آئیں تو انہوںنے اخبار بیچ کر اپنی فیس ادا کی اور تعلیم حاصل کی ۔ آخر اس تعلیم نے ان کو ’’میزائل میان‘‘ بنادیا ، جہاں سے وہ صدارت کے عہدہ تک پہونچ گئے ۔ اس بات کو کلام صاحب نے گرہ باندھ لی ۔ بس صدرات کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد سے اپنی آخری سانس تک انہوں نے اپنا یہ مشن بنالیا کہ وہ پورے ملک میں گھوم گھوم کر لوگوں کو یہ سمجھاتے کہ تعلیم ہی ترقی ہے ۔ اس کے لئے وہ ملک کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی اور چھوٹے سے چھوٹے اسکول تک گئے ۔ جس نے بھی ان کے مشن کو سمجھنے کے لئے ذرا سی دلچسپی دکھائی بس وہ اس کے پاس خود پہونچ گئے ۔ ان کو یہ خیال بھی نہ آتا کہ وہ صدارت کے عہدے پر فائز ہیں اور اس عہدے کی اپنی شان و شوکت ہوتی ہے ۔ ان کو چھوٹی جگہوں پر نہیں جانا چاہئے ۔

لیکن جب فقیری اور درویشی آپ کی روح بن جائے تو پھر ہر عہدہ چھوٹا ہوجاتا ہے اور مشن بڑا ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے ہندوستان کا یہ بے لوث فقیر ہر دروازے پر کچھ مانگنے کے لئے نہیں بلکہ تعلیم کاچراغ روشن کرنے کے لئے خود پہونچ جاتا ۔ تب ہی تو جب اے پی جے عبدالکلام نے آخری سانس لی تو وہ ایک تعلیمی ادارے میں تھے ، جہاں اپنے مشن کی آخری شمع جلاتے جلاتے انھوں نے اس دارفانی کو الوداع کہہ دیا ۔ ہندوستان کے اس سابق صدر کو نہیں بلکہ دور حاضر کے اس درویش اور عظیم انسان کو ہم سب کا سلام ۔ الوداع عبدالکلام الوداع !