آسیہ بی بی تحریک لبیک اور مولانا سمیع الحق

امتیاز متین، کراچی
گزشتہ ہفتے پاکستان میں جو ہنگامہ آرائی اور تشدد ہوا ہے اس کی توقع شاید حکومت کو پہلے سے ہو گی۔ یہ بات تو کہی جا رہی تھی کہ ملک میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے پورا ملک بد امنی کی لپیٹ میں آجائے۔ لیکن عام طور پر ساری توجہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے خلاف چلنے والے سنگین بدعنوانیوں اور منی لانڈرنگ کے مقدمات پر ہی تھی۔ فالودے والے کے بعد رکشہ والے کے اکائونٹ سے بھی اربوں روپے کی ٹرانزیکشن کی باز گشت قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی گئی۔ کچھ دن پہلے تک جو اپوزیشن رہنما وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے مل کر کوششیں کرنے کی باتیں کر رہے تھے وہ اسمبلی میں عمران خان کی حکومت کو آئندہ پانچ سال سپورٹ کرنے اور مل کر ملک کی بہتری کے لیے کام کرنے کی باتیں کرتے ہوئے نظر آئے۔ مولانا فضل الرحمن نے حکومت مخالف آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی کوشش کی لیکن نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کرکے مولانا صاحب کی سیاسی چالوں کا فالودہ بنا دیا۔ ادھر وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹکنالوجی اعظم سواتی کو اپنے فارم ہائوس کے قریب رہنے والے غریب گھرانے کے افراد سے جھگڑا کرنے اور اس گھرانے کے مردوں اور عورتوں کو جیل میں بند کروانے اور عمران خان سے آئی جی پولیس اسلام آباد جان محمد کی شکایت کرکے فوری تبادلہ کروانے کے اقدامات پر لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب غریب گھرانے کی گائے نے اعظم سواتی کے فارم ہائوس کی باڑھ کے پتے کھائے تھے، جس پر چوکیداروں نے گائے پر قبضہ کر لیا۔ گائے واپس مانگنے پر جھگڑا بڑھتے بڑھتے غریب گھرانے کے گھر پر گارڈز کے حملے اور پولیس کچہری تک پہنچ گیا۔ اعظم سواتی کو شکوہ تھا کہ آئی جی پولیس میرا ٹیلفون نہیں سن رہا۔ اب عمران خان کو انہوں نے کیا کہانی سنائی ہوگی کہ انہوں نے فون کیا، تبادلے کے احکامات جاری ہو گئے لیکن یہ خبر میڈیا پر بھی آ گئی جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے کر وزیر اعظم کے زبانی حکم پر کارروائی معطل کر دی جس پر وزیر اعظم اور ان کے وزرا کو یقیناً بڑی خفت ہوئی ہوگی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ واضح کر دیا گیا کہ اب پرانی عادتیں نہیں چلیں گی۔ اعظم سواتی نے متاثرہ گھرانے سے ازخود راضی اور معافی نامہ حاصل کر لیا لیکن چیف جسٹس نے اعظم سواتی پر آرٹیکل 62 کے تحت مقدمہ قائم کرکے تفتیش کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنادی۔ جبکہ آئی جی پولیس جان محمد کے دوبارہ اپنی پوسٹ لینے سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے عرفان منگی آئی جی پولیس مقرر کر دیا جو وزیر اعظم نواز شریف کے پانامہ پیپرز کیس کے لیے بنائی جانے والی انویسٹی گیشن ٹیم کا حصہ تھے۔

دریں اثنا گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے برسوں سے عدالتوں میں چل رہے توہین رسالت کیس کا تاریخی فیصلہ سنا دیا جس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ نے کھلی عدالت میں سنایا جس کے مطابق عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد اور گواہوں کے بیانات میں تضاد کی وجہ ہائی کورٹ کے سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے توہین رسالت کے الزام سے بری کر دیا۔ 32 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ اردو میں لکھا گیا ہے جس کا آغاز کلمے سے کیا گیا ہے اور متعدد قرآنی آیات اور احادیث بھی فیصلے میں شامل کی گئی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ کے نام پر جھوٹ بھی توہین رسالت ہے۔ ایف آئی آر وقوعہ کے پانچ روز بعد درج ہوئی، وقوعہ کے وقت 35 افراد موجود تھے لیکن گواہی صرف دو بہنوں نے دی، دبائو پر اعتراف جرم کی قانونی حیثیت نہیں، تفتیشی افسر نے آسیہ کو بائیبل پر قسم اٹھانے کی اجازت نہیں دی، کسی کو پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی ایسا کرنے والا سزا سے بچ سکتا ہے۔ بعض عناصر ذاتی مفادات کے لیے قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں اور دوسروں پر جھوٹا الزام لگا دیتے ہیں۔ منصفانہ ٹرائل کے ذریعے جرم ثابت ہونے تک ہر شخص بے قصور تصور کیا جاتا ہے، بعض شخصیات کو بھی توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی حقیقت اجاگر کرنے پر سنگین نتائج بھگتنا پڑے ہیں، سزا دینے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے، کسی شخص کو حاصل نہیں ہے۔ 1990ء سے اب تک توہین مذہب کے الزام کی وجہ سے ملک بھر میں 62 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ عدالت نے اس فیصلے میں عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبعلم مشال خان کی توہین رسالت کے جھوٹے الزام میں ساتھی طلبا کے ہاتھوں کی ہلاکت اور ایوب مسیح کے کیس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تفصیلی سماعت ہوئی تھی جس کے بعد عدالت نے 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

