کے این واصف
ہندوستان میں منعقدہ حالیہ پارلیمانی الیکشن کے چونکا دینے والے نتائج کے بعد ہندوستان کے سیکولر ذہن ہندوؤں اور مسلمانوں میں مختلف قسم کے وسوسے پائے جاتے ہیں جو بی جے پی اور خصوصاً نریندر مودی کے ماضی کے ریکارڈ کی روشنی میں غلط بھی نہیں۔ ملی کونسل انڈیا ریاض چاپٹر نے ریاض کی سماجی تنظیموں کے اراکین ، سماجی کارکنان اور کمیونٹی کے سرکردہ اصحاب کو مدعو کر کے ایک اجلاس کا انعقاد عمل میں لایا جس میں مابعد انتخابات کے منظر نامے پر تفصیلی گفتگو اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور و خوض کیا گیا ۔ اس اجلاس میں سکریٹری جنرل آل انڈیا ملی کونسل دہلی ڈاکٹر منظور عالم نے بھی شرکت کی جو ان دنوں سعودی عرب کے دورہ پر ہیں۔ اس اجلاس میں کلیدی مقرر بھی وہی تھے ۔ منظور عالم کے خطاب کے بعد حاضرین نے الیکشن کے نتائج ، مستقبل قریب کے متوقع حالات اور مسلمانوں کے لائحہ عمل سے متعلق ڈاکٹر منظور عالم سے سوالات بھی کئے۔
اس موقع پر اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ڈاکٹر منظور عالم نے ہندوستانی مسلمانوں میں پائے جانے والے خدشات ، وسوسے اور انجانے خوف سے متعلق کہا کہ مسلمان کیلئے مایوسی جائز نہیں۔ اسے ہمیشہ اپنے خالق و مسبب الاسباب سے امید باندھے رہنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے یہ صبر کے امتحان کی گھڑی بھی ہے اور صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر منظور نے کہا کہ حالیہ الیکشن سیکولرازم کے میزان پر ناکام ہوگیا۔ یہ صرف مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے تمام سیکولر ذہن افراد کیلئے بھی فکر و اندوہ کا وقت ہے ۔ ڈاکٹر منظور نے مشورہ دیا کہ مسلمان ظالم کو بد دعا دینے کے بجائے مسئلہ کے حل کی تلاش کریں۔ ہمیں جذباتی فیصلوں کے بجائے دانشمندی سے کام لینا چاہئے ۔
ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ دشمن ہماری جذباتی فطرت سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی کی جیت سے نہ صرف مسلمان ، سیکولر ذہن ہندو پریشان ہیں بلکہ خود بی جے پی قیادت کا ایک بڑا گروپ اپنے کو شدید دباؤ میں محسوس کر رہا ہے کیونکہ سارے الیکشن مہم میں عوام سے ووٹ بی جے پی کیلئے نہیں بلکہ مودی کے نام پر مانگے گئے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا ہر اشتہار ’’اب کی بار مودی سرکار‘‘ کا نعرہ لگارہاتھا ۔ لہذا بی جے پی قائدین کا خوف ہے کہ اب ملک میں بی جے پی کی نہیں بلکہ مودی کی حکومت قائم ہوگی جو اپنے آمرانہ مزاج کیلئے جانے جاتے ہیں۔ منظور عالم نے کہا اکہ مودی سے خوف زدہ افراد کو اپنی نہیں بلکہ ملک کے دستور کی بقاء اور وقار کیلئے جدوجہد کرنی چاہئے ۔ ہمارا دستور ملک کے تمام طبقات کے ساتھ مساوات و انصاف کی ضمانت دیتا ہے ۔ ہمیں اب انسانی وقار (Dignity of humanity) کی جنگ لڑنی چاہئے ۔
ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ آر ایس ایس نے شاطرانہ چال چلتے ہوئے الیکشن سے قبل بابا رام ، انا ہزارے اور اروند کجریوال جیسے مہرے میدان میں اتارے ۔ جنہوں نے راست یا بالواسطہ طور پر الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ۔ نیز نصف صدی قبل ار ایس ایس نے اپنی فکر کو منصوبہ بند طریقہ سے ہندوؤں کے ذہنوں میں منتقل کرنا شروع کیا تھا اور آج ملک کے ہر شعبہ میں اور خصوصاً ہماری بیورو کریسی میں آر ایس ایس کی فکر کے حامی افراد کام کر رہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی مسلمان نہ متحد ہے نہ ایک ذہن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہندوستان میں ایک متحد مسلم قیادت نہیں بن پائی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ شمالی ہند کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں 40 فیصد مسلمان آباد ہیں اور اس بار ان علاقوں سے بھی بی جے پی امیدوار کامیاب ہوئے ۔ پارلیمنٹ میں مسلم نمائندوں کی تعداد مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ سب سے بڑی افسوس ناک بات یہ ہیکہ اس بار اترپردیش جیسی بڑی ریاست جہاں مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ ابادی ہے سے ایک بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ منتخب نہیں ہوسکا۔
