ظفر آغا
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ! مو صل اور رقہ تو ابو بکر البغدادی کے ہاتھوں سے نکل گئے اور اس کی خلافت کا جغرافیائی خاتمہ بھی ہو گیا۔ لیکن ’جہاد ‘ ذہنی طور پر زندہ ہے۔ تب ہی تو پچھلے ہفتے ایک ازبک نے نیو یارک میں لوئر مین ہیٹن ’پاش‘ علاقے میں ’جہادی ‘ حملہ ور نے 8 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خلافت کی جانب سے یہ اعلان بھی ہو گیا کہ امریکی حملہ ان کی جانب سے تھا اور ایسے حملے آگے بھی جار ی رہیں گے۔یعنی خلافت بھلے ہی ختم ہو گئی ہو لیکن خلافت کی ’جہادی سیاست‘ ختم نہیں ہو ئی۔ تمام تر فوجی کا رروائی کے باوجود دہشت گردی زندہ ہے۔ اسامہ بن لا دن مارا گیا اور اب البغدادی کو بھی ختم سمجھئے۔ لیکن اسامہ نے جس جہادی دہشت گر دی کی سیا ست کی داغ بیل رکھی تھی وہ سیاست آج بھی جاری ہے۔ یہ ایک انتہائی خطر ناک صورت حال ہے۔ اس لئے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’جہاد ‘ اور دہشت گر دی کیو ں بر قرار ہے!
در اصل دہشت گر دی یا ’جہاد‘ عالم اسلام اور مسلمانوں کے احتجاج کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں احتجاج ایک جدید سیاسی طرز اختیار کر چکا ہے تو پھر عالم اسلا م میں احتجاج مذہبی رنگ کیوں اختیار کئے ہوئے ہے ! دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ آخر یہ ’جہادی‘ طاقتیں اس قدر مغرب مخالف کیو ں ہیں!
جہا دی سیاست دو قسم کی سیاست ہے۔ اول خود مغرب کی پر وردہ جہادی سیاست اور دوسری مسلمانوں کی احتجاجی جہادی سیاست۔ جب مغرب خود مسلم دہشت کا نشانہ ہے تو پھر مغرب پر وردہ سیاست کے کیا معنی ! یاد کیجئے کہ بیسویں صدی میں جنم لینے والی جہادی سیاست کا پہلا مر کز پاکستان تھا جہاں آج بھی جہادی سیاست جاری ہے۔ ہو ا یہ کہ سن 1980 میں جب سابقہ کمیونسٹ ملک سویت یو نین نے افغانستان پر حملہ کر کے وہاں اپنا قبضہ جما لیا تو امریکہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اپنے کمیونسٹ دشمن سویت یو نین کو افغانستان میں گھیر کر ویت نام کی شکست کا بدلا لیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کا م امریکہ خود اپنی فوج کا استعمال کر کے نہیں کر سکتا تھا۔ اگر امریکہ سویت یو نین کے خلاف سیدھے اپنی فوجیں اتار دیتا تو عالمی جنگ کا خطرہ تھا جس کے نا تلافی نقصانات تھے۔ اس لئے امریکہ کو ضرورت یہ تھی کہ سویت یو نین کے خلاف کو ئی اس کی ’پراکسی جنگ‘ لڑ سکے۔ اس کام کے لئے پاکستان تیار تھا جہاں اس وقت جنرل ضیاء الحق ، ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی پر چڑھا کر اقتدار پر قابض ہو چکے تھے۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں اسلام کے نام پر ’نظام مصطفیٰ‘ کے قیام کا اعلان کر دیا تھا اور ضیاء الحق کے سائے میں پاکستان میں اسلام کی آڑ میں فوجی راج کا ڈنڈا چل رہا تھا۔
ضیاء الحق کو پیسہ بھی چاہیے تھا اور عالمی سطح پر اپنی فوجی حکومت کو منوانا بھی تھاجو امریکہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ادھر امریکہ کو افغانستان میں سویت یو نین کو سبق دینا تھا۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سر حد ملتی ہے اس لئے خود امریکی فوج کی مداخلت کے بغیر صرف پاکستان ہی افغانستان میں امریکہ کے لئے جنگ لڑ سکتا تھا۔ لیکن سویت یو نین جیسی اس وقت کی سپر پاور کے خلاف کھل کر خود پاکستان کو اپنی فوج افغانستان میں بھیجنا آسان نہیں تھا۔ اس پس منظر میں سویت یو نین کے خلاف عالم اسلام میں ’جہاد ‘ کا نعرہ اٹھا۔ جس کو سعودی عرب نے مذہبی رنگ اور اپنی دولت کی پشت پناہی دی اور بس دیکھتے دیکھتے تمام عالم اسلام میں مسجدوں سے جوانوں کو جہاد کے لئے افغانستان جا کر ’ حر مت اسلام ‘ کی تر غیب دی گئی۔ پاکستان اس امریکی جہاد کا مر کز بنا۔ جہاں سی آئی اے نے اسامہ بن لا دن جیسوں کو فو جی ٹرینگ دی اور ہزاروں مسلم جہادیوں نے افغانستان میں سویت یو نین کو ایسی دھول چٹائی کہ کچھ عر صے بعد سویت یو نین ہی ٹوٹ کر ختم ہو گیا۔
اس طرح 20 ویں صدی کے آخر ی دور میں جس جہادی سیاست کی شروعات ہو ئی وہ امر یکہ کی ایک حکمت عملی تھی جس کا مقصد سویت یو نین کو سبق سکھا نا تھا۔ لیکن جلدی ہی امریکہ کے ہاتھوں سے یہ کھیل نکل گیا۔ سن 1990 کی دہائی میں جب صدام حسین نے کو یت پر حملہ کیا تو اس وقت جواباً امریکہ نے کو یت کو بچانے کے لئے اپنی فو جیں صدام کے خلاف کو یت کے چاروں طر ف اتار دیں اور حملہ کر کے عراقی فو ج کو کو یت سے پسپا کر دیا۔لیکن اب سعودی عرب سمیت تمام زیادہ تر عرب ممالک میں امریکی فوجی اڈے کھل گئے۔ یہ بات سب سے پہلے اسامہ بن لا دن کو منظور نہیں ہو ئی۔ اسامہ بن لادن نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور جواز یہ دیا کہ مکہ اورمدینہ کے نزدیک امریکی فو جیں نہیں رہ سکتی ہیں۔ یہ بات سعودی حکومت کو منظور نہیں تھی۔ اسامہ بن لا دن نے جہادی سیاست کی کمان خود اپنے ہا تھوں میں سنبھال لی اور اس طرح جہادی سیاست مغرب مخالف بن گئی اور اس کی دہشت کا نشانہ امریکہ سمیت تمام عالم مغرب ہو گیا جو آج بھی جا ری ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اسامہ بن لادن ختم ہو گیا اور القاعدہ بستر مرگ پر پہنچ گئی۔ پھر ابو بکر البغدای نے مغرب مخالف جہادی سیاست کی کمان سنبھال لی اور ایک خلافت بھی قائم کر لی۔ آخر وہ خلافت بھی ختم ہو ئی اور البغدادی پتہ نہیں بقید حیات ہے کہ نہیں۔ لیکن مغرب مخالف جہادی سیاست آج بھی قائم ہے اور یہ سیا ست کسی نہ کسی شکل میں جاری بھی رہے گی۔ لیکن کیوں؟
جیسا عرض کیا کہ ’جہاد ‘ اب مغرب کے خلاف عالم اسلام کے نو جوانوں کا احتجاج ہے۔ یقیناً آج کے دور میں دہشت کے ذریعہ احتجاج ایک غیر انسانی عمل ہے۔ لیکن کم و بیش تمام اہل اسلام مغرب کی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کم و بیش عالم عرب ہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں امریکی فو جی اڈے ہی نہیں قائم ہیں بلکہ جمہویت قائم کر نے کے نام پر امریکی فو ج عراق۔ شام اور لیبیا کو روند چکی ہے جس کے نتیجے میں لا کھوں معصوم مسلمان مارے جا چکے ہیں۔ان تمام اسلامی ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سب ہی ممالک میں عامرانہ نظام ہے جہاں کسی قسم کے سیاسی احتجاج کی کو ئی گنجائش نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل کیسے ہو ! اس سلسلے میں شہزادہ سلمان کی قیادت میں سعودی عرب میں جو پیشرفت ہوئی ہے وہ قابل ستائش ہے۔ سعودی حکومت نے عورتوں کو جو آزادی دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لبرل اسلام کی طرف اپنا جو رجحان کیا ہے وہی راستہ ایسا ہے جو اسلامی ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کو جتنا دبا یا جا تاہے وہ اتنا ہی احتجاج کر تاہے۔ اگر اس کو آزادی ملتی ہے تو وہ فطری طور پر مہذب دائرے میں رہ کر ہی اپنی اظہار رائے کرتا ہے۔ اس لئے اگر عالم اسلام میں آمریت کا خاتمہ ہو گا تو دہشت گردوں کا بھی خاتمہ ہو گا۔ اگر ایسا نہیں ہو تا تو لوئر مین ہٹن جیسے حملے ہوتے رہیں گے اور جہادی سیاست کا خطرہ ختم نہیں ہوگا۔