یہ کیس جون 2009ء میں لاہور کے نزدیک ضلع شیخو پورہ میں فالسے کے کھیت میں کام کرنے والی خواتین کے درمیان جھگڑے سے شروع ہوا تھا جس کا سبب یہ تھا کہ آسیہ بی بی نے مسلمان عورتوں کے برتن سے پانی نکالنا تھا۔ ان عورتوں نے مقامی مسجد کے امام سے شکایت کی جس کے بعد آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا گیا۔ الزام لگانے کے بعد ایک ہجوم نے اس کے گھر پر حملہ کیا جس کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ آسیہ بی بی یہ کہتی رہی تھی کہ اس نے نبی کریم ﷺ کے خلاف کوئی الفاظ ادا نہیں کیے جبکہ پہلے پنچایت میں اس سے اس بات کا اقرار کروایا گیا۔ 2010ء میں سیشن کورٹ نے اسے موت کی سزا سنائی جس کے بعد ہائی کورٹ نے بھی سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے ان دونوں عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کو یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے سے انہیں یکساں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ مقدمہ قائم ہوتے ہی پاکستان میں موجود انسانی حقوق پر کام کرنے والے گروپس نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تھی جبکہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جیل میں جا کر آسیہ بی بی سے ملاقات کی تھی۔ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ آسیہ بی بی پر بھی اسی طرح جھوٹا الزام لگایا گیا ہے جس طرح اس سے پہلے قائم کیے جانے والے مقدمات میں لگائے گئے تھے جس کی وجہ زمین پر قبضہ کرنا یا کسی ذاتی رنجش کا بدلہ لینا تھا۔ سیکورٹی اداروں سے وابستہ لوگوں نے مقدمے کی عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ممتاز قادری کو اپنی حفاظتی ڈیوٹی سے انحراف کرنے اور سرکاری ہتھیار کے غلط استعمال کرنے پر پھانسی کی سزا ہو جائے گی۔ اگر اسے گورنر پنجاب کو قتل کرنا ہی چاہتا تھا تو اسے پولیس کی نوکری چھوڑ کر یہ کام کرنے کی ہمت دکھانی چاہیے تھی۔ اسی سال عیسائی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کو اسلامی شدت پسندوں نے قتل کیا تھا جو جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بنائے گئے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب شاید تحریک لبیک پاکستان نے زور پکڑنا شروع کیا تھا اور ممتاز قادری کو جیل سے باعزت رہائی دلوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن 2016ء میں ممتاز قادری کو سزائے موت دے دی گئی۔ راولپنڈی میں ممتاز قادری کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی جو چاہتے تھے کہ ممتاز قادری کا مزار بنا دیا جائے لیکن حکومت نے اس وقت تو یہ کوشش ناکام بنا دی تھی لیکن بعد میں مزار کی تعمیر پر خاموشی اختیار کر لی۔ اب کہا جاتا ہے کہ تین سے چار ہزار افراد روزانہ ممتاز قادری کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
آسیہ بی بی کے کیس پر سب سے پہلے شدید ردعمل کا اظہار تحریک لبیک پاکستان نے ظاہر کیا جو لاہور میں دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ تبدیل کرے اور اسے سزائے موت دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی فتویٰ جاری کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے تینوں جج واجب القتل ہیں اور جو انہیں قتل کرے گا وہ ممتاز قادری کی طرح جنت میں جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان یہودی بچہ اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو قادیانی قرار دے کر فوج کے دوسرے جنرلوں اور سپاہیوں سے جنرل باجوہ کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی۔ تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی ان باتوں کو ریاست کے فیصلے سڑکوں پر کروانے کی کوشش سمجھا گیا۔ الیکٹرانک میڈیا پر تحریک کی خبریں نشر کرنے پر پابندی تھی لہٰذا اس کے قائدین کے بیانات سوشل میڈیا پر گردش کر رہے تھے۔ اسی دوران یہ پیغام بھی گردش کرتا رہا کہ تحریک کے متعدد فیس بک اور ٹوئیٹر اکاوئنٹ بھارت اور افغانستان کے متعدد شہروں سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں جن سے مسلسل عوام کو بغاوت پر اکسانے والے پیغامات دیے جا رہے ہیں۔ بگڑتی صورتحال اور سپریم کورٹ کے ججوں کے متعلق فتووں اور فوج و پولیس وغیرہ میں بغاوت کروانے کے بیانات پر وزیر اعظم عمران خان نے ہنگامی طور پر قوم سے خطاب کیا جس میں انہوں نے تحریک لبیک کے قائدین اور کارکنان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ریاست سے ٹکرانے کی کوشش نہ کریں۔ انہوں نے تحریک لبیک اور ان کے حامیوں کو چھوٹا سا طبقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو ان کے خلاف ریاست پاکستان کارروائی کرے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن عام شہریوں نے اس بیان پر خوشی کا اظہار کیا جبکہ ناقدین نے کہا کہ ایسا رویہ اور ریاستی طاقت کے استعمال کی باتیں بالکل آخر میں کی جاتی ہیں لہٰذا ان لوگوں سے پہلے مذاکرات کیے جائیں اور انہیں پر امن طور پر منتشر کیا جائے۔ لہٰذا حکومتی وفد نے تحریک لبیک کے قائدین سے مذاکرات شروع کیے جو جمعہ کی ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کے بعد کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت دوسرے مذہبی قائدین بھی ان کی حمایت میں بیانات دینے لگے تھے۔ تحریک لبیک کی تین روزہ ہنگامہ آرائیوں میں قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا، غریب متوسط طبقے کی بہت سی کافر موٹر سائیکلیں اور رکشہ، نصرانی گاڑیاں، ٹرک اور مسافر بسیں توڑنے اور جلا ڈالنے اور پھل فروشوں کے یہودی ٹھیلوں سے کیلے اور انار لوٹ لینے کے بعد تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کا دھرنا ختم کرنے کا معاہدہ طے پا گیا۔ جمعہ کے روز ہی فوج کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا ہمیں اس معاملے میں ملوث نہ کیا جائے اور حالات کو اس نہج پر لے جانے سے گریز کیا جہاں فوج کو آنا پڑے۔ فوج کے ترجمان کا یہ بیان تحریک لبیک کے قائدین کے لیے اپنی جگہ ایک بڑی تنبیہ تھی۔ جمعہ کی شام سے ہی مختلف مدارس اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے ہڑتال اور ہنگامہ آرائی سے لاتعلقی پاک فوج کی حمایت کا اظہار کیا جانے لگا تھا، جس کے بعد حکومت اور تحریک لبیک کے مابین دھرنے اور ہڑتال ختم کرنے کا معاہدہ طے پا جانے کی خبریں ہر نیوز چینل سے نشر ہونا شروع ہو گئیں جس میں تحریک لبیک کے قائدین نے اپنے بیانات سے کسی کی بلاجواز دل آزاری پر معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے گرفتار شدگان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ آسیہ بی بی کے ملک سے باہر جانے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن دائر کی جا چکی ہے جس کے لیے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ کسی کے پاس آسیہ بی بی کے خلاف کوئی نئی شہادتیں ہیں تو وہ عدالت میں پیش کرے، موجودہ شہادتیں اسے سزا دینے کے لیے ناکافی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے عموماً بدلا نہیں کرتے اور اس کیس میں بھی کوئی ایسی ٹھوس شہادت پیش کرنا مشکل نظر آ رہا ہے جس سے سپریم کورٹ کا فیصلہ تبدیل ہو جائے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف تحریک لبیک اور اس کے حامی آسیہ بی بی کو ملعونہ قرار دینے پر بضد ہیں تو دوسری جانب لوگ اس بات پر شکر کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ توہین رسالت کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ لیکن شاید تحریک لبیک کے قائدین کی ضد کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ کیس جھوٹا ثابت ہو گیا تو ممتاز قادری کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟
ابھی یہ ہنگامہ آرائی ختم ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ جمعہ کی شب جمیعت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کے قتل کی خبر آگئی جنہیں اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر کسی نامعلوم شخص نے چاقو کے وار کرکے قتل کر دیا۔ مولانا سمیع الحق کا اکوڑہ خٹک میں مدرسہ حقانیہ سوویت افواج کے خلاف لڑنے والے افغان مجاہدین کا مرکز رہا ہے اور اسی مدرسے سے افغان طالبان تحریک نے جنم لیا تھا جبکہ طالبان رہنما ملا عمر سمیت معتدد طالبان رہنمائوں نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا سمیع الحق اب بھی افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں سرگرم عمل تھے۔ وزیر اعظم عمران خان اور مولانا سمیع الحق کے تعلقات میں کافی گرمجوشی پائی جاتی تھی اسی وجہ سے وزیر اعظم بننے سے قبل عمران خان نے ان کے مدرسہ حقانیہ کو صوبہ خیبر پختونخواہ کی پی ٹی آئی حکومت سے بھاری گرانٹس دلوائی تھیں تاکہ اکوڑہ خٹک کے مدرسے میں دوسرے عام مضامین کی تعلیم بھی شروع کروائی جا سکے۔ مدرسے کو گرانٹس دلوانے کے معاملے پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی لیکن تب بھی عمران خان نے یہی کہا تھا کہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچے بھی پاکستانی ہیں۔