منظور عالم نے کہا کہ ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مودی نے گجرات میں کھلے عام ظلم کیا ۔ انسانیت کی دھجیاں اڑادیں، عدل و انصاف کو پامال کیا ۔ اس بربریت کے تحت سب سے زیادہ گجرات میں جو پھنسے وہ مسلمان تھے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ایسا کچھ سارے ہندوستان کے ساتھ کرے گا جو بارہ سال گجرات میں کیا ؟ شاید نہیں۔ ملکی سطح پر ایسی آمریت ممکن نہیں لیکن مسلمانوں کیلئے اب وقت ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ جیسے بھی حالات سامنے آئیں ان کا ایک جٹ ہوکر مقابلہ کریں۔
ڈاکٹر منظور نے کہا کہ ہمارے فوجی سربراہ وی کے سنگھ جو ریٹائر ہوتے ہی بی جے پی میں شامل ہوگئے ، انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب بھی ہوگئے ۔ وی کے سنگھ نے فوج سے سبکدوشی سے قبل متنازعہ بیانات دینے شروع کئے تھے ۔ انہوں نے کھلے عام کہہ دیا تھا کہ ہماری فوج کے پاس عصری ہتھیار نہیں ہیں۔ ادھر انتخابی مہم کے دوران مودی نے ملک کے نوجوانوں میں بے روزگاری ختم کرنے کا عزم جتایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ملک میں بڑے پیمانہ پر ہتھیار سازی کا کارخانہ کھولا جائے، جس کے ذریعہ ملک میں روزگار فراہم کیا جائے ، پھر انہوں نے ایک جملہ کہا ’’جب ہتھیار بنیں گے تو استعمال بھی ہوں گے‘‘
بہرحال اس اجلاس کا لب لباب یہ رہا کہ ہماری صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے جو ہماری ناکامیوں اور ہمارے مسائل کا سبب ہے ۔ غور طلب یہ ہے کہ ایسے تمام مواقع پر یا جب بھی ہم کوئی ٹھوکر کھاتے ہیں تو ہمیں ہماری قیادت ملت کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہے ۔ ملی کونسل کے اس اجلاس میں سوال و جواب کے دوران ایک صاحب نے جھنجھلاہٹ کے ساتھ ذرا تلخ لہجہ میں ڈاکٹر منظور سے پوچھا کہ جس اتحاد کی بات آپ کر رہے ہیں ، آخر وہ اتحاد ملت میں کب آئے گا اور کون پیدا کرے گا ۔ واقعی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ ہندوستان کے قائد کے پاس ہے نہ عالمی سطح پر ہیں۔
ہندوستانی مسلمانوں میں اتحاد کی بات کوئی آج کل کی نہیں۔ آزادی کے وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اتحاد اور یکجہتی کیلئے ملت کے آگے بہت سر پٹکا لیکن قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس موضوع پر مولانا آزاد کی تقاریر سے ہم یہاں چند جملے رقم کرنا چاہیں گے جو اپنے اندر بڑے گہرے معنی و مطالب رکھتے ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور ان کی گہرائی میں اترنے کی کوشش کیجئے ۔ مولانا کے جملے اس طرح ہیں۔ ’’وقت زندہ قوموں کے احترام میں کروٹ لیتا ہے، تمہیں جینے کا سلیقہ نہیں آیا، تمہارے بغیر ہندوستان کی تاریخ کا ہر فیصلہ ادھورا ہے‘‘۔
اجلاس کا آغاز ڈاکٹر اعتماد انیس کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔ عبیدالرحمن کے افتتاحی کلمات کے بعد ملی کونسل ریاض چاپٹر کے کنوینر خالد نور نے خیرمقدم کیا ۔ عبیدالرحمن کے نظامت کے فرائص انجام دیئے اور آخر میں خالد نور نